بالی وڈ: اوم پوری کے اورنگزیب عالمگیر سے ’چھاوا‘ کے عالمگیر تک

تین دہائی پہلے تک انڈین سینیما میں تاریخ غیر جانبداری سے پیش کرنا ممکن تھا، مگر آج بالی وڈ نفرت کے فروغ پر گامزن ہے، حالیہ فلم ’چھاوا‘ میں چھترپتی سنبھاجی مہاراج اور اورنگزیب کی کشمکش دکھائی گئی ہے، جو سراسر آج کل کے انڈین مزاج سے ہم آہنگ ہے۔

یش راج فلمر کی بنائی گئی فلم چھاوا کا کمرشل پوسٹر (یش راج فلمز 2025)

انڈین تجزیہ کار اپیکشا پریہ درشنی نے ’آؤٹ لک‘ کے ایک انتہائی شاندار مضمون میں سوال اٹھایا ہے کہ جدید سینیما تاریخی واقعات کو کس طرح سیاسی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں شیام بینگل کی سیریز ’بھارت ایک کھوج‘ (89-1988) کی جس میں 38 ویں قسط کا ذکر کرتے ہوئے درشنی نے ایک مثال پیش کی۔

ایک مسلمان اداکار نصیر الدین شاہ مراٹھا حکمران چھترپتی شیواجی مہاراج کا کردار نبھاتے ہیں جبکہ ایک ہندو اوم پوری مغل بادشاہ اورنگزیب کو سکرین پر پیش کرتے ہیں۔

دونوں کا آمنا سامنا دیکھتے ہوئے شیام بینگل کو داد دینا پڑتی ہے۔ اپنی نوعیت کے انتہائی سیاسی سین میں پروپیگنڈے کا چھینٹا تک نہیں۔

اورنگزیب جذباتی ہوئے بغیر شیواجی سے دریافت کرتا ہے کہ وہ غصے کی حالت میں اس کے دربار سے کیوں نکل گیا۔

شیواجی برہمی سے جواب دیتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے لیے یہ بے عزتی کی بات ہے کہ اسے کسی نواب کے برابر کھڑا کیا جائے۔

اورنگزیب ان کے جذبات کو سمجھتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ مراٹھوں کو اپنا دشمن نہیں بنانا چاہتا۔ پھر شیواجی کو مغل سلطنت کا حصہ بنے رہنے پر قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ساتھ ہی ان کے بطور مراٹھا بادشاہ تاجپوشی کو تسلیم کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔

لیکن شیواجی اس پیشکش کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے ایسی کسی بھی پیشکش کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً یہ مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ دونوں حکمران پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

یہاں درشنی نے سوال اٹھایا کہ ایک تاریخی منظر کو غیر جانبداری سے پیش کرنا کیا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق: ’جہاں نہ کسی کو دیوتا بنایا گیا ہے اور نہ کسی کو شیطان، سلو موشن میں جذباتی سین دکھائے گئے، نہ ہی پسِ منظر میں ڈرامائی انداز کی موسیقی استعمال کی گئی۔ یہ صرف دو طاقتور شخصیات کی ایک سیاسی کشمکش ہے، جو طاقت اور اختیار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

’یہ سب تین دہائیاں پہلے کا قصہ ہے۔ آج، تاریخی واقعات کو فلموں میں اسی غیر جانبداری سے پیش کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔‘

رواں برس ریلیز ہونے والی چھاوا (2025) میں چھترپتی سنبھاجی مہاراج اور اورنگزیب کے درمیان کشمکش دکھائی گئی ہے۔ یہ فلم ہر اعتبار سے تاریخی بیانیے اور مذہبی شناخت پر انڈیا میں جاری بحث کے ساتھ ہم آہنگ معلوم ہوتی ہے۔

چھاوا جیسی فلموں کے عوام پر کیا اثرات ہو رہے ہیں، یہ جاننے کے لیے ہندو اخبار میں رپورٹ ہونے والا ایک واقعہ دیکھیے۔

’دی ہندو‘ کے مطابق جب سینیما میں تاریخ محض غصہ، نفرت اور گھن پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے تو یہ ہمیں تاریخ کو اس کی پوری پیچیدگی کے ساتھ سمجھنے سے محروم کر دیتا ہے۔ چھاوا کی دنیا، جس میں ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اور ہندوستانیوں کو غیر ملکیوں کے خلاف کھڑا دکھایا گیا ہے، حقیقت میں 17ویں صدی کے اصل حالات سے بہت مختلف ہے۔

