جو بائیڈن، جنہوں نے شدید ذاتی صدموں کو آڑے نہیں آنے دیا

متوسط خاندان کے حساس طبیعت اور سرگرم سیاسی رہنما جو بائیڈن کروڑ پتی کاروباری اور جھگڑالو صدر ٹرمپ سے بالکل الٹ نظر آتے ہیں۔

بائیڈن اپنی اہلیہ  جل کے ساتھ (اے ایف پی)

گہرے ذاتی دکھ اور ابتدائی سیاسی عزائم کی ناکامی سے گزرنے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے نامور امیدوار جو بائیڈن پرامید ہیں کہ امریکی باشندوں کو ایک لڑی میں پرونے کا خواب واشنگٹن میں تقریباً نصف صدی بعد انہیں صدارت کی کرسی پر براجمان کردے گا۔

شاید ہی کبھی مدمقابل صدارتی امیدواروں کے پروفائل اتنے مختلف ہوں جیسے 2020 کے انتخابات میں ہیں۔ مرکزی سیاسی دھارے کی بجائے بیرونی فرد ہونے پر بضد کروڑ پتی کاروباری، جھگڑالو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے سامنے کئی دہائیوں سے بطور سیاسی رہنما متحرک، اوسط درجے کے خاندان سے تعلق رکھنے والے حساس بائیڈن ایک دوسرے سے بالکل الٹ نظر آتے ہیں۔

دوبار کی عملی کوشش اور کئی دہائیوں سے وائٹ ہاؤس کے خواہش مند، ڈیلاویئر سے تعلق رکھنے والے بائیڈن پرامید ہیں کہ وہ امریکہ کو غصے اور شکوک و شبہات کے اندھیرے سے نکال کر عزت اور وقار کی منزل پر لا سکتے ہیں۔ 

پینسلوینیا میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’ہمارے پاس مزید صرف دو دن ہیں۔ دو مزید دن، جن میں ہم اس صدارت کا خاتمہ کر سکتے ہیں، جس نے اپنے آغاز سے ہی ہمارے اندر تفریق اور ایک دوسرے سے علیحدگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ساتھیوں، دو دن میں ہم اس صدارت سے جان چھڑا سکتے ہیں جو اس قوم کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔ ہم دو دن میں اس صدارت کا خاتمہ کر سکتے ہیں جس نے نفرت کے شعلوں کو ہوا دی ہے جب بھی موقع ملا پٹرول چھڑک کر اسے پوری قوم میں پھیلایا ہے۔‘

تین نومبر کی ووٹنگ سے پہلے رائے عامہ کے جائزوں میں آگے رہتے ہوئے 77 سال کی عمر میں بائیڈن امریکہ کے بزرگ ترین صدر بننے کی جانب گامزن ہیں۔

 ان کو وراثت میں ناقابل گرفت کرونا (کورونا) وائرس اور وہ دفتر ملے گا جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کی ساکھ ’جھوٹے‘ ٹرمپ نے برباد کر کے رکھ دی ہے۔

 ایک صاف گو دعویدار نے کہا ہے کہ غیر مقبول صدر سے شکست کا مطلب ہو گا بائیڈن ایک ’ہارنے والے‘ امیدوار ہیں اور اگر وہ اپنے سیاسی عزائم کو اب بھی پورا نہ کرسکے تو ان کی شاندار سیاسی اننگز کا خاتمہ ہو جائے گا۔

لیکن بائیڈن کوئی بہت شرمیلے انسان نہیں۔ بائیڈن نے ٹرمپ کی کرونا وبا سے نمٹنے کی سٹریٹیجی مسلسل نشانہ بنایا اور 2018 میں فلوریڈا یونیورسٹی کے طالب علموں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ دونوں ہائی سکول میں طالب علم ہوتے تو ’میں اس کے چھکے چھڑا دیتا۔‘ 

