رات کا دوسرا پہر ہونے کو تھا، خیام صاحب سونے کی تیاری کرنے ہی والے تھے کہ اچانک دروازے پر پے در پے زور زور سے دستک ہونے لگی۔ گھڑیال کی طرف دیکھا تو وہ ڈیڑھ بجا رہا تھا۔
خیام صاحب چند گھنٹوں پہلے ہی ریکارڈنگ سٹوڈیو سے لوٹے تھے۔ رات کا کھانا بیوی اور بیٹے کے ساتھ کھانے کے بعد اب اس قدر تھک گئے تھے کہ جلد از جلد نیند کی وادیوں میں جانے کو بے تاب تھے۔ بیگم جگجیت کور جو قریب ہی بیٹھی تھیں، حیرت سے خیام صاحب کو دیکھا، آنکھوں میں سوال تھا کہ بھلا اِس وقت کون آسکتا ہے؟
یہی سوال موسیقار خیام کے ذہن میں بھی گونج رہا تھا۔ کیونکہ اس پہر عام طور پر ان کے گھر کسی کی آمد نہیں ہوتی تھی۔ چند لمحے تو اسی کشمکش میں بیت گئے۔ دروازے پر دستک اب اور تیز ہونے لگی تھی۔ خیام صاحب نے صاحبزادے پردیپ کو آواز دی کہ جا کر دیکھیں، اس وقت کس کو کیا ضرورت پیش آ گئی۔ پردیپ لمبے لمبے قدم بڑھاتا ہوا دروازہ کی طرف چل پڑا تھا۔
محمد ظہور خیام ہاشمی جو ’خیام‘ کے نام سے مشہور تھے۔ اپنی مدھر اور دلوں کو گداز کرتی دھنوں کی وجہ سے غیر معمولی شہرت رکھتے تھے۔ ابتدا میں کئی موسیقاروں کے نائب رہے اور پھر 1953 میں فلم ’فٹ پاتھ‘ کی موسیقی ترتیب دی تو اس کے طلعت محمود کی آواز میں گائے ہوئے گیت ’شام غم کی قسم‘ نے تو جیسے ان کا چاروں طرف ڈنکا بجا دیا۔ یہ گیت طلعت محمود کے مخملی کیریئر میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کے بعد خیام کی فنی زندگی کو ایک پہچان ملی لیکن خیام صاحب نے دیگر موسیقاروں کی طرح فلموں کی قطارنہیں لگائی بلکہ اُنہی فلموں میں صلاحیتوں کا استعمال کیا جنہیں وہ خود پسند کرتے تھے۔ ان کا نظریہ کم لیکن معیاری دھنوں کا رہا۔
ہدایتکار کمال امروہوی نے’پاکیزہ‘ کے بعد جب 70 کی دہائی میں تاریخی کردار ’رضیہ سلطان‘ پر فلم بنانے کا ارادہ کیا تو موسیقار کے لیے ان کے ذہن میں کسی اور کا نہیں صرف خیام کا ہی نام تھا۔ جس طرح اس کاسٹیوم ڈراما فلم کی پروڈکشن اور کاسٹنگ کا م سست روی سے چل رہا تھا، اسی طرح موسیقی کا بھی۔ خیام بہترین سے بہترین دھنوں کی تیاری میں مصروف تھے۔ کمال امروہوی جو موسیقی کی بھی سمجھ بوجھ کا کمال رکھتے تھے، وہ خیام صاحب کی معاونت کے لیے موجود ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نغمہ نگار جاں نثار اختر سے ایک گیت ’اے دل ناداں، آرزو کیا ہے جستجو کیا ہے‘ لکھوایا گیا۔ جاوید اختر کے والد جاں نثار اختر نے خیام صاحب کی تیار دھن پر کوئی سو کے قریب اشعار لکھ ڈالے، جس کے صرف دو بند ہی گانے میں شامل کیے گئے۔