سمراٹ پرتھوی راج (2022)، تانہاجی (2020)، کیسری (2019)، پانی پت (2019) اور پدماوت (2018) جیسی فلمیں ایک خاص سیاسی بیانیے کو فروغ دیتی نظر آتی ہیں۔

مختلف تاریخی کرداروں کے باوجود باآسانی ان فلموں میں چند مشترک عناصر دیکھے جا سکتے ہیں۔

کیسری کے سوا تمام فلمیں برصغیر کی قرون وسطیٰ کی تاریخ پر مبنی ہیں۔ حالیہ برسوں میں بی جے پی نے مغل دور کی تاریخ کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے اور اس کے مقابلے میں مختلف ہندو حکمرانوں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان فلموں میں ہندو بادشاہوں کو نیک، جمہوریت پسند اور انصاف پسند حکمران کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو صرف خواتین کی عزت کے محافظ نہیں بلکہ ’بھارت ماتا‘ کے لیے بھی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان فلموں میں مسلمان محض ولن نہیں بلکہ انتہائی وحشی اور سفاک ہیں۔ آنکھوں میں کاجل، چہرے پر مکار قسم کی مسکراہٹ، گوشت خور اور خواتین کے شوقین۔ ایسا نہیں کہ یہ خواص مسلم حکمرانوں کی شخصیت اور زندگی کا حصہ نہ تھے، بالکل تھے مگر ہندو حکمران بھی تو ایسے ہی تھے۔ بادشاہ ہندو ہو یا مسلم وہ ہوتا بادشاہ ہی ہے، کسی علاقے کو فتح کرتے ہوئے طاقت کا نشہ خون میں ایک جیسی حرارت پیدا کرتا ہے۔

تاریخی واقعات کو پیش کرنے کا بھی مسئلہ نہیں، مگر جیسا کہ اوپر ایک مثال سے واضح ہے، یہ ایسے پیش کیے جاتے ہیں جیسے یہ تمام جنگیں اور تصادم آج کے انڈیا کے خلاف ہونے والے حملے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں برصغیر ایک قومی ریاست نہیں تھی بلکہ مختلف سلطنتوں اور ریاستوں کا مجموعہ تھا، لیکن یہ فلمیں اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مودی کے انڈیا پر پاکستان نے حملہ کر دیا ہو۔

یہ سب دانستہ کیا جاتا ہے تاکہ ان جنگوں کو ’خیر اور شر‘ کی ازلی لڑائی کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ کیا آپ نہرو کے ہندوستان میں ایسی فلموں کا تصور کر سکتے تھے؟

یہ رجحان براہ راست مالی مفاد سے بھی جڑا ہے۔ آشوتوش گوواریکر نے مسلم ہندو ہم آہنگی پر ’جودھا اکبر‘ (2008) جیسی فلم بنائی۔ 2019 میں وہ ’پانی پت‘ بنا کر اپنی شاندار وراثت کو لات مار دیتے ہیں۔

دنیا بھر میں سینیما ہمیشہ تاریخ کو مسخ کرنے اور مخصوص نوعیت کے پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہوا۔

1915 میں بننے والی امریکی فلم ’دی برتھ آف آ نیشن‘ ایسی فلموں کی اولین مثالوں میں سے ایک ہے۔ امریکی خانہ جنگی پر مبنی یہ فلم تکنیکی طور پر اپنی دور کی سب سے جدید فلم تھی، جسے آنے والے دور نے نسل پرستی اور سفید فام بالادستی کے نظریے کو فروغ دینے کے کی وجہ سے رد کیا۔ اس فلم نے کو کلوکس کلان (KKK) نامی سفید فام شدت پسند تنظیم کی سوئی ہوئی مقبولیت کو نئی کروٹ دی تھی۔

یہ محض ایک مثال ہے۔ فلم کا پروپیگنڈا ایک وقت میں لاکھوں زندگیوں کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔ فلم پہلے کہانی کے ذریعے آپ کے دل و دماغ کو ایک ہلکی آنچ پہ گرم کرتی ہے، پھر اچانک زہر انڈیل کر ہمیشہ کے لیے اپنا نقش چھوڑ جاتی ہے۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری فلمیں غیر معمولی بزنس کر رہی ہیں۔ نئی نسل کی مقبول ترین تفریح ایسا زہر ہے، جس کے وقتی فوائد کم اور نقصان زیادہ ہیں۔

کیا امریکہ کی انتہا پسند نسل پرست تحریک کو کلوکس کلین کی طرح بالی وڈ آر ایس ایس کو مزید مقبول بنانا چاہتا ہے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