ایران کے صدارتی انتخابات میں سات امیدوار مدمقابل ہیں۔ ان انتخابات میں فتح یاب ہونے والے نو منتخب صدر کو اگست میں عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد کئی مشکل چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا۔
یہ انتخابات 18 جون کو ہو رہے ہیں جبکہ 25 جون کو رن آف الیکشن کے امکانات بھی روشن ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قدامت پسند امیدوار ابراہیم رئیسی ابھی تک الیکشن کی دوڑ میں آگے نظر آتے ہیں جس کی ایک وجہ ان کے مضبوط مخالفین کو نااہل قرار دیا جانا ہے۔
اگر وہ جیت جاتے ہیں تو وہ ایک ایسے ملک میں صدر کا عہدہ سنبھالیں گے جہاں طاقت کا منبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں۔
ہم نے یہاں ان پانچ اہم مسائل کا احاطہ کیا ہے جن کا سامنا ایران کے نو منتخب صدر کو کرنا ہو گا۔
معاشی مسائل اور امریکی پابندیاں:
انتخابی مہم میں شریک تمام امیدواروں نے جن ترجیحات پر اتفاق کیا ہے ان میں ایران پر عائد سخت امریکی پابندیاں سرفہرست ہیں جس کی وجہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جوہری معاہدے سے انخلا تھا۔
ان پابندیوں کے بعد ایرانی معیشت کو کرونا وبا کے باعث بھی شدید نقصان ہوا ہے۔
2015 کے جوہری معاہدے کے بعد ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی امید کی جا رہی تھی۔ یہ معاہدہ ایران کے اس وعدے پر کیا گیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار تیار نہیں کرے گا۔
ایران ہمیشہ سے اس بات کی تردید کرتا رہا ہے لیکن سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس معاہدے سے یک طرفہ انخلا کے بعد ایران کی امیدوں پر پانی پھر گیا تھا۔
جبکہ ٹرمپ نے ایران پر ایک بار پھر سخت پابندیاں عائد کر دیں تھیں جو ان کی 'بھرپور دباؤ' مہم کا حصہ تھا۔
ان پابندیوں کے باعث ایران عالمی معاشی نظام سے کٹ کر رہ گیا اور اسے تیل کی فروخت میں اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔
بین الااقوامی مانیٹری فنڈ کے مطابق 19-2018 میں ایران کی جی ڈی پی میں چھ فیصد سے زائد کمی ہوئی جبکہ گذشتہ سال اس میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
بے روزگاری میں اضافہ:
ایران میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایرانی کرنسی یعنی ریال کی قیمت بڑی حد تک گر چکی ہے جبکہ مہنگائی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے رواں سال مہنگائی کی شرح 39 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
دی انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ سٹریٹجک ریلیشنز ان پیرس کے ماہر تھیری کووئیل کا کہنا ہے کہ ’اگر ایران پر عائد پابندیاں ختم کر دی جاتی ہیں تو ہم معاشی صورت حال میں استحکام دیکھیں گے جس سے نمو میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی ہو گی۔‘
’نئے صدر کو عوامی توقعات پر پورا اترنا ہو گا۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ چیزیں فوری طور پر بہتر ہو جائیں گی لیکن ایسا نہ ہوا تو انہیں شدید مایوسی ہو گی۔‘
جوہری پروگرام اور خارجہ پالیسی:
یورپین یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ فلورنس، اٹلی کے کلیمنٹ تھرمے کہتے ہیں کہ ’اگر ایران کے جوہری پروگرام پر سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو بھی اس سے مغربی سرمایہ کار بہت جلد ایرانی مارکیٹ میں واپس نہیں آ سکیں گے۔ ایسا ہونے کے لیے ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات معمول پر آنا ضروری ہو گا۔‘
