کراچی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 14 فروری کو اخبارات میں ایک اشتہارکے ذریعے افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کی شہر میں موجود پانچ غیر منقولہ جائیدادوں کی نیلامی کرانے کا اعلان کیا جبکہ 20 فروری کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو ہدایت دی کہ وہ افغان طالبان رہنما کی تمام جائیدادوں کوضبط کرنے کی رپورٹ پیش کریں۔
یہ خبر پاکستان اور افغانستان سمیت دنیا بھر میں اہمیت کی حامل رہی مگر کراچی میں افغان طالبان کے امور سے واقف حلقوں کے لیے یہ کوئی نہیں بات نہیں۔
پاکستان کا ساحلی شہر کراچی افغانستان میں جاری شورش کے حوالے سے شروع ہی سے اہم رہا ہے۔ 1979 میں افغانستان میں سوویت یونین کی افواج کی دراندازی سے شروع ہونے والے تنازعے کے سبب افغانوں کی ایک بڑی تعداد جانیں بچانے کے لیے پاکستان پہنچی۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے کراچی کا رخ کیا اور رواں سال ان کے قیام کے 40 سال بھی مکمل ہوگئے۔
کراچی میں افغان پناہ گزینوں کے ایک رہنما نے بتایا کہ ’شروع شروع میں افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف بننے والی برسرپیکار مجاہدین تنظیموں نے پشاور اور کوئٹہ کی طرح کراچی میں بھی افغان پناہ گزینوں کے لیے اپنی تنظیموں کو فعال رکھا تھا اور بچوں کے لیے اسکول بھی قائم کیے تھے۔‘
ان کے بقول: ’گلبدین حکمت یار، عبدالرؤف سیاف اور پیر سید احمد گیلانی کے گروہ کراچی کی مہاجر بستیوں میں زیادہ تر فعال تھے، البتہ 1996 میں افغانستان میں افغان طالبان کے کنٹرول کے بعد کراچی سے بھی مجاہدین تنظیموں کا صفایا ہوگیا۔‘
شروع ہی سے افغان طالبان کے لیے کراچی شہر یہاں قائم بڑے دینی مدارس کی وجہ سے کافی اہم رہا۔ یہ کراچی کے ہی دیوبندی مسلک کے مدارس تھے جہاں پہلے افغانستان میں روسی افواج کی دراندازی اور بعد میں احمد شاہ مسعود کی سربراہی میں طالبان کے خلاف بننے والے شمالی اتحاد کے خلاف فتوے جاری ہوئے۔
دینی تعلیم میں عالمی طور پر شہرت کے حامل کراچی کے مدرسے جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن نے افغانستان میں افغان طالبان کی مدد اور حمایت کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا جبکہ دیگر مدارس میں جامعۃ الرشید، جامعہ اشرف المدارس، مدرسہ احسن العلوم اور دارلعلوم رحمانیہ قابل ذکر تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
90 کی دہائی میں متعدد بار افغانستان دورہ کرنے والے کراچی کے ایک سابق مدرسہ طالب علم قاری اشرف نے بتایاکہ 80 اور 90 کی دہائی میں افغانستان جہاد میں حصہ والے طلبہ انہی مدارس میں اساتذہ بنے جن کے اثر کی وجہ سے مدارس کے سینکڑوں طلبہ افغانستان میں افغان طالبان کی مدد کے لیے وقتاً فوقتاً جاتے رہے۔ ’کچھ کو شمالی اتحاد کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کے لیے بھیجا جاتا تھا جبکہ اکثریت کو افغان طالبان حکومت کی وزارتوں میں مدد کے لیے رکھا جاتا تھا۔‘
نائن الیون کے بعد جب افغان طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو پھر بھی ایک عرصے تک انہی مدارس کے طلبہ افغان طالبان کی مدد کے لیے جاتے رہے۔ البتہ مشرف دور میں پاکستانی حکومت کے جہادی تنظیموں اور مدارس کے خلاف اقدامات کے بعد مدارس کی جانب سے طلبہ بھیجنے کاسلسلہ ختم ہوا، تاہم انفرادی طور پر یہ سلسلہ جاری رہا۔
