ایران کے آئین میں حتمی طاقت سپریم لیڈر یعنی رہبر اعلیٰ ہی کے پاس ہوتی ہے تاہم صدر کا عہدہ گذشتہ چند برسوں میں کافی طاقتور ہو گیا ہے۔
گذشتہ چار صدور نے اپنی شخصیت اور سیاست کی چھاپ سماجی اور معاشی زندگی، داخلی سیاست اور خارجہ پالیسی پر چھوڑی ہے۔ لیکن طاقتور اور بااثر صدور کو سخت مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
صدر اور رہبر اعلیٰ کے درمیان اختیارات کی کشمکش بھی رہتی ہے، لیکن آج کے انتخابات تک رہبر اعلیٰ ہی غالب آئے ہیں۔
ایران میں اب تک سات صدور آئے اور ان کو کن مشکلات کا سامنا رہا، ان کی کیا پالیسیاں تھیں اور وہ کتنے بااثر رہے؟
سید ابوالحسن بنی صدر (81-1980)
بنی صدر شاہ ایران کے مخالف تھے اور جلا وطنی میں تھے اور وہ ایران انقلاب کے بعد ایران آئے۔ وہ پہلے صدر منتخب ہوئے اور انھوں نے جنوری 1980 میں عہدہ سنبھالا۔
ان کو یہ عہدہ آیت اللہ خمینی کے قریب ہونے کے ناطے سے ملا۔ اگرچہ آیت اللہ خمینی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے لیکن بنی صدر کو خمینی کے قریب مذہبی رہنما اور اسلامک ریپبلک پارٹی کے رہنما آیت اللہ محمد بہشتی کی جانب سے پالیسی اور طاقت کے حصول کے لیے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
پارلیمنٹ میں بہشتی کی جماعت کو اکثریت حاصل تھی اور وہ اپنا ایجنڈا چلانا چاہتے تھے۔ بنی صدر کی کوشش تھی کہ بے لگام ہوئی انقلابی کمیٹیوں اور عدالتوں کو تو کم از کم کنٹرول کیا جائے لیکن اسلامک ریپبلک پارٹی کے وزیر اعظم محمد علی رجائی ان کو ایسا کرنے سے روکتے رہے۔
بنی صدر اور اسلامک رپبلک پارٹی کے درمیان کشیدگی میں امریکی سفارت خانے میں 444 دن جاری رہنے والے یرغمالی بحران اور ایران اور عراق کی جنگ کے باعث مزید اضافہ ہو گیا۔
بنی صدر یرغمالیوں کو رہا کرنے کے حق میں تھے جبکہ انقلابی رہنما اس کی مخالفت کرتے تھے کہ اس سے ملک میں انقلابی جوش مزید پکا ہو گا۔ بنی صدر ایران عراق جنگ میں ایران کی ریگولر فوج اور روایتی فوجی سٹریٹیجی کے حامی تھے۔ جبکہ مذہبی رہنما پاسداران انقلاب اور ’انقلابی‘ دفاع کے حامی تھے۔
بنی صدر کو اپنے دورِ حکومت کے آغاز میں آیت اللہ خمینی کی حمایت حاصل تھی اور انھوں نے صدر کی جانب سے انقلاب کے باعث افراتفری کے خاتمے اور معمول کی زندگی کی جانب گامزن ہونے کی حمایت کی۔ لیکن جب بنی صدر اور اسلامک ریپبلک پارٹی کے درمیان اختلافات زیادہ ہوئے تو انھوں نے اسلامک ریپبلک پارٹی کا ساتھ دیا۔
اس طرح 1981 کے وسط میں بنی صدر کا مواخدہ کیا گیا۔ بنی صدر جو روپوش ہو گئے تھے، ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
محمد علی رجائی اور آیت اللہ خامنہ ای (1981-1989)
بنی صدر کے بعد محمد علی رجائی کو جلدی میں کرائے گئے انتخابات میں صدر منتخب کیا گیا۔ ان انتخابات میں زیادہ امیدوار نہیں تھے اور اس طرح مقابلہ نہ ہونے کے برابر تھا۔
دو اگست کو عہدہ سنبھالنے والے رجائی کو 30 اگست کو قتل کر دیا گیا۔ اکتوبر میں ایک بار پھر انتخابات کرائے گئے جس میں مقابلہ نہ ہونے کے برابر تھا اور خامنہ ای صدر منتخب ہوئے۔ خامنہ ای کے منتخب ہونے سے آیت اللہ خمینی کا غیر رسمی اعلان کے مذہبی رہنما صدر نہیں بن سکتے بھی ختم ہو گیا۔
