32 سال پہلے 29 مئی، 1988 کی شام عجلت میں بلائی گئی ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے فوجی حکمران صدر جنرل محمد ضیا الحق نے آئین کے آرٹیکل (2) 58 بی کے تحت ملنے والے اختیارات کے تحت وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو برطرف کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ توڑنے کا اعلان کر دیا۔
صدر جنرل ضیا الحق نے اس اقدام کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ انتخابات کا حقیقی مقصد حاصل نہیں ہو سکا، میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا کیونکہ میں نے نفاذ اسلام کے عمل کو تیز کرنے کی خاطر ہی ریفرنڈم کروایا تھا لیکن اس دوران اسلامی نظام کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، امن و امان کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی گئی، عوام کے جان و مال محفوظ نہیں، ملکی سلامتی اور یکجہتی کو خطرہ لاحق ہو گیا، جمہوری عمل سست پڑ گیا، میری دلی خواہش تھی کہ ملک میں اسلامی اقدار فروغ پائیں لیکن جو قومی اسمبلی توڑی گئی وہ جمہوریت اور نفاذ اسلام، دونوں ہی کے بارے میں عوام کی توقعات پوری نہیں کر سکی۔
جنرل ضیا الحق نے مزید کہا کہ عوام کو مناسب وقت پر اپنے نمائندے ازسرنو منتخب کرنے کا حق دیا جائے گا، مجھے یقین ہے کہ نئی حکومت اسلامی نظام کے نفاذ، انصاف کے قیام اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرے گی۔
اگلے روز 30 مئی، 1988 کو جنرل ضیا الحق نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے فیصلے کی تائید میں کہا کہ ’وزیراعظم مکمل طور پر سیاسی دباؤ کا شکار ہو چکے تھے جس سے کرپشن، اقربا پروری اور بدنظمی عام ہوئی اور ملک میں امن وامان کی صورت حال مکمل طور پر بگڑ کر رہ گئی تھی۔‘
جنرل ضیا الحق کے ایک پرانے رفیق کار وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’ضیا الحق کے ساتھ‘ میں اس واقعے کے حوالے سے لکھا کہ ’ضیا نے مرض کی تشخیص کی تھی، اگر اسے قبول کرنا مشکل تھا تو جو انتہائی اقدام انہوں نے اس مرض کے علاج کے سلسلے میں اٹھائے، ان کو تسلیم کرنا اور بھی مشکل تھا۔
'مسٹر جونیجو مثالی وزیراعظم نہ سہی لیکن انہوں نے نہایت مشکل حالات میں عنان حکومت سنبھالی تھی۔ ایک آمر صدر کے چھاتے تلے جمہوری نظام کو چلانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ ملک میں پائی جانے والی تمام بدنظمیوں اور قباحتوں کو وزیر اعظم کی جھولی میں ڈال دینا عدل و انصاف کے تقاضوں کے منافی اور حق و صداقت کی اقدار کے خلاف تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'صدر کا اقدام ایک انتقامی کارروائی تھی۔ مسٹر جونیجو نے اسے مکمل طور پر یک طرفہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ملک کی سیاست میں وقار و احترام اور شائستگی کو متعارف کروایا تھا اور ان کا یہ دعویٰ بلاجواز نہ تھا۔‘
18 اگست، 1932 کو ضلع سانگھڑ کے گاؤں سندھڑی میں پیدا ہونے والے جونیجو پاکستان کے دسویں وزیر اعظم تھے۔ بطور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ان کے پیشرو تھے۔ وہ 24 مارچ، 1985 سے لے کر 29 مئی، 1988 تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔
انہوں نے برطانیہ سے زراعت میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد 21 سالہ کی عمر میں سیاسی زندگی کا آغازکیا۔ بحیثیت سیاست دان وہ صدر ایوب خان کے زمانے میں اس وقت زیادہ نمایاں ہوئے جب 1962 میں وہ سانگھڑ سے مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتحب ہوئے۔
جولائی 1963 میں وہ مغربی پاکستان کی کابینہ کے وزیر بنے۔ 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں جب وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے تو جنرل ضیا الحق نے انہیں وزیر اعظم نامزد کیا۔
جونیجو نے سیاسی طور پر منتشر قومی اسمبلی کو متحد کیا اور اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ وزیراعظم پاکستان منتخب ہو کر ان کی شہرت پاکستان کے ایسے ایمان دار سیاست دان اور وزیراعظم کی رہی جن کا دامن بدعنوانی، اقربا پروری سے پاک تھا۔ وہ سادگی اور شرافت کے پیکر تھے، وزیر اعظم بنتے ہی انہوں نے سیاسی آزادیاں بحال کرنے کا وعدہ کیا اور تمام وعدے اپنے مختصر دور حکومت میں انہوں نے بخوبی پورے کیے۔
مارشل لا کے خاتمے کے لیے جنرل ضیا الحق نے یہ شرط رکھی تھی کہ قومی اسمبلی سے آٹھویں ترمیم منظور کروائی جائے تاکہ ان کے آئین شکن اقدام کو آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہو سکے، چنانچہ مارشل لا کے خاتمے کے لیے جونیجو نے قومی اسمبلی سے آٹھویں ترمیم منظور کروانے کا کڑوا گھونٹ پیا۔
