وہ 29 مئی، 1988 کا ایک گرم دن تھا، بے یقینی کا زمانہ، غیر جماعتی جمہوری نظام کی لاحاصلی، اسلامی مارشل لا کا تجربہ، راندہ درگاہ سیاست دان، گرتے ہوئے معیار، مٹتی ہوئی روایات، انتظامیہ کا زوال، غرضیکہ سب کچھ ہماری ’قومی امنگوں‘ کے عین مطابق تھا۔
اسی شام عجلت میں بلائی گئی پریس کانفرنس میں پاکستان کے فوجی حکمران صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل 58 (2) بی کے تحت ملنے والے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ہی ’سلیکٹڈ‘ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو برطرف کرنے اور قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ توڑنے کا اعلان کر دیا۔
اپنے اس انتہائی اقدام کی وجوہات بتاتے ہوئے صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے کہا کہ ’انتخابات کا حقیقی مقصد حاصل نہیں ہو سکا، میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا کیونکہ میں نے نفاذ اسلام کے عمل کو تیز کرنے کی خاطر ہی ریفرینڈم کروایا تھا لیکن اس دوران اسلامی نظام کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
’امن و امان کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی گئی، عوام کے جان و مال محفوظ نہیں، ملکی سلامتی اور یکجہتی کو خطرہ لاحق ہو گیا، جمہوری عمل سست پڑ گیا، میری دلی خواہش تھی کہ ملک میں اسلامی اقدار فروغ پائیں لیکن جو قومی اسمبلی توڑی گئی ہے وہ جمہوریت اور نفاذ اسلام دونوں ہی کے بارے میں عوام کی توقعات پوری نہیں کرسکی۔‘
صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے مزید کہا کہ عوام کو مناسب وقت پر اپنے نمائندے ازسرنو منتخب کرنے کا حق دیا جائے گا، ’مجھے یقین ہے کہ نئی حکومت اسلامی نظام کے نفاذ، انصاف کے قیام اور چادر اور چاردیواری کے تقدس کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرے گی۔‘
اگلے روز 30 مئی، 1988 کو صدر جنرل ضیاء الحق نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے فیصلے کی تائید میں کہا کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو مکمل طور پر سیاسی دبائو کا شکار ہو چکے تھے جس سے کرپشن، اقربا پروری اور بدنظمی عام ہو چکی تھی اور ملک میں امن وامان کی صورت حال مکمل طور پر بگڑ کر رہ گئی تھی۔
پوری قوم کی طرح جنرل ضیاء الحق کے بعض رفقا کے لیے بھی وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا اقدام ایک انوکھا واقعہ تھا۔
جنرل ضیاء کے ایک پرانے رفیق کار، وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’ورکنگ ود ضیاء‘ میں اس واقعے کے حوالے سے لکھا ’ضیاء نے مرض کی تشخیص کی تھی اس کو اگر قبول کرنا مشکل تھا تو جو انتہائی اقدام انہوں نے اس مرض کے علاج کے سلسلے میں اٹھائے تھے، ان کو تسلیم کرنا اور بھی مشکل تھا، مسٹر جونیجو مثالی وزیراعظم نہ سہی لیکن انہوں نے نہایت مشکل حالات میں عنان حکومت سنبھالی تھی۔
’ایک آمر صدر کے چھاتے تلے جمہوری نظام کو چلانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ ملک میں پائی جانے والی تمام بدنظمیوں اور قباحتوں کو وزیر اعظم کی جھولی میں ڈال دینا عدل و انصاف کے تقاضوں کے منافی اور حق و صداقت کی اقدار کے خلاف تھا۔ صدر کا اقدام ایک انتقامی کارروائی تھی۔
’مسٹر جونیجو نے اسے مکمل یک طرفہ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے ملک کی سیاسیات میں وقار و احترام اور شائستگی کو متعارف کروایا تھا اور ان کا یہ دعویٰ بلاجواز نہ تھا۔‘
وزیر اعظم کے منصب پر نامزدگی کے بعد سیاسی طور پر منتشر غیر جماعتی قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے والے محمد خان جونیجو کی شہرت پاکستان کے ایسے ایمان دار سیاست دان اور وزیر اعظم کی رہی جن کا دامن کرپشن، اقربا پروری سے پاک تھا۔
وہ سادگی اور شرافت کے پیکر تھے۔ سیاسی تجزیہ نگار اور محققین جونیجو حکومت کی برطرفی کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ تاہم ہمارے نزدیک محمد خان جونیجو کا سب سے بڑا جرم ان کی مکمل جمہوری سوچ اور فیصلہ سازی کی قوت تھی جو فوجی آمر کے ساتھ کشیدگی کی اصل وجہ تھی۔
مارشل لا کے خاتمے کے لیے جنرل ضیاء الحق نے یہ شرط رکھی تھی کہ قومی اسمبلی سے آٹھویں آئینی ترمیم منظور کروائی جائے تاکہ ان کے آئین شکن اقدام کو آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہو سکے۔
چنانچہ مارشل لا کے خاتمے کے لیے محمد خان جونیجو نے قومی اسمبلی سے آٹھویں آئینی ترمیم منظور کروانے کا کڑوا گھونٹ پیا۔
لیکن اس کے بعد انہوں نے جس طرح جنرل ضیاء الحق کو قومی فیصلہ سازی کے معاملے میں کنارے سے لگایا اور ملک کو واپس جمہوریت، آئین کی بالادستی اور پارلیمان کی خودمختاری کی منزلوں کی جانب لے آئے وہ ان کے سیاسی نظریے، دور رس سوچ اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی کی زندہ مثال ہے۔