خامنہ ای دو مدت کے لیے صدر رہے۔ ان کا دورِ صدارت وزیر اعظم میر حسین موسوی کے زیر سایہ رہے جنھوں نے ایران عراق جنگ کے مشکل وقت میں ملک کو سنبھالا۔
خامنہ ای کے دور میں بنیاد پرست اپوزیشن کی جماعتوں کو بہیمانہ طریقے سے کچل دیا اور ہزاروں نوجوان مرد اور عورتوں کو قید کیا گیا اور ہلاک کیا گیا۔
آیت اللہ خمینی کے انتقال کے بعد خامنہ ای کو رہبر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔
اکبر ہاشمی رفسنجانی (1989-1997)
رفسنجانی ایک اہم موڑ پر ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ عراق کے ساتھ جنگ ختم ہو چکی تھی اور خمینی کی وفات کے بعد اب ان کے زیر اثر رہنے والے مذہبی رہنما کے ہاتھ میں طاقت تھی۔
آئین میں تبدیلی آ چکی تھی جس میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا تھا۔ صدر اور رہبر اعلیٰ میں صدر رفسنجانی زیادہ غالب تھے۔
رفسنجانی نے ایران کی عالمی تنہائی ختم کرنے کے لیے حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کیا اور سماجی اور ثقافتی قدغنوں کو کم کیا۔ انھوں نے خاموشی سے سعودی عرب، مراکش اور مصر کے ساتھ تعلقات استوار کیے اور کویت سے عراق کو نکالنے کے لیے امریکہ کی قیادت میں اتحاد کی حمایت کی۔ انھوں نے لبنان میں امریکی یرغمالیوں کی رہائی میں بھی مدد کی۔
لیکن رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے آہستہ آہستہ طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کیا اور ثقافتی آزادی پر دوبارہ قدغنیں لگانی شروع کر دیں۔ رفسنجانی کی جانب سے ممال کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کو اس وقت دھچکہ لگا جب ایران نے میڈرڈ میں 1991 میں عرب اسرائیل امن کی کوششوں کی مخالف کی اور لبنان میں حزب اللہ کی حمایت کی۔
رفسنجانی، دوسری معیاد کے آغاز پر، خامنہ ای کی قیادت میں قدامت پسندوں سے پیچھے رہ چکے تھے۔ لیکن رفسنجانی میراث میں داخلی اور خارجہ پالیسی میں حقیقت پسندی چھوڑ گئے۔
محمد خاتمی (1997-2005)
خاتمی 1997 کے انتخابات میں مضبوط امیدوار نہیں تھے۔ لیکن انھوں نے ووٹرز کو قانون کا احترام، مختلف آرا کا احترام، خواتین اور نوجوانوں پر خاص توجہ اور عالمی دنیا سے روابط کی بات کر کے اپنی طرف مبذول کرایا اور اس کے نتیجے میں انھوں نے 80 فیصد ٹرن آؤٹ میں 70 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
1997 کے بعد انھوں نے 2001 کے انتخابات میں بھی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے اور دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوئے۔
ان کے دورِ صدارت میں سیاسی پابندیاں کم کی گئیں اور میڈیا کو آزادی ملی۔ انقلاب کے بعد پہلی بار لوکل کونسل کے انتخابات بھی منقد کیے گئے۔ معیشت کو لبرلائز کیا گیا۔
خارجہ پالیسی میں خاتمی نے الفاظ کے چناؤ کے ذریعے اسرائیل کے وجود کی مخالفت ترک کی اور عرب اسرائیل امن کی مخالفت بھی۔ انھوں نے ایرانی اور امریکی عوام کے درمیان بات چیت کی حمایت کی اور آیت اللہ خمینی کی جانب سے سلمان رشدی کو قتل کرنے کے فتوے کو بھی واپس لیا۔
