وہ ایک عام سی معمول کی شام تھی جب سلیم خان کو یہ محسوس ہوا جیسے جاوید اختر ان سے کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہتے کہتے جھجھک رہے ہیں۔
پہلے تو انہوں نے اسے اپنا وہم اور غلط اندازہ سمجھا’ لیکن لگ بھگ تئیس فلموں کے سکرپٹ ساتھ ساتھ لکھنے کے بعد دونوں کے درمیان اتنی ذہنی ہم آہنگی تو ہو گئی تھی کہ ایک دوسرے کی سوچ اور خیالات سے بنا کچھ کہے واقف ہوں۔ سیلم جاوید کی جوڑی کو کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔
اس ملاقات سے کچھ ہفتوں پہلے ہی ’مسٹر انڈیا‘ سنیما گھروں کی زینت بنی تھی۔ 1987 میں آنے والی اس تخلیق نے سلیم جاوید کی دیگر فلموں کی طرح حسب روایت کھڑکی توڑ کامیابی کمائی کی تھی۔ جاوید اختر کے گھر ہونے والی اس بیٹھک میں سلیم خان نے واضح طور پر محسوس کیا کہ دوران گفتگو جاوید صاحب بے چین اور بے تاب ہیں، جیسے کوئی بات ان کے لبوں پر آکر اٹک سی جاتی ہے۔
دونوں کی دوستی بھی بڑی عجیب طرح سے ہوئی تھی۔ 1966 ’سرحدی لیٹرا‘ میں سلیم خان ہیرو تھے جبکہ جاوید اختر کا صرف یہی تعارف تھا کہ وہ نغمہ نگار اور شاعر جانثار اختر کے صاحبزادے ہیں اور اس فلم کے پروڈکشن اسٹنٹ۔ سیلم خان درجن بھر فلموں میں کام کر چکے تھے اور ہر کوئی انہیں ’پرنس سلیم‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ لیکن جس طرح انہوں نے کرکٹ اور کمرشل پائلٹ کے شعبے کو خیرباد کہہ کر اداکاری میں قدم رکھا تھا اسی طرح ان کا دل اب اس شعبے سے بھی بھر گیا تھا۔
سیٹ پر سلیم خان اور جاوید اختر جب تنہا ہوتے تو اپنی خواہشات او ر آرزؤں کا پٹارا کھول دیتے۔ جاوید اختر کا رحجان سکرپٹ رائٹنگ اور شاعری میں تھا تو کچھ ایسی ہی خواہش سلیم خان کے دل میں مچل رہی تھی۔ جنہوں نے ’سرحدی لیٹرا‘ کی عکس بندی کے دوران ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ مزید اداکاری نہیں کریں گے۔ جبھی جن فلموں کے انہوں نے معاوضے وصول کیے ہوئے تھے، صرف انہی میں کام کرنے کی ہامی بھری۔
پھر وہ ’چودھویں کا چاند‘ کے ہدایت کار اور مشہور رائٹر ابرار علوی کی شاگردی میں آ گئے اور ان سے سکرپٹ کی باریکیوں میں مہارت حاصل کرنے لگے۔ قلم سے ناطہ جوڑنے والے سلیم خان کو بریک بھی بہت جلد مل گیا۔ جب 1969 میں انہوں نے ’دو بھائی‘ کی کہانی لکھی۔
سلیم خان نے گھڑی دیکھی اور اجازت چاہی تو جاوید اختر انہیں گھر کے دروازے تک چھوڑنے آئے۔ سلیم خان گاڑی میں بیٹھنے ہی والے تھے تو جاوید اختر کی بے چینی اور اضطرابی کیفیت کا راز ان پر کھل ہی گیا۔ جو سپاٹ لہجے کے ساتھ اور آنکھیں نیچے کیے ہوئے سلیم خان کو جو بتا رہے تھے وہ انہوں نے چند گھنٹے تو کیا چند سکینڈ پہلے بھی سوچا نہیں تھا۔ جاویداختر بتا رہے تھے کہ وہ اب ان کے ساتھ مزید کام نہیں کرنا چاہتے۔ ان کی دلچسپی نغمہ نگاری میں ہے، سلیم خان چاہیں تو وہ ان کے ساتھ آ سکتے ہیں۔
