یہ 1867 کا واقعہ ہے جسے تاریخ میں بلوچوں کی پہلی یورش قرا ر دیا جاتا ہے۔ بگٹی قبائل نے سندھ کے علاقوں پر دھاوا بولا اور 15 ہزار مویشی پکڑ لائے۔ اس کے فوراً بعدپنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کا رخ کیا اور چند بستیوں کے جلا ڈالا اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔
اس زمانے میں ڈیرہ غازی خان میں لیفٹیننٹ رابرٹ سینڈیمن بطور ڈپٹی کمشنر تعینات تھے۔ ضلعے کی حدود خان آف قلات کے علاقوں سے ملتی تھیں جن میں مری، بگٹی اور کھیتران قبائل آباد تھے جو آزاد منش تھے اور خان آف قلات کا حکم بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ سیاسی طور پر یہ تمام علاقہ انگریز پولیٹیکل ایجنٹ سندھ کے ماتحت تھا جس کا ہیڈ کوارٹر جیکب آباد ہوا کرتا تھا، لیکن عملاً اس کی عمل داری بھی نہیں تھی۔
جب ڈیرہ غازی خان میں بگٹی قبائل کی لوٹ مار سے نقصان ہوا تو اس کے ازالے کے لیے رابرٹ سینڈیمن نے سندھ کے پولیٹیکل ایجنٹ اور خان آف قلات سے رابطہ کیا مگر دونوں نے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کر دی کہ ان قبائل پر ان کا دائرہ اختیار نہیں۔
رابرٹ سینڈیمن نے اپنے طور پر بلوچ قبائل سے نمٹنے کے لیے ایک حکمت عملی ترتیب دی۔ اس سے پہلے یہ قبائل یا تو باہم خود لڑتے رہتے تھے یا پھر اپنی سرحدوں پر واقع دوسرے قبائل کے خلاف لوٹ مار کرتے رہتے تھے۔ بلوچستان میں عدم مرکزیت اور بد امنی انگریز سرکار کے لیے دردسر بن چکی تھی کیونکہ روسی فوجیں پامیر تک پہنچ چکی تھیں اس لیے انگریز بلوچستان پر عملاً کنٹرول کا متمنی ضرور تھا مگر دوردراز اور مشکل علاقہ ہونے کی وجہ سے شش و پنج میں مبتلا تھا۔ رابرٹ سینڈیمن نے بلوچوں کی روایات اور ثقافت کا بغور مطالعہ کیا اور اپنی سفارشات پیش کر دیں۔ بالآخر حکومت ِ برطانیہ نے سینڈیمن کی ’پالیسی آف ہیڈ اینڈ ہرٹس‘ (Policy of the Hearts) کی منظوری دے دی۔
سینڈیمن کا تجزیہ تھا کہ گولی سے ان قبائل کو قابو نہیں کیا جا سکتا اور ان کی شمولیت کے بغیر امن کا قیام ناممکن ہے۔ پہلے ان کے مسائل کو سمجھا جائے اور پھر ان کی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں عزت وتکریم دی جائے۔ شاید رابرٹ سینڈیمن کے پیشِ نظر بلوچوں کے بارے میں اپنے کسی پیشرو کا قول تھا کہ ’بلوچ کو عزت دے کر اس کی جان بھی مانگی جائے تو وہ انکار نہیں کرتا۔‘
یہ پالیسی اتنی کار گر ثابت ہوئی کہ ’تاریخِ بلوچاں‘ کامصنف رائے بہادر ہتو رام یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ ’رابرٹ سینڈیمن بلوچ اور پٹھان قبائل میں گھل مل کے گشت کیا کرتے تھے، یہ لوگ اسے اپنا عزیز کہتے اور اس کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔‘
رابرٹ سینڈیمن نے ان جفا کش اور بہادر قبائل کو کیسے مطیع کیا، یہ کہانی اپنے اندر ایسے اسباق لیے ہوئے جسے آج ہماری انتظامیہ کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ا س نے پہلا کام یہ کیا کہ ان قبائل میں سے کچھ لوگوں کو فرنٹیئر ملیشیا میں بھرتی کیا جن کے ذمے دو کام لگائے۔ اوّل یہ کہ وہ علاقے سے متعلق حکومت کو باخبر رکھیں گے اور دوم یہ کہ جب ان کے علاقے کے ڈاکو لوٹ مار کے لیے اس طرف آئیں تو ان کا پیچھا کر کے انہیں پکڑیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن یہ لوگ حکومت سے زیادہ اپنے قبائل کے وفادار تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ڈاکو لوٹ مار کر کے چلے جاتے۔ ملیشیا کے لوگ ان کی لوٹ مار میں مدد کرتے اور جب وہ واپس اپنے علاقوں میں داخل ہو جاتے تو وہ انگریز سرکار کو رپورٹ دیتے کہ وہ سرحد عبور کر گئے ہیں۔ رابرٹ سینڈیمن نے ملیشیا کے ساتھ ان قبائل کے سرکردہ افراد سے بھی رابطے استوار کرنے شروع کر دیے اور قیام امن کے لیے مری، بگٹی اور کھیتران قبائل کو مذاکرات کی دعوت دی۔ قبائل کے نمائندے آ تو گئے لیکن کسی قسم کے تعاون سے انکار کر دیا۔
مذاکراتی گروپ میں غلام حسین سوری نامی مشہور ڈاکو بھی تھا جو حکومت کو کئی ڈکیتیوں میں مطلوب تھا۔ سینڈیمن نے اس کو واضح پیغام دیا کہ اب اگر وہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں ڈکیتی کی نیت سے داخل ہوا تو زندہ واپس نہیں جا سکے گا۔ رابرٹ سینڈیمن نے قبائل کے انکار کے باوجود ملیشیا کے ذریعے ان کی گھروں کو باعزت واپسی کو یقینی بنایا، جس پر مخالف قبائل حیران تو ہوئے ہی حکومت کے حامی قبائل پر بھی اس کا ایسا اثر ہو اکہ وہ رابرٹ سینڈیمن پر جان چھڑکنے کو تیار ہو گئے۔
1867 میں غلام حسین سوری نے ڈیرہ غازی خان میں ہرنڈ کے علاقے پر حملہ کر دیا جس میں مری اور بگٹی دونوں قبائل کے ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ لشکری شامل تھے۔ اس لشکر نے گورچانی قبیلے کے کچھ لوگ مار ڈالے اور سینکڑوں کی تعداد میں مویشی ہانک کر لے گئے۔ مقابلے کے لیے ملیشیا حرکت میں آئی دوسری جانب گورچانی اور لُنڈ قبائل کے سینکڑوں افراد بھی تعاقب میں دوڑ پڑے۔ درہ چاچڑ کے قریب ملیشیا اور رابرٹ سینڈیمن کے حامی قبائل نے بلوچ قبائل کو گھیر لیا۔ غلام حسین سوری اپنے 120 ساتھیوں کے ساتھ مارا گیا جبکہ دو سو سے زائد ڈاکو گرفتار کر لیے گئے جنہیں سینڈیمن نے جیل میں بند کر دیا۔ مال مویشی اور مسروقہ مال بر آمد کر لیا گیا۔
اس ایک واقعے کی وجہ سے علاقے میں انگریز سرکار اور رابرٹ سینڈیمن کی دھوم مچ گئی۔ پہلی بار عوام کو اور حکومتی حامی قبائل کو یہ احساس ہوا کہ حکومت ان کا تحفظ کر سکتی ہے۔ غلام حسین سوری کو بلوچ قبائل آج بھی اپنا ہیرو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ صرف انگریز علاقوں میں لوٹ مار کرتا تھا اور انگریزوں نے اسے ڈاکو بنا دیا۔ بہر حال غلام حسین سوری کی ہلاکت کے بعد سینڈیمن نے مری، بگٹی اور کھیتران قبائل کو پیغام بھجوایا کہ اگر اپنے آدمی چھڑوانے ہیں تو اس کے پا س آ کر مذاکرات کریں۔
ادھر بلوچ قبائل کو خوف تھا کہ یہ انگریز کی چال ہو سکتی ہے کہ وہ انہیں بلا کر قید کر لے گا یا گولی مار دے گا۔ کیونکہ اس سے پہلے خان آف قلات اور سردار محمد سعید خان کے ساتھ ایسے واقعات پیش آ چکے تھے۔ بہرحال سینڈیمن کے پیغام پر اعتماد کرتے ہوئے تینوں قبائل کے نمائندے سردار گرمین خان مری، سردار غلام مرتضی ٰ خان بگٹی، سردار بابل خان اور سردار سید خان کھیتران کی قیادت میں سینڈیمن سے ملنے راجن پور آئے۔ تفصیلی مذاکرات کے نتیجے میں تینوں قبائل نے آئندہ ڈیرہ غازی خان کی حدود میں لوٹ مار اور غیر قانونی کارروائیاں نہ کرنے کی یقین دہانی کروا دی بلکہ یہ تک کہا کہ ڈیرہ سے جو راستے ان قبائل کی طرف جاتے ہیں وہ ان راستوں کی بھی حفاظت کریں گے۔