خاتمی ہی نے ایٹمی افزودگی کو بند کیا تاکہ یورپی ممالک کے ساتھ بات چیت آگے بڑھ سکے۔
لیکن ان کا سفر اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ آغاز ہی سے پاسداران انقلاب، رہبر اعلیٰ کا دفتر اور پارلیمنٹ خاتمی کی سیاسی لبرلازیشن کے خلاف تھے۔
کئی اصلاح پسند اخبارات بند کر دیے گئے اور خامنہ ای نے خاتمی کی جانب سے امریکہ کی طرف قدم بڑھانے اور اسرائیل کی جانب نرم رویے کو خارج کر دیا۔
خاتمی کے دوسرے دور میں خاتمی نے کچھ ایسی تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا جو سخت موقف رکھنے والوں کو ناگوار گزرے۔ خاتمی حکومت نے لبرل پریس قوانین، خود مختار عدلیہ، اور رہبر اعلیٰ کی وسیع اتھارٹی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔
لیکن اگلے تقریباً دو ماہ میں عدلیہ نے تقریباً تمام اصلاح پسند اخبارات بند کرا دیے، شوریٰ نگہبان نے پارلیمانی کمیٹی کو کسی ایسی تنظیم نگرانی کرنے سے منع کر دیا جو رہبر اعلیٰ کے ماتحت آتی ہیں جیسے کہ عدلیہ، فوج اور قومی ریڈیو اور ٹی وی۔ رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے پارلیمنٹ کو لبرل پریس قوانین منظور کرنے سے بھی روک دی۔
خاتمی کی خاموشی اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ یہ جنگ ہار گئے ہیں اور کنٹرول سخت موقف رکھنے والوں کے پاس چلا گیا ہے۔
محمود احمدی نژاد (2005-2013)
احمدی نژاد نے الیکشن رفسنجانی کے خلاف لڑا اور جیتا۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک چھوٹا آدمی اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں کے طور پر پیش کیا۔ پاسداران انقلاب نے احمدی نژاد کے حق میں ووٹروں کو متحرک کرنے کی کوشش کی لیکن اصلاحات کی ناکامی کے باعث زیادہ تر جوان اور مڈل کلاس ووٹر گھر سے نہ نکلے۔
احمدی نژاد نے سخت گیر موقف رکھنے والے افراد کو ثقافت، داخلہ اور انٹیلیجنس کے قلمدان سونپ دیے۔ میڈیا پر سختیاں بڑھ گئیں۔
احمدی نژاد کی پالسیوں نے امرا کو فائدہ پہنچایا جبکہ ان کی لبرل درآمدی پالیسی سے ایرانی صنعتوں کو بےحد نقصان ہوا اور ایرانی مارکیٹ بھارتی اور چینی سستی اشیا سے بھر گئیں۔ ان کے دو دورِ صدارت میں تیل سے کُل 700 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی لیکن قلیل مدتی اور غیر پیداواری پروگراموں کے باعث ضائع ہوئے۔
انھوں نے ایران کے پانچ سالہ پیدواری منصوبے کی تکمیل کے لیے بنائی گئی پلان آرگنائزیشن کو بھی ختم کر دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ طویل مدتی منصوبہ بندی وقت کا ضیاع ہے۔
احمدی نژاد کے دور صدارت میں پاسداران انقلاب اور سکیورٹی ایجنسیوں کی طاقت میں بے حد اضافہ ہوا۔ ان کے دوسرے دورِ حکومت میں پاسداران انقلاب توانائی، اسلحے کی پیداوار، الیکٹرانکس، گاڑیوں کی اسمبلی اور ترسیل میں حصے دار بن چکا تھا۔ پاسداران انقلاب نے کھلم کھلا سیاست میں مداخلت شروع کر دی۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے احمدی نژاد نے عالمی برادری کی جانب سخت موقف رکھا۔ اسرائیل کے خاتمے کی بات کی اور ہولوکوسٹ سے انکار کیا اور امریکی اجارہ داری کو چیلنج کرتے ہوئے نیو ورلڈ آرڈر کی بات کی۔