سکرپٹ رائٹنگ کے برعکس وہ اس شعبے میں ’جاوید سلیم‘ کے نام سے داخل ہونے کا عندیہ دے رہے تھے۔ سلیم خان کو جیسے زور کا جھٹکا لگا لیکن انہوں نے اپنے احساسات اور جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے یہی کہا، ’نہیں جاوید صاحب، میں وہی کام کرتا ہوں جو مجھے آتا ہو، پھر آپ نے جو یہ فیصلہ کیا ہے یقینی طور پر پانچ منٹ پہلے تو نہیں کیا ہو گا، ظاہر ہے کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہو گا۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔‘ یہ کہہ کر سلیم خان نے ڈرائیور کو چلنے کا حکم دیا۔
سلیم خان پر آسمان تو ٹوٹا تھا لیکن انہوں نے اپنے حواس کو قابو رکھا۔ ان کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک جاوید اختر نے کیوں یہ فیصلہ کیا۔ ان کی کوئی فلم فلاپ ہوئی تھی نہ دونوں کے درمیان کوئی رتی برابر بھی کسی بات پر اختلاف ہوا تھا۔ وہ دکھ اور رنج کی کیفیت میں تھے۔
وہ کیسے بھول سکتے تھے جب 1971 میں سلیم خان نے جاوید اختر کو اپنے ساتھ ملایا تھا۔ جب دونوں نے مل کر ادھیکار، انداز، سیتا گیتا اور ہاتھی میرے ساتھی کے سکرین پلے لکھے تھے۔ وہ کیسے فراموش کرسکتے تھے کہ جب انہوں نے تن تنہا ’زنجیر‘ میں امیتابھ بچن کا کردار اپنے پولیس افسر والد سے متاثر ہو کر لکھا اور جاوید اختر کا نام پھر بھی سکرین پر ان کے ساتھ جگمگایا۔
یہی وہ فلم تھی جس کے بعد امیتابھ بچن کو فلم نگری میں اینگری ینگ مین کا خطاب ملا۔ صرف یہی نہیں سلیم جاوید کی جوڑی نے بالی وڈ کے شہنشاہ کے لیے دیوار، مجبور، شعلے، ترشول، ڈان، کالا پتھر، دوستانہ، شان اور شکتی کے سکرین پلے لکھنے کے علاوہ یادوں کی برات اور کرانتی جیسی فلمیں پیش کیں۔
یہ سلیم خان ہی تھے جنہوں نے سکرپٹ رائٹر کو بالی وڈ میں ایک نیا مقام دلایا۔ جہاں فلم کے پوسٹرز پر رائٹر کا نام تک دینا کوئی گوارا نہیں کرتا تھا۔ جہاں پرڈویوسر فلم کے سب سے اہم اور بنیادی رکن کو گاڑی میں بیٹھانا پسند نہیں کرتے تھے، ان کے لیے سلیم جاوید کی جوڑی نے دن و رات جدوجہد کی۔
ان کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے اپنی یادوں سے وہ سنہرے دن کھرچ دیں جب انہوں نے جاوید اختر کے ساتھ مل کر فلم نگری میں سکرپٹ رائٹنگ کے ذریعے انقلاب برپا کیا۔ یہ ان کا ہی کارنامہ تھا کہ اُس دور میں ان جیسے رائٹرز کو اداکاروں سے برابر یا ان سے زیادہ معاوضہ ملنے لگا تھا اور وہ یہ سنگ میل عبور کر کے اپنے استاد ابرار علوی سے کیے ہوئے چیلنج میں سرخرو ہوئے تھے۔
سلیم خان کی آنکھوں کے سامنے یہ ساری باتیں اور سارے واقعات کسی فلم کی طرح گردش کر رہے تھے۔ انہیں تو یہ بھی یاد آرہا تھا کہ کس طرح انہوں نے اور جاوید اختر نے بمبئی کے مختلف مقامات پر ’زنجیر‘ کے پوسٹروں اور ہورڈنگز پر پینٹر کو باقاعدہ معاوضہ دے کر راتوں رات اپنا نام بھی لکھوایا تھا۔ وہ ان سب خیالات سے اس وقت باہر نکلے جب گاڑی اسپتال کے مرکزی دروازے کے آگے جا کر رکی، جہاں انہیں اپنی دوسری بیوی ہیلن کی والدہ کی عیادت کرنی تھی۔
یہاں ان کے لیے ایک اور صدمہ تیار تھا۔ ان کی خوش دامن چل بسی تھیں۔ چند گھنٹوں بعد وہ گھر جارہے تھے۔ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ سلیم خان خواب گاہ تک پہنچے اور اسی دوران ٹیلی فون کا تانتا بندھ گیا۔ ہر جانب یہ خبر مشہور ہو گئی تھی کہ سلیم جاوید کی جوڑی ٹوٹ گئی ہے۔
