ایک عرصے سے یہ بات دہرائی جا رہی ہے کہ افغان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ کیا یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یا دونوں الگ الگ شناخت رکھتے ہیں اور یہ کہ دونوں کا ایک دوسرے پر اثر رسوخ کس حد تک ہے؟
بالخصوص افغانستان کی حالیہ بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں افغان اور پاکستانی طالبان کے رشتے پر تجزیہ نگاروں کی طرف سے نہ صرف خصوصی نظر رکھی جا رہی ہے بلکہ اکثر یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن آنے کی صورت میں پاکستانی طالبان کا مستقبل کیا ہوگا۔
تاہم اس سارے معاملے کو سمجھنا سے قبل ہمیں مختصراً عسکری تنظیموں کا پس منظر دیکھنا ہوگا۔
شدت پسند تنظیموں قائم کیسے ہوئیں؟
اسی کے عشرے کے اوائل میں جب افغانستان میں سابق سویت یونین کے خلاف باقاعدہ طور پر مزاحمت کا آغاز ہوا تو عسکری تنظیموں کا وجود بھی عمل میں آیا۔ تاہم افغان ’جہاد‘ میں ریاستوں نے پہلی مرتبہ ایک اتحاد کی شکل میں کھل کر شدت پسندوں کی حمایت کی اور مشرق وسطی سے لے کر پاکستان اور افغانستان تک عسکریت پسندوں کے بڑے بڑے جتھے تیار کر کے انہیں تربیت فراہم کی۔
افغانستان پر لکھی گئی کئی کتابوں میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ روس کے خلاف جنگ میں ویسے تو کئی ممالک اس اتحاد کا حصہ رہے لیکن ان میں تین ممالک خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے سویت یونین کو شکست دینے کے لیے مجاہدین گروپوں کو اسلحہ اور پیسہ دیا، پاکستان نے پناہ گاہیں فراہم کیں اور جہادیوں کا بڑا فورس تیار کیا۔
ایک دہائی تک افغانستان میں مزاحمت جاری رہی۔ اس دوران دنیا بھر کے عسکریت پسندوں کا آپس میں ایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہوا۔ اس جنگ کی قیادت بیشتر اوقات عرب جنگجوؤں کے ہاتھوں میں رہی اور اس دوران القاعدہ تنظیم کا وجود بھی عمل میں لایا گیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ القاعدہ تنظیم کا قیام پشاور میں لایا گیا تھا۔ ان دنوں پشاور کا یونیورسٹی ٹاؤن کا علاقہ عرب اور افغان عسکریت پسندوں کا بڑا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں سے لڑائی کی منصوبہ بندی ہوا کرتی تھی۔
افغانستان میں سویت یونین کی شکست کے بعد اس خطے میں عسکری تنظیموں کو ایک نئی تحریک ملی اور ان کی طاقت تیزی سے بڑھتی گئی۔
نائن الیون
امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعد افغانستان پر حملہ کر کے ملا محمد عمر کی طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس حملے کے بعد وہاں موجود اکثر غیرملکی شدت پسند اور افغان طالبان کی قیادت نے بھاگ کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے لی۔
افغان مزاحمت کے دوران زیادہ تر منصوبہ بندی اس وقت کے فاٹا سے ہوتی رہی تھی جبکہ اکثر گروپوں کے ٹھکانے بھی وہاں قائم تھے۔ لہذا افغان طالبان اور القاعدہ کے پہلے سے پاکستانی شدت پسندوں سے مضبوط مراسم قائم ہوچکے تھے۔
تاہم جب افغانستان سے فرار ہونے والے طالبان اور غیر ملکی جنگجوؤں پر مشکل وقت آیا تو سب سے پہلے پاکستانی طالبان گروہوں بالخصوص جنوبی اور شمالی وزیرستان کے مقامی شدت پسندوں نے بڑھ کر ان کی مدد کی۔
تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود نے اپنی کتاب ’انقلاب محسود‘ میں افغان طالبان، القاعدہ اور پاکستانی جنگجوؤں کے تعلق پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ بیت اللہ محسود اور عبد اللہ محسود اس وقت افغان طالبان اور دیگر غیر ملکی جنگجوؤں کے انتہائی قریب تھے اور یہی دونوں رہنما ان کی خدمت پر مامور تھے۔
حلقہ محسود اور تحریک طالبان پاکستان کا قیام
مفتی نور ولی نے اپنی کتاب میں مزید لکھا ہے کہ نوے کے عشرے کے اواخر میں بیت اللہ محسود نے سب سے پہلے حلقہ محسود کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ محسود بنانے کے لیے بیت اللہ محسود نے باقاعدہ طورپر افغان طالبان سے بات کی تھی اور ان کی اجازت سے یہ حلقہ قائم کیا گیا تھا۔ نور ولی محسود کے مطابق اس طرح بعد میں تحریک طالبان پاکستان کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور اس میں بھی افغان طالبان اور غیر ملکی جنگجوؤں کی مرضی شامل تھی۔