لیکن یہ یاد رہے کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے مخالف ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے امریکہ کو ’شیطان بزرگ‘ یا ’بین الااقوامی متکبر طاقت‘ قرار دیتے رہے ہیں۔
تھرمے کا کہنا ہے کہ ’نئے صدر کو معاشی حالات میں کم سے کم بہتری کی نئی راہیں تلاش کرنی ہوں گی اور ایسا کرنے کے لیے انہیں امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ اپنے اختلافات کی سطح میں ردوبدل کرنا ہو گا۔‘
انتخابی مہم میں سرفہرست رہنما ابراہیم رئیسی کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے اطراف میں موجود ممالک سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ایران کے چین کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات ہیں۔
رئیسی کی صدارت کے دوران مغرب سے تعلقات میں مزید کشیدگی کا امکان ہے۔
کرونا کی وبا:
جب کرونا کی وبا پھیلی تو ایران خطے میں اس کا سب سے بڑا نشانہ بننے والا ملک تھا۔
سرکاری اعداد و شمار کے، جنہیں حقیقی اعداد و شمار سے کم سمجھا جاتا ہے، مطابق اب تک ایران میں 30 لاکھ سے زائد افراد کرونا سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 81 ہزار سے زائد ہے۔
امریکی پابندیوں کے باعث ایران کو ویکسی نیشن کی مہم چلانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
پابندیوں میں نرمی کے علاوہ ایران کی تیار کردہ ویکسین کا استعمال بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ایران کی تنہائی اور معاشی مشکلات، 2017 اور 2018 میں ہونے والے مظاہروں کو طاقت کے زور پر دبائے رکھنے کے اثرات بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایرانی قوم امریکہ کے ساتھ کشیدگی کے عروج کے دوران جنوری 2020 میں یوکرینی طیارے کو گرائے جانے پر بھی غم زدہ رہی ہے۔
اصلاح پسند صحافی احمد زیدآبادی کہتے ہیں ’اعتماد کا فقدان بہت گہرا اور ملک گیر ہے۔‘
حکام کو خدشہ ہے کہ آنے والے انتخابات میں ٹرن آوٹ بہت کم ہو گا اور یہ فروری 2020 میں ہونے والے قانون ساز انتخابات میں ووٹ نہ ڈالنے والی 57 فیصد آبادی سے زیادہ ہو سکتا ہے۔
زید آبادی کا کہنا ہے کہ ’مستقبل کی حکومت کو اعتماد کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، جن میں سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے کہ ٹیلی گرام اور ٹوئٹر پر عائد پابندی ختم کرنا اور خواتین پر پردے کے لیے عائد سخت شرائط میں نرمی لانا شامل ہو گا۔‘
ماحولیاتی بحران:
ماحولیاتی مسائل ایران کی بھلا دی جانے والی ترجیح ہو سکتے ہیں لیکن یہ آٹھ کروڑ 30 لاکھ آبادی والے ملک لیے ایک خطرہ ہیں جسے پانی کی کمی، صحرائی علاقے میں اضافے اور شہری آب و ہوا میں آلودگی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تھیری کووئیل کہتے ہیں کہ ’ایران میں ماحولیاتی بحران ایک حقیقت ہے لیکن ابھی تک حکومت اس حوالے سے کوئی جامع پالیسی مرتب کرنے کے قابل نہیں ہو سکی۔‘
ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے تین صدارتی مباحثوں میں ماحولیاتی مسائل پر کوئی بات نہیں کی گئی۔
تھرمے کا کہنا ہے کہ ’ماحولیاتی مسائل اہمیت کے حامل ہوں گے لیکن ان مسائل کی وجوہات صدر کی صلاحتیوں کے دائرہ اختیار میں نہیں۔‘
زید آبادی کے مطابق ایران میں ’پانی کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔‘ وہ اس کی وجہ ’قدرتی وسائل کی تباہی‘ کو قرار دیتے ہیں جو صنعتی اور غیر مستحکم زرعی پالیسیوں کے باعث ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے حکومت میں موجود افراد کو ان مسائل کو بھلانے کے لیے صرف دو بارشوں کی ضرورت ہے۔‘