تاہم اس کے بعد انہوں نے جس طرح جنرل ضیا الحق کو قومی فیصلہ سازی کے معاملے میں کنارے سے لگایا اور ملک کو واپس جمہوریت، آئین کی بالا دستی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کی منزلوں کی جانب لے آئے وہ ان کے سیاسی نظریے، دور رس سوچ اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی کی زندہ مثال ہے۔
اگرچہ حریف سیاسی جماعتوں نے مسلسل یہ پروپیگنڈہ جاری رکھا کہ جونیجو کے پاس اختیارات نہیں لیکن 1986 میں گیلپ انٹرنیشنل کے سروے کا نتیجہ ان کے مخالفین کے لیے صدمے سے کم نہیں تھا۔ سروے کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 85 فی صد شہریوں نے رائے دی کہ وہ جونیجو کو مکمل طور پر بااختیار وزیراعظم سمجھتے ہیں۔
اس زمانے کے حالات اور دستاویزات کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ بطور وزیر اعظم ان کی جنرل ضیا الحق سے مسلسل کشیدگی رہی۔ انہوں نے جنرل ضیا الحق کی ہدایات کو رد کرتے ہوئے جنیوا معاہدے سے قبل آل پارٹیز کانفرنس بلائی۔ تین روز تک وزیراعظم ہاؤس میں جاری رہنے والی اس کانفرنس میں بے نظیر بھٹو، خان عبدالولی خان، رسول بخش پلیجو، مختلف بلوچ اور پختون قوم پرست رہنما شریک ہوئے اور کھل کر جنرل ضیا الحق کے خلاف بولے۔
ان سب کی رائے اور حمایت حاصل کر کے وزیر اعظم جونیجو نے اسے ’قومی اتفاق رائے‘ قرار دیا جس کے آگے جنرل ضیا الحق کی مرضی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد وہ جنیوا روانہ ہوئے اور افغان امن معاہدے میں پاکستان کی شرائط شامل کروا کر اس پر دستخط کیے۔ یہ ان کی مدبرانہ سفارت کاری کی سب سے اعلیٰ مثال تھی۔
یہ وزیراعظم جونیجو کے دور میں ہی ممکن ہوا کہ بے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے 1986 میں وطن واپس تشریف لائیں۔ انہوں نے جنرل ضیا کی ہدایات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’بے نظیر بھٹو جس وقت چاہیں وطن واپس آ سکتی ہیں، یہ ان کا اپنا وطن ہے جہاں آنے سے ان کو کوئی نہیں روک سکتا۔‘
انہوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کو ہدایات جاری کیں کہ محترمہ کی مرضی سے ان کے لاہور کے ہوائی اڈے پر اترنے کے لیے تمام انتظامات کیے جائیں۔ محترمہ کے استقبال کے لیے لاکھوں لوگ آئے اور اس استقبال میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی۔
10 اپریل، 1988 کو اوجڑی سانحہ ہوا۔ جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی پر راکٹوں کی بارش ہو گئی جس میں لاتعداد شہری ہلاک ہوئے، کئی افواہیں پھیلنے لگیں۔ ایک افواہ یہ تھی کہ روس کی ایجنسی کے جی بی کے ایجنٹوں نے اوجڑی کیمپ کو تباہ کیا تھا اور دوسری افواہ یہ تھی کہ کچھ اندر کے لوگوں نے جان بوجھ کر اسلحے کو آگ لگائی تھی کیوں کہ افغان مجاہدین کے لیے امریکہ سے ملنے والا بیشتر اسلحہ (جس میں سٹنگر میزائل بھی شامل تھے) چوری کیا جا چکا تھا اور اسلحے کے ڈپو کے آڈٹ کا وقت سر پر آ گیا تھا۔
جونیجو ایسے وقت میں خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے تھے۔ انہوں نے اس واقعے کے محرکات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کا حکم دیا۔ یہ جنرل ضیا الحق کے لیے ناقابل قبول تھا، وہ اس بات پر حیران تھے کہ ان کی مرضی اور منشا کے بغیر انہوں نے یہ جرات کیسے کی کہ ایک حساس معاملے پر تحقیقات کا حکم جاری کر دیا۔
جنرل ضیا اس تحقیقات کا راستہ روکنے کے لیے سامنے آ گئے اور انہوں نے آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت ملنے والے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے 29 مئی، 1988 کو جونیجو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
ان کو خون کے سرطان کا عارضہ لاحق تھا لیکن وہ حالات اور بیماری کے ساتھ بڑی بہادری سے لڑتے رہے۔ طویل علالت کے بعد 18 مارچ، 1993 کو امریکی شہر بالٹی مور کے ایک ہسپتال میں ان کا انتقال ہوا، وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً 61 برس تھی۔ 20 مارچ، 1993 کو انہیں آبائی گاؤں سندھڑی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
جونیجو کو ایک انقلابی سیاست دان کہا جائے یا غیر سیاسی سیاست دان، باغی سیاست دان، مصلحت پسند سیاست دان، جمہوری سیاست دان، مسلم لیگیوں کی بے وفائی کا شکار سیاست دان یا جو بھی کہا جائے مگر انہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے اقدامات کیے جن کے اثرات سے آج تک سیاسی پارٹیاں استفادہ کرتی ہیں۔
انہوں نے جس سیاسی جرات اور دلیری کے ساتھ جنرل ضیا الحق کا مقابلہ کیا اسے پاکستان کی ’داغ داغ‘ سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