بائیڈن نے 1972 میں حیران کن انداز میں ریاست ڈیلاویئر سے سینیٹ کا الیکشن جیت کر محض 29 سال کی عمر میں قومی سطح پر اپنی آمد کا اعلان کیا۔ لیکن محض ایک ماہ بعد ایک اندوناک صورت حال نے آ لیا جب ان کی بیوی نیلیا اور ایک سالہ بچی نیومی کرسمس کی خریداری کے دوران کار حادثے میں ہلاک ہو گئیں۔ بائیڈن کے دو بیٹے بری طرح زخمی ہوئے لیکن بچ گئے۔ ان میں سے بڑا بو بائیڈن کینسر کی وجہ سے 2015 میں دم توڑ گیا۔ ان المناک حادثات نے بائیڈن میں ہمدردی کی وہ لہر پیدا کی جو ان کی روزمرہ امریکی عوام سے تعامل میں نظر آتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 عوام کے جذبات اپنے ہاتھ میں لینے کے فن میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ کالج سٹوڈنٹس کے چہرے پر خوشی کا سورج طلوع کر سکتے ہیں، رسٹ بیلٹ کے بے روزگار مشین سازوں سے ہمدردی جتا سکتے ہیں یا اپنے مخالفین کو بھڑکتی ہوئی تنبیہ دے سکتے ہیں۔ یہ شخصی ملنساری کا رجحان کرونا وائرس کی وجہ سے کم ہوتے ہوتے مارچ میں پابندی کا شکار ہو گیا جس کے بعد بائیڈن کو مزید محتاط ہونا پڑا۔

وہ اب ویسے نہیں جیسے اوباما کے آٹھ سالہ دور صدارت میں بطور نائب صدر تھے۔ اگرچہ خوشگوار مسکراہٹ ویسی ہی باقی ہے لیکن بائیڈن کی چال میں ٹھہراؤ آ گیا ہے اور بال مزید پتلے ہو گئے ہیں۔ مخالفین اور یہاں تک کہ بعض ڈیموکریٹکس تک شکوک و شبہات کا شکار تھے کہ تیز اور باتونی ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن کیسے ٹھہر سکیں گے۔ 74 سالہ صدر مسلسل انہیں ’سست جو‘ (Sleepy Joe) کہتے ہوئے دماغی صلاحیت میں کمی کا شکار بتاتے رہے۔ لیکن بائیڈن نے کمال مہارت سے حملوں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ مسلسل ٹرمپ کے چھکے چھڑاتے رہے اور اپنے پہلے مباحثے میں ایک موقع پر صدر سے ’شٹ اپ‘ تک کہہ دیا۔ 

آٹھ سال تک باراک اوباما کے نائب صدر رہنے سے پہلے وہ تاریخ کے کم عمر ترین رکن سینیٹ منتخب ہوئے اور تین دہائیوں تک ایوان بالا میں وقت گزارا۔ تاحال مقبول باراک اوباما سے وابستگی اور دنیا کے بہت سے راہنماؤں سے، جن سے وہ سابقہ باس کی ہدایات پر ملے ( وہ لوگوں کو وقتاً فوقتاً یاد دلاتے رہتے ہیں: ’میں ان سب کو جانتا ہوں‘)، معاملہ بندی کے حوالے سے اچھی شہرت پر ان کی انتخابی مہم کھڑی ہے۔ تفرقہ انگیز عہد میں وہ اعتدال کی سیاست کے قائل ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی، نسل پرستانہ امتیاز اور طالب علموں کے قرضے پر ریلیف کے لیے وہ ہنگامی اقدامات کے عزائم کا اظہار کر چکے ہیں۔

 ڈیموکریٹ اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ترین ہونے کے باوجود کچھ لوگوں کی نظر میں وہ عمر رسیدہ یا حد سے زیادہ معتدل مزاج تھے۔ سال کے شروع میں آتش مزاج برنی سینڈرز کے مقابلے میں مایوس کرتے ابتدائی نقصانات کے بعد بائیڈن کی مہم کسی تباہی کی طرف پیش قدمی لگ رہی تھی۔ لیکن ووٹوں کے حوالے سے ڈیموکریٹس کے نہایت اہم مرکز جنوبی کیرولائنا میں افریقی نژاد امریکی ووٹروں کی بھر پور پشت پناہی سے بائیڈن کی ہنگامہ خیز واپسی ہوئی۔ نامزدگی ہتھیا لینے کے اس عمل نے 1988 کے برعکس منظر پیش کیا جب برطانوی سیاستدان نیل کنوک کی تقریر چراتے ہوئے پکڑے جانے پر انہیں اچانک خاموشی سادھ لینا پڑی تھی۔

