امریکہ کےسابق نائب صدر جو بائیڈن بل کلنٹن یا ڈونلڈ ٹرمپ سے کسی طرح پیچھے نہیں، کم از کم جنسی ہراسانی کے معاملے تو ہرگز نہیں۔
بائیڈن، 2020 میں ہونے والے انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار بننے سے پہلے ہی تنازعہ کا شکار ہو گئے ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاسی کارکن لوسی فلوریس نے الزام لگایا ہے کہ جو بائیڈن نے 2014 میں ایک تقریب کے دوران رضامندی کے بغیر ان کا بوسہ لیا تھا جس سے انھیں شدید کوفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بائیڈن، اگلے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے مضبوط امیدوار ہیں تاہم یہ تنازعہ ان کے سیاسی مُستقبل کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
سابق نائب صدر نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یاد نہیں کہ انہوں نے کبھی اس طرح کے بے ہودہ طرزِعمل کا مظاہرہ کیا ہو۔
حالانکہ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ان کی یاداشت دوسرے لوگوں سے کم ہو سکتی ہے، ’شاید میں ان لمحات کو صحیح طور پر یاد نہ کر پا رہا ہوں لیکن جو کچھ اس بارے میں کہا جا رہا ہے وہ میرے لیے حیران کُن ہے۔‘
حالیہ تنازعہ کے بعد اپنے ایک بیان میں بائیڈن کا کہنا تھا ’ہم ایک اہم مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور وقت آ گیا ہے جب خواتین کو اپنے تجربات بیان کرنے کا حق حاصل ہو اور ہم مردوں کو بھی اس بارے میں توجہ دینی چاہیے، اور میں ایسا ہی کروں گا۔‘
2020 کے صدارتی انتخابات کے لیے 76 سالہ بائیڈن کو اپنے ڈیموکریٹک ساتھی امیدواروں پر واضح برتری حاصل ہے اور کئی سروے اس بابت ان کی برتری کی تصدیق کر چکے ہیں۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق صدارتی انتخابات کی ڈور میں ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کی نمائندگی کرنے کے 95 فیصد امکانات ہیں۔
تاہم نیواڈا سے تعلق رکھنے والی لوسی فلوریس بائیڈن کے سیاسی اُفق پرکالی گھٹا کی مانند نمودار ہوئی ہیں۔
امریکی جریدے ’دی کٹ‘ میں لکھے گئے آرٹیکل میں لوسی فلوریس واقع کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہتی ہیں ’مجھے اس وقت انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب سٹیج پر جانے سے قبل مسٹر بائیڈن پیچھے سے میرے بالوں کو سونگھ رہے تھے، مجھے لگا شاید آج میں نے اپنے بالوں کو نہیں دھویا اور امریکہ کے نائب صدر خود انہیں سونگھ کر اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔،
حریف ریپپلیکن پارٹی بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کے لیے میدان میں کود پڑی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی مُشیر کیلیانی کونوے نے اتوار کو فاکس نیوز کو دیے گئے انٹریو میں لوسی فلوریس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بہادر خاتون ہیں جنہوں نے اپنی ہی پارٹی کے مضبوط صدارتی امیدوار کو بے نقاب کر دیا ہے۔ کونوے نے بائیڈن پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تاحال اس واقع پر باقاعدہ معافی بھی طلب نہیں کی۔