خیام کے اس گانے میں موسیقی کے آلات کا کم سے کم استعمال رہا، لیکن جو بھی تھا، وہ لتا منگیشکر کی آواز اور جاں نثار اختر کی شاعری میں جیسے اور نکھر سا گیا۔ پوری فلم نگری میں یہ مشہور ہو گیا کہ خیام صاحب نے ایسی دھن تیار کی ہے، جسے سننے کے بعد مسحور کن اور دلکش احساس ہوتا ہے۔ درحقیقت فلم ’رضیہ سلطان‘ جو تکمیل کے مراحل میں تھی، اس سے پہلے اس گیت نے ہر طرف دھوم مچا دی تھی۔
خیام بیٹے کے ساتھ ساتھ خود بھی دروازے تک پہنچ گئے تھے، پیچھے پیچھے بیگم تھیں۔ دروازہ کھولا تو سامنے ہی جیا بچن اور کریکٹر کردار نبھانے والی شمی کو پریشان پریشان کھڑا پایا۔ دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر خیام کا ماتھا ٹھنکا، چھوٹا سا گھر تھا، جبھی دروازے کے قریب پڑے ہوئے صوفوں پرانہیں بٹھایا گیا۔ آنے کی وجہ دریافت کی تو جیا بچن نے ہچکچاہٹ کے ساتھ کہنا شروع کیا، ’معافی چاہتی ہوں کہ اس وقت آئی، لیکن ایک مقصد اس پہر آپ تک لے آیا ہے۔‘
خیام صاحب نے مسکراہٹ کا تبادلہ کیا اور پھر انتہائی شفیق انداز میں انہیں بات جاری رکھنے کا اشارہ دیا تو جیا بچن بولیں ’دراصل اِس وقت امیت جی پر صرف یہ دھن سوار ہے کہ وہ آپ کے گانے ’اے دل ناداں‘ کو سننا چاہتے ہیں۔‘
خیام صاحب، جیا بچن کی اس فرمائش پر دنگ رہ گئے۔ خاص کر ایسے میں جب امیتابھ بچن کی خواہش نے رات کے اس پہر جیا بچن کو ان کے گھر تک پہنچا دیا۔ خیام صاحب نے معذرت بھرے لہجے میں کہا ’جیا جی۔ ۔ وہ گیت اس وقت میرے پاس کہاں۔ بلکہ وہ گانا تو کسی کے پاس نہیں، ہاں ہے تو صرف کمال امروہوی کے پاس، وہ بھی اُن کے لاکر میں۔ وعدہ کرتا ہوں کہ کل ہر صورت میں اسے آپ تک پہنچا دوں گا۔‘
خیام صاحب کے اس جواب پر جیا بچن کے چہرے پر مایوسی اور اداسی چھا گئی لیکن وہ جانتی تھیں کہ خیام صاحب کے ادا کیے لفظوں میں سچائی ہے ۔ تھکے تھکے انداز سے جیا بچن کے اٹھتے ہی شمی نے بھی ان کی پیروی کی۔ پھر جس تیزی سے آئی تھیں، ویسے ہی الٹے قدموں دروازے کی طرف بڑھنے لگیں۔ خیام صاحب نے جاتے جاتے ان سے کہا ’بے فکر رہیں، کل آپ اور امیتابھ بچن ضرور سنیں گے یہ گیت۔‘
جیا بچن نے تشکر آمیز نگاہوں سے گردن ہلائی اور رخصت ہو گئیں۔
اگلے دن موسیقار خیام نے یہ واقعہ کمال امروہوی کو سنایا تو انہوں نے بغیر کسی تردد اور اعتراض کے فوراً ’اے دل ناداں‘ کی بہترین کاپی بنائی اور خیام صاحب کے حوالے کر دی، جو خیام صاحب کے بیٹے پردیپ نے امیتابھ اور جیا بچن تک پہنچائی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کثیر سرمائے سے تیارہونے والی ’رضیہ سلطان‘ کو سنیما گھروں میں سجنے میں دس سال کا عرصہ لگا۔ لگ بھگ 10کروڑ روپے کی لاگت سے تیار یہ فلم ناکامی سے دوچار ہوئی، مگر اس فلم کے ایک گیت نے خیام صاحب کے لیے بڑے فلم سازوں اور ہدایتکاروں تک ان کو پہنچا دیا۔
لتا منگیشکر نے خود ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ ان کی زندگی کا سب سے مشکل لیکن بہترین گیت کوئی اور نہیں ’اے دل ناداں‘ ہی ہے۔