2008 میں بھی وہ عمدہ کارکردگی نہ دکھا سکے اور ابتدائی مراحل میں ایک فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کرنے کے بعد ان کا نام واپس لے لیا گیا۔ بالآخر اس سال وہ اوباما کے نائب چن لیے گئے جنہوں نے انہیں ’امریکہ کا خوش مزاج جنگجو‘ قرار دیا۔ جیت کے بعد اوباما نے گذشتہ کساد بازاری میں معاشی بحالی کی ذمہ داری انہیں سونپی۔ اوباما کی پہلی مدت کے اختتام کے قریب دونوں میں افغانستان کے معاملے پر اختلاف ہوا جب 30 ہزار فوجی بھیجنے کی بائیڈن نے مخالفت کی تھی۔

 

30 سال سے زیادہ عرصہ تک سینیٹر رہتے ہوئے بائیڈن ناممکن اتحاد بنانے کے ماہر تھے اور ٹرمپ کی طرح معاہدے کی پاسداری پر کم ہی پورے اترتے۔ سینیٹ میں نسلی امتیاز کے معروف واقعے اور 70 کی دہائی میں سیاہ فام بچوں کو سفید فام سکولوں میں آمد و رفت کی سہولت دیتی بسوں میں نسلی بنیاد پر تفریق کے خلاف بل کی مخالفت پر اپنے متوقع نائب عہدےدار کمالہ ہیرس سمیت کئی ڈیموکریٹکس کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

1994 میں کرائم بل تیار کرنے میں تعاون پر بھی بائیڈن کو جواب دہ ہونا پڑا جو بہت سارے ڈیموکریٹکس کے نزدیک امریکی نژاد افریقیوں کی نامناسب اسیریوں کا سبب بنا۔ بائیڈن نے کچھ عرصہ پہلے اسے ’غلطی‘ تسلیم کیا ہے۔

سینیٹ کے بہت سے دوسرے واقعات نے بھی ان کی صدارتی مہم متاثر کرنے کا خطرہ پیدا کیا تھا جن میں 2003 میں عراق پر جنگ کے حق میں ووٹ، 1991 میں سپریم کورٹ کے نامزد رکن کلیئرنس ٹامس کے خلاف انیتا ہل کے جنسی ہراسانی کے متنازع الزامات کی بطور چیئرمین سماعت شامل ہیں۔

گذشتہ سال خواتین ووٹروں کے ساتھ غیر مناست رویے کے الزامات باعث بائیڈن کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا جس سے ایسا لگا کہ وہ جدید نظریات کی حامل اپنی جماعت کے برعکس ہیں۔ انہوں نے معافی مانگی اور خواتین کے ذاتی دائرے کا اہترام کرنے کا وعدہ کیا۔

بائیڈن دل دہلا دینے والے ذاتی واقعات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں کہ اپنے شدید صدمات کے باوجود وہ سیاسی جدوجہد کا حصہ بنے۔ 1972 کے حادثے نے ان کے چار سالہ بیٹے بو اور دو سالہ بیٹے ہنٹر کو بری طرح زخمی کیا اور ہسپتال میں ان کے بستر کے پاس بیٹھ کر بائیڈن نے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اپنی دوسری بیوی جل جیکوبز سے بائیڈن کی 1975 میں ملاقات ہوئی اور دو سال بعد دونوں نے شادی کر لی۔

اس سے ان کی بیٹی ایشلی کا جنم ہوا۔ دونوں لڑکے صحت یاب ہو گئے۔ باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بو نے سیاست میں قدم رکھا اور ڈیلاویئر کے اٹارنی جنرل بنے لیکن ڈیموکریٹ کے اس ابھرتے ستارے کو 2015 میں 46 سال کی عمر میں دماغ کے کینسر نے نگل لیا۔

 ترغیب کار اور قانون دان ہنٹر بائیڈن کی پرواز کا دائرہ مختلف تھا۔ باپ کے نائب صدر ہوتے وقت انہوں نے یوکرین کی گیس کمپنی میں بھاری تنخواہ پر ملازمت کر لی جس پر کرپشن کے الزام لگے۔ یوکرین کو بائیڈن سے تفتیش کرنے پر دباؤ ڈالنے کی وجہ سے ڈیموکریٹ کے اختیار میں ایوان نمائندہ گان میں ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک چلی جسے ری پبلکن پارٹی نے سینیٹ میں مسترد کر دیا۔