انھوں نے ایٹمی فیول افزودگی کو جاری رکھا۔ عرب ممالک کے ساتھ مشکل سے استوار کیے گئے تعلقات خراب ہوئے جب ایران نے عرب سپرنگ کی حمایت کی اور شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت کا اعلان کیا۔
اپریل 2011 میں احمدی نژاد اور خامنہ ای کے تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب دونوں میں وزیر برائے انٹیلیجنس کے نام پر اختلاف ہوا۔ وزیر برائے انٹیلیجنس کی نامزدگی رہبر اعلیٰ کا صوابدید ہے اور صدر کی جانب سے مخالفت نے ان کے مخالفین کو موقع فراہم کیا کہ وہ ان کے خلاف کھل کر بات کر سکیں۔ صدر منحرف رہے لیکن آخری دو سال ایک نہایت کمزور صدر کے طور پر گزارے۔
حسن روحانی (2013-2021)
صدر روحانی کا انتخابات جیتنے سے ایک نئے دور کا آغاز تھا جس میں حکومت میں وہ افراد تھے جن کو ملک چلانے کا تجربہ تھا۔ روحانی 16 سال تک نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ رہے اور ایران کے ایٹمی ایشو پر چیف مذاکرات کار تھے۔
انھوں نے الیکشن میں اعتدال پسندی، ایٹمی پروگرام پر مغرب کے ساتھ تنازع کا حل، خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری، دانشمندانہ معاشی پالیسی اور سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے ایرانیوں کی زندگی میں کم مداخلت کا نعرہ لگایا۔
حسن روحانی نے شروع ہی سے ایٹمی تنازع کے حل کے لیے کام شروع کر دیا اور وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس حوالے سے دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ بات چیت شروع کر دی۔
2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے روانہ ہونے سے قبل انھوں نے امریکی صدر براک اوباما سے ٹیلیفن پر بات کی۔ تاہم رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے اس بات چیت کو نامناسب قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روحانی کی خارجہ پالیسی کا مرکز ایٹمی مذاکرات تھے اور آخرکار 14 جولائی 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدہ طے پایا۔
ایران اور مغرب کے درمیان ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کشیدگی کم ہوئی لیکن اسرائیل کے بارے میں ایران کا موقف، حزب اللہ کی حمایت جیسے معاملات پر کشیدگی برقرار رہی۔
داخلی امور میں روحانی نے کامیابی سے معیشت کو درست سمت پر ڈالا اور اپنی دوسری معیاد تک معیشت کافی حد تک بہتر ہوئی۔ ان کے دور میں سماجی پابندیوں کو بھی نرم کیا گیا اور وہ انٹرنیٹ تک رسائی کے حق میں بھی تھے۔
لیکن ان کے پاس عدلیہ یا انٹیلی جنس وزارت پر کنٹرول نہیں تھا۔ مخالفین کی گرفتاریاں جاری رہیں اور انقلابی عدالتیں لوگوں کو سخت سزائیں سناتی رہیں۔
2017 میں دوسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد ایران اور صدر ٹرمپ کے امریکہ کی درمیان تعلقات خراب ہو گئے۔ تعلقات خراب ہونے کے باعث ایران روس اور چین کے زیادہ نزدیک ہو گیا۔