اس کے بدلے میں رابرٹ سینڈیمن نے ہر سردار کو ایک جمعدار اور دس سواروں کی تنخواہ دینے کے احکامات جاری کیے۔ ان سرداروں کی سفارش پر مری، بگٹی قبائل کے ملیشیا سوار راجن پور میں اور کھیتران قبائل کے سوار ڈیرہ غازی خان میں تعینات کیے گئے۔ تمام قبائل کے قیدی ان کے حوالے کر دئے گئے اور ضروری خاطر مدارت کے بعد انہیں باعزت واپس بھیج دیا گیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ کسی فریق نے اس معاہدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس سفارت کاری کا اثر یہ ہوا کہ وہ قبائل جو کہ انگریز حکومت کے ماتحت نہ تھے وہ بھی اپنے باہمی جھگڑے نمٹانے کے لیے رابرٹ سینڈیمن کے پا س آنے لگے۔ سینڈیمن نے بہت سے قبائل کی آپس کی دشمنیاں ختم کروا کر ان کے باہم رشتے کروائے۔
اس کے بعد سے سینڈیمن 18 سال بلوچستان میں رہے اور اس دوران بغیر حفاظتی دستوں کے بلوچستان میں گھومتے پھرتے رہتے۔ یہی قبائل ان کے محافظ بھی بنتے اور میزبان بھی۔ انہوں نے انہی پالیسیوں کی بدولت پورے بلوچستان کو برطانوی عمل داری میں شامل کروا دیا اور مختلف علاقوں میں ایجنسیاں اور چھاونیاں بنائی گئیں۔ سینڈیمن ترقی پاتے ہوئے کرنل، بلوچستان میں ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل ہند اور پھر کمشنر بلوچستان بھی بنے۔ 1892 میں لسبیلہ کے دورے کے موقعے پر ان کا انتقال ہو گیا۔
ان کی موت کا بلوچ قبائل کو اتنا دکھ ہوا کہ ایک تعزیتی دربار منعقد کیا گیا جس میں رابرٹ سینڈیمن کی یاد میں ایک یادگار بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ یادگار آج بھی لسبیلہ کی تحصیل بیلہ کے سینڈیمن پارک میں واقع ہے۔ بلوچستان کے شہر ژوب میں سینڈیمن نے 1889 میں ایک قلعہ تعمیر کروایا، جس کی وجہ سے یہ شہر بھی فورٹ سینڈیمن کے نام سے مشہور ہو گیا جسے 1976 میں دوبارہ ژوب کا نام دیا گیا۔
تاریخ کا سبق
مشہور فلسفی سانتیانا نے کہا تھا کہ جو لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے وہ اسے دہرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت پانچویں بلوچ یورش چل رہی ہے۔ موجودہ یورش اس لحاظ سے سب سے طویل ہے کہ2005 سے جاری ہے۔ رابرٹ سنڈیمن کے دور میں بھی جھگڑا بگٹی قبائل سے شروع ہوا تھا، مگر رابرٹ سنڈیمن کی فہم و فراست تھی کہ اس نے ’ہیڈ اینڈ ہارٹس پالیسی‘ دی اور اسے کامیاب بھی کر دکھایا۔
شاید آج ہمارے اداروں میں رابرٹ سنڈیمن جیسی فہم رکھنے والے لوگ نہیں ہیں جس کی وجہ سے بلوچ یورش ہر روز نیا رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ایک طرف حامی قبائل کے ساتھ پاور شیئرنگ کی گئی ہے مگر دوسری جانب متحارب قبائل کے لیے کوئی ڈپلومیسی کامیاب نہیں ہو سکی۔
حتیٰ کہ اکبر بگٹی جیسے پاکستان کے حامی بلوچ سردار کو جس طرح سے پہلے سے اعلان کر کے اور نشانہ بنا کر مارا گیا اس نے بلوچوں کے دلوں میں نفرتوں کے شعلے مزید بھڑکا دیے۔
عمران خان جب برسر اقتدار آئے تھے تو انہوں نے بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے اور ان کے ساتھ مفاہمت کے خوشنما اعلانات تو ضرور کیے مگر ان کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ شاید آج بھی بلوچ رابرٹ سنڈیمن کی راہ دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’بلوچ کو عزت تو دے کر دیکھیں پھر یہ آپ کے لیے جان کی بازی بھی لگا دے گا۔‘