ایک ہی سکے کے دو رخ
تحریک طالبان کا پاکستانی حکومت کے خلاف نقطہ نظر اور افغان طالبان کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلق کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے دونوں گروپوں کے درمیان شدید ٹکراو ہوگا مگر ٹی ٹی پی قیادت کے بیانات اور انٹرویوز کا عمیق جائزہ اس کی تائید نہیں کرتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحریک طالبان پاکستان پر تحقیق کرنے والے سویڈن میں مقیم نوجوان محقق عبد السید کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی تمام قیادت نے ہمیشہ سے اپنی تحریک کو افغان طالبان اور ملا محمد عمر کا ایک ذیلی گروپ قرار دیا ہے جس سے متاثر ہو کر انہوں نے بھی پاکستان میں طالبان طرز کے شرعی نظام اور پاکستانی ریاست سے نائن الیون کے بعد افغان طالبان کے خلاف امریکہ کی حمایت کا انتقام لینے کے لیے اپنی جنگ کا آغاز کیا۔
ان کے مطابق ’ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کا تعلق ایسا ہے جیسے یک جان دو قلب، ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا، یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔‘
البتہ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے دوحہ میں ایک انٹرویو میں اس بات کی تردید کی تھی کہ پاکستانی عسکریت پسند ان کے زیر قبضہ علاقوں میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ افغان حکومت کے علاقوں میں ہیں۔‘
عبدالسید نے مزید کہا کہ تحریک طالبان پاکستان دراصل القاعدہ اور افغان طالبان کا ایک مرکب رہا ہے جس کے قیام میں القاعدہ نے درپردہ اہم کردار ادا کیا۔ القاعدہ کا بنیادی منشور یہ رہا ہے کہ وہ عالمی سطح پر جہادی تحریکوں کو پھیلائے اور ان کے قیام اور استحکام میں ان کی معاونت کرے۔ اسی تناظر میں اسامہ بن لادن کے خفیہ مکتوبات سے پتہ چلتا ہے کہ القاعدہ نے پاکستان میں تحریک طالبان کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا اور شروع سے تحریک کو مختلف شکلوں میں معاونت فراہم کی۔
افغانستان پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان کا وجود افغان طالبان کے بطن سے ہوا ہے لہذا ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ’دونوں گروپ نظریاتی طورپر ایک ہیں اور خطے میں جہاد کے متعلق ان کے خیالات میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستانی طالبان ان علاقوں میں سرگرم ہیں جہاں افغان طالبان کا اثر رسوخ زیادہ ہے اور وہاں وہ اپنے طورپر کوئی کام بھی نہیں کرسکتے بشرطیکہ انہیں افغان طالبان کی حمایت حاصل نہ ہو۔
ان کے بقول ’ٹی ٹی پی چونکہ ریاست پاکستان کے مخالف ہے اس لیے افغان طالبان کھول کر ان کی حمایت نہیں کرتے اور نہ پاکستان میں ہونے والے حملوں میں کبھی ان کی معاونت کی لیکن دوسری طرف ان کے خلاف کارروائی بھی نہیں کرتے کیونکہ دونوں کے درمیان ’خاموش احترام‘ کا رشتہ ہمیشہ سےقائم رہا ہے۔‘
سمیع یوسفزئی کے مطابق افغان طالبان اس وجہ سے پاکستانی شدت پسندوں کو اپنے سے جدا نہیں کر سکتے کیونکہ اگر کل کو افغانستان میں امن مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو افغان جنگجو پناہ کے لیے پھر سے پاکستانیوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
افغانستان میں امن کے لیے جاری کوششوں کے تناظر میں یہ سوال بار بار دہرایا جارہا ہے کہ اگر افغان طالبان حکومت حصہ بنتے ہیں تو پھر وہاں موجود پاکستانی جنگجوؤں کا مستقبل کیا ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں دعوی کیا تھا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی سے وابستہ جنگجوؤں کی تعداد چھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
تجزیہ نگار اور مصنف عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے کہ اگر افغان طالبان حکومت میں آتے ہیں تو انہیں پھر پاکستانی طالبان سے نمٹنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ٹی ٹی پی کے مختلف گروپس تیزی سے دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کی طاقت مزید بڑھی گی اور اس سے خیبر پـختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی کے مسائل پیش آسکتے ہیں۔