افغان طالبان کی کراچی میں سرگرمیوں سے واقف ایک مذہبی جماعت کے رہنما کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے نچلی سطح کے حمایتی کراچی کی پختون کچی آبادیوں میں مقیم ہیں جبکہ قیادت زیادہ تر شہرکے پوش علاقوں میں رہتی ہے۔’افغان طالبان کے موجودہ اراکین میں بھی بڑی تعداد کراچی میں ہی پلی بڑھی ہے جبکہ اکثر رہنماؤں کے خاندان کراچی میں ہی مقیم ہیں۔‘
پاکستانی طالبان کے خلاف فعال ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’افغان طالبان پاکستان میں حکومت مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ریڈار میں کم آتے ہیں۔‘
البتہ کراچی میں طالبان کے متعدد اعلیٰ رہنما گرفتار بھی ہوئے ہیں جن میں طالبان کے اہم رہنما ملاعبدالغنی برادر بھی شامل ہیں جو رہائی کے بعد آج کل گروہ کے قطر دفترکے سربراہ ہیں۔ دیگر رہنماؤں میں طالبان کے دور میں کابل پولیس کے سربراہ اخوندزادہ پوپلزئی، افغان طالبان کے القاعدہ امورکے لیے نگران امیر معاویہ، طالبان دورکے سابق نائب وزیر خارجہ ملا جلیل، ہلمند میں طالبان جنگجوؤں کے کمانڈر ابوحمزہ قابل ذکر ہیں۔
ملا اختر منصور کی کراچی میں کتنی جائیدادیں؟
سابق طالبان سربراہ ملا اختر منصور کی شہر میں جائیدادوں کے حوالے سے طالبان کے امور سے واقف حلقوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے پاکستان اور خصوصی طور پر کراچی اور متحدہ عرب امارات میں رئیل اسٹیٹ، کنسٹرکشن اور ٹرانسپورٹ کے ادارے قائم رکھے ہیں۔
ملا اختر منصور، جنہوں نے 2015 میں گروہ کی قیادت سنبھالی تھی، کو مئی 2016 میں ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے، ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے تفتیش اس وقت شروع کی گئی تھی جب جائے وقوع کے قریب ملامنصور کا جعلی پاکستانی شناختی کارڈ برآمد ہوا تھا۔ ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق، منصور کے پاس دو جعلی پاکستانی شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹس تھے اور وہ کراچی میں کئی املاک اور زمینوں کے مالک تھے۔ ایف آئی آر میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد جس میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف پابندیوں کو لازمی قرار دیا گیا تھا، کے حوالے سے کہا گیا کہ ’اس سے ظاہر ہوا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 1267 کے تحت ہونے کے باوجود، وہ املاک کے لین دین میں ملوث تھے اور بعد میں انہیں چھ غیر منقولہ املاک کا مالک پایا گیا۔‘
رپورٹ کے مطابق، منصور کی املاک میں ایک گھر، ایک پلاٹ اور چار فلیٹس، جو کہ کراچی کے پوش علاقوں گلشنِ معمار، گلزارِ ہجری اور شہیدِ ملت روڈ پر واقع ہیں، شامل ہیں۔
کراچی میں مذہبی جماعت کے ایک رہنما کے مطابق: ’یہ کاروبار بظاہر افغانستان میں افغان طالبان کی مالی مدد کے لیے استعمال ہوتے ہیں مگر طالبان کے زیادہ تر رہنما پاکستانی فرنٹ مینوں کے ذریعے خفیہ طور پر ذاتی کاروبار کر رہے ہیں۔‘ ان کے بقول طالبان حکومت میں وزیر خزانہ کے فرائض سرانجام دینے والے مستقیم آغا جان 2011 میں کراچی کے مضافات میں ایک کاروباری تنازعے کے سبب حملے میں زخمی ہوئے تھے۔