وزیر اعظم کے طور پر محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاء الحق کی ہدایات کو رد کرتے ہوئے جنیوا معاہدے سے قبل آل پارٹیز کانفرنس بلائی۔
تین روز تک وزیر اعظم ہاؤس میں جاری رہنے والی اس کانفرنس میں بےنظیر بھٹو، خان عبدالولی خان، رسول بخش پلیجو، مختلف بلوچ اور پختون قوم پرست رہنما شریک ہوئے اور کھل کر جنرل ضیاء الحق کے خلاف بولے۔
ان سب کی رائے اور حمایت حاصل کر کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اسے ’قومی اتفاق رائے‘ قرار دیا جس کے آگے جنرل ضیا کی مرضی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
آل پارٹیز کانفرنس کے بعد وہ جنیوا روانہ ہوئے اور افغان امن معاہدے میں پاکستان کی شرائط شامل کروا کر اس پر دستخط کیے۔ یہ ان کی مدبرانہ سفارت کاری کی سب سے اعلیٰ مثال تھی۔
یہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں ہی ممکن ہوا کہ بے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلاوطنی ختم کر کے اپرل 1986 میں وطن واپس تشریف لائیں۔
محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاء الحق کی ہدایات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ بےنظیر بھٹو جس وقت چاہیں وطن واپس آ سکتی ہیں، یہ ان کا اپنا وطن ہے جہاں آنے سے ان کو کوئی نہیں روک سکتا۔
وزیر اعظم جونیجو نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کو ہدایات جاری کیں کہ محترمہ کی مرضی سے ان کے لاہور ایئر پورٹ پر اترنے کے لیے تمام انتظامات کیے جائیں۔ محترمہ کے استقبال کے لیے لاکھوں لوگ آئے اور اس استقبال میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی۔
10 اپریل، 1988 کو اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہوا۔ جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی پر راکٹوں کی بارش ہو گئی جس میں لاتعداد شہری ہلاک ہو گئے۔
محمد خان جونیجو نے اس عظیم سانحہ پر خاموش تماشائی بننے کی بجائے اس واقعے کے محرکات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کا حکم دیا۔ ان کا یہ اقدام جنرل ضیاء الحق کے لیے ناقابل قبول تھا، وہ اس بات پر حیران تھے کہ ان کی مرضی اور منشا کے بغیر محمد خان جونیجو نے یہ کیسی جرات کی کہ ایک حساس معاملے پر تحقیقات کا حکم جاری کر دیا۔
جنرل ضیا اس تحقیقات کا راستہ روکنے کے لیے یوں سامنے آئے کہ انہوں نے اوجڑی کیمپ کا سانحہ رونما ہونے کے 49 دن بعد آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت ملنے والے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے 29 مئی، 1988 کو محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
بعض سیاسی محققین محمد خان جونیجو کی برطرفی کی وجہ ایک چھوٹی گاڑی کو بھی قرار دیتے ہیں۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے ملکی پارلیمان مجلس شوریٰ میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب اعلیٰ افسران شان دار گاڑیاں استعمال نہیں کریں گے اور پاکستان میں بنائی گئی چھوٹی گاڑیوں کو ترجیح دی جائے گی جو کہ اس زمانے میں زیادہ تر سوزوکی ایف ایکس تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برسبیل تذکرہ یہاں یہ بات بھی انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی کہ اپنی حکومت کی برطرفی کے دوران وزیر اعظم محمد خان جونیجو پاکستان مسلم لیگ کے صدر کے طور پر تنظیمی ذمہ داریاں بھی سرانجام دے رہے تھے اور اس حیثیت میں انہوں نے چند دن قبل اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ کے آل پاکستان کنونشن کا انعقاد کیا تھا۔
کنونشن میں تقریبا دو سو سے زائد ارکان شریک ہوئے، اس موقعے پر پاکستان مسلم لیگ پنجاب کے صدر میاں محمد نواز شریف بھی موجود تھے، ان دنوں ان کے جنرل جیلانی کے ذریعے صدر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ گہرے تعلقات قائم ہو چکے تھے جبکہ اپنے جمہوری اقدامات سے وزیر اعظم محمد خان جونیجو صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے تھے۔
کنونشن میں انتخابی عمل شروع ہوا تو میاں محمد نواز شریف اور ان کے 27 ساتھیوں کے ایک گروپ نے ہنگامہ برپا کر دیا، یہ لوگ محمد خان جونیجو کی قیادت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے واک آؤٹ کر گئے، اسی روز پاکستان مسلم لیگ دو حصوں، جونیجو گروپ اور نواز گروپ میں تقسیم ہوئی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) میں پہلے دن 27 ارکان تھے، میاں محمد نواز شریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی کے بعد 30 مئی، 1988 کو نگران وزارت اعلیٰ ہاتھ آ گئی تو چند روز میں ’خلائی مخلوق‘ کی کرامات سے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے تقریباً سارے ہی ارکان نواز لیگ میں شامل ہو گئے۔