ہنٹر ذاتی طور پر کسی بھی غلط کام میں ملوث نہیں پائے گئے تھے لیکن ٹرمپ نے اس مسئلے کو مرنے نہ دیا۔ وہ مسلسل یہ بات دہراتے رہے کہ بائیڈن فیملی ایک ’جرائم پیشہ خاندان‘ ہے جو بدعنوانی کے ذریعے امیر ہوتا جا رہا ہے لیکن الزامات مشکوک ہیں اور پولنگ سے لگتا ہے کہ امریکی عوام کے ذہن میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

جوزف روبینیٹ بائیڈن جونئیر 20 نومبر 1942 میں پینسلوینیا کے قصبے سکرینٹو میں ایک آئرش کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا کاروں کی خرید و فروخت کا کاروبار تھا لیکن جب 1950 کی دہائی میں شہر مشکل حالات کا شکار ہوا تو وہ قریب ڈیلاویئر میں آ گئے۔ تب جو بائیڈن کی عمر 10 سال تھی۔

 بقول بائیڈن، ’میرے والد نے ہمیشہ کہا، جتنا آپ کو دبایا جاتا ہے، آپ اتنا ہی ابھرتے ہیں۔‘ انہوں نے ڈیلاویئر کو اپنا سیاسی حلقہ بنایا۔ نوجوانی کے دنوں میں انہوں نے اکثریتی سیاہ فام آبادی پر مشتمل پڑوس کے علاقے میں بطور لائف گارڈ کام کیا۔ ان کے بقول اس تجربے نے انہیں منظم ناانصافی کے تجربے سے آگاہ کیا اور سیاسی دلچسپی کو گہرا کیا۔ بائیڈن نے ڈیلاویئر اور سیراکیوس یونیورسٹی لا سکول سے تعلیم حاصل کی اور اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ وہ اشرافیہ کے آئیوی لیگ یونیورسٹیوں کی پیداوار نہیں ہیں۔

 وہ محنت کش طبقے سے تعلق کی حقیقت چھپاتے نہیں بلکہ اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب لکنت کی وجہ سے ان کا نام ’ڈیش‘ پڑ گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنی خامی پر قابو پا لیا اور انتخابی مہم کے دوران ہکلاتے بچوں سے اپنی ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔

 بائیڈن 69 سالہ جل کو اکثر اپنی انتخابی مہم کا اہم حصہ بتاتے ہیں اور یاد کرتے ہیں کہ کیسے انہوں نے میرے دو بچوں کو اپنا لیا تھا۔ ’انہوں نے ہمیں دوبارہ ایک ساتھ جوڑ دیا۔‘

بو کو کھو دینے کی تکلیف کا ذکر کرتے ہوئے بائیڈن کہتے ہیں، ’یہ مجھے کبھی نہیں بھولتی۔‘ بو کی موت نے انہیں 2016 میں اپنی صدارتی مہم شروع کرنے سے روکے رکھا۔

یہاں تک کہ آج بھی وہ فائر فائٹرز سے ملنے کے لیے رک جاتے ہیں کیونکی انہوں نے حادثے میں ان کے بیٹوں کو بچایا تھا۔ فائر فائٹرز نے بائیڈن کو بھی بچایا۔ 1998 میں جب ان کی دماغی شریان پھول گئی تو فائرفائٹرز انہیں ہسپتال لے گئے۔ بائیڈن کی حالت اس قدر تشویشناک تھی کہ ایک مذہبی پیشوا کو آخری رسومات کے لیے طلب کر لیا گیا تھا۔

 تقریباً ہر اتوار بائیڈن اپنے پڑوس میں ولمنگٹن کے مقام پر برینڈی وائن نامی چرچ میں سینٹ جوزف میں عبادت کرتے ہیں۔

یہاں قبرستان میں ان کے والدین، پہلی بیوی، بیٹی اور امریکی جھنڈے سے سجی ایک سل کے نیچے بو دفن ہیں۔

جنوری میں بائیڈن نے خود پر بو کے اثر کو تسلیم کرتے ہوئے کہا، ’میں ہر روز صبح اٹھتے ہی خود سے پوچھتا ہوں کیا اسے مجھ پر فخر ہو گا؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