انہیں اس بات کا زیادہ دکھ تھا کہ جاوید اختر نے پہلے سے سب کو بتا بھی دیا تھا جبھی تو ان سے تصدیق کی جا رہی ہے۔ نیند ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ شہرت کے اس سفر میں کئی بار ان سے سوال کیا جاتا تھا کہ ان میں سے کون سکرپٹ لکھتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے تھے کہ وہ دونوں ہی ’لکھتے‘ نہیں تھے بلکہ مکالمات اور سکرین پلے تحریر کرنے کے لیے انہوں نے ایک صاحب کو رکھا ہوا تھا اور آج دل چاہ رہا تھا کہ اسے ہی بلا کر دل کا حال لکھوائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کئی برس فلمی نگری میں گزرنے کے بعد انہیں بخوبی یہ معلوم تھا کہ یہ بڑی بے وفا اور بے مروت دنیا ہے لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کا جگری دوست اچانک ایسا فیصلہ سنا دے گا جو ان کے دل کو کرچی کرچی کر جائے گا۔
سلیم خان خاصے دل برداشتہ تھے جبھی آنے والے چند ہفتوں کے دوران انہوں نے بھارت ہی چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور لندن جا کر سکونت اختیار کر لی۔ پھر بھی انہوں نے نام، انگارے، قبضہ اور طوفان کے سکرین پلے لکھے۔
ان میں صرف ’نام‘ ہی سپر ہٹ ہوئی باقی فلمیں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ چار سال بعد وہ بھارت لوٹے تو دنیا کی آنکھیں بدل چکی تھیں۔ اب انہیں کام لینے کے لیے پروڈکشن ہاؤسز کے چکر پر چکر لگانا پڑ رہے تھے۔ گھر کا وہ فون جو ہر وقت بجتا رہتا تھا اب دن بھر میں صرف دو تین بار ہی اپنی موجودگی کا احساس دلاتا۔ 90 کی دہائی میں آنے والی فلم ’جرم‘ باکس آف پر ہٹ ہوئی تو کہیں جا کر ایک عرصے بعد سلیم خان نے سکھ کا سانس لیا۔
اسی دوران ان کے بیٹے سلمان خان کی فلموں میں آمد ہوئی تو جیسے ان کو نئی پہچان مل گئی۔ بعد میں سلیم خان نے اکیلا، مست قلندر، پتھر کے پھول اور منجدھار کے بھی سکرین پلے لکھے، لیکن اب وہ دھیرے دھیرے لکھنے لکھانے سے دور ہوتے گئے۔ سلمان، ارباز اور سہیل خان، والد سے زیادہ مشہور ہو گئے تھے۔ اداکاری میں خود کو ناکام تصور کرنے والے ’پرنس سلیم‘ کے تینوں بیٹے ہدایتکاری، فلم سازی اور اداکاری میں بلند مقام پاتے گئے اور اب سلیم خان کا اپنے بیٹوں کے حوالے سے تعارف ہونے لگا۔
وقت تیزی سے بیت گیا۔ سلیم خان بھول چکے ہیں اس دن کو جب انہیں ایک ہی دن دو بری خبریں ملی تھیں۔ جاوید اخترسے ان کے آج بھی خوشگوار تعلقات ہیں، اور ہمیشہ دونوں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ اور کردار کشی سے دور ہی رہے۔
دونوں نے ہی علیحدگی کے بعد اخلاقیات اور مہذبانہ طرز عمل اختیار کیا۔ اور پھر 17 سال بعد ان دونوں کو ایک بار پھر اپنی صلاحتیوں کے اظہار کا موقع ایک ہی فلم ’باغبان‘ میں بڑے دلچسپ انداز میں ملا، جس میں امیتابھ بچن کی فرمائش پر جہاں ان کی کلائمکس والی تقریر جاوید اختر نے لکھی تو وہیں سلمان خان کی خواہش پر ان کی تقریر کسی اور نے نہیں سلیم خان نے لکھی۔
یہ اور بات ہے کہ ’باغبان‘ کے اینڈ کریڈٹ پر ’سلیم جاوید‘ کا نام نہیں جھلمایا۔