یہ 17ویں صدی کی دوسری دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ کشمیر کے قدرتی حسن و جمال کا جادو مغل شہنشاہ نورالدین محمد سلیم المعروف جہانگیر پر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
اس کی جھلک جہانگیر کی خودنوشت ’تزک جہانگیری‘ میں ملتی ہے جس میں وہ کشمیر کو ’ایک سدا بہار باغ‘ اور ’ایک پھلواری‘ کا نام دیتے ہیں۔
وہ گرمیوں میں اکثر لاہور سے کشمیر کا رخ کرتے اور سری نگر میں ان کے والد شہنشاہ جلال الدین اکبر کے تعمیر کردہ قلعہ ہاری پربت سے حکومتی امور چلاتے۔
جہانگیر نے سنہ 1619 میں ہاری پربت سے قریب 10 کلو میٹر دور زبرون پہاڑی سلسلے میں ایک دلکش باغ تعمیر کرایا جو آج شالامار باغ کے نام سے مشہور ہے۔
مورخین کا کہنا ہے کہ جہانگیر نے یہ باغ اپنی چہیتی بیوی مہرالنسا المعروف نور جہاں کی محبت میں تعمیر کرایا جنہیں باغات کی تعمیر میں گہری دلچسپی تھی۔
نامور کشمیری مورخ، محقق، نقاد اور مصنف محمد یوسف ٹینگ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ شہنشاہ جہانگیر نے اپنے عہد حکمرانی کے دوران 13 مرتبہ کشمیر کا دورہ کیا۔
ان کا کہنا تھا: ’بیشتر موقعوں پر نور جہاں ان کے ہمراہ رہتی تھیں۔ کسی دوسرے مغل شنشہاہ اور ملکہ نے کشمیر میں اتنا وقت نہیں گزارا جتنا جہانگیر اور نور جہاں نے گزارا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جہانگیر کا قافلہ لاہور میں سورج کی تپش بڑھتے ہی کشمیر کی طرف روانہ ہو جاتا۔ پھر جب یہاں اکتوبر یا نومبر میں زعفران کی فصل تیار ہوتی تو شہنشاہ کا قافلہ واپس لاہور چلا جاتا۔‘
معروف کشمیری مورخ ظریف احمد ظریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1605 میں مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنے والے جہانگیر جب پہلی مرتبہ کشمیر آئے تو یہ جگہ پہلی ہی نظر میں ان کے دل و دماغ میں گھر کر گئی۔
’جہانگیر نے کشمیر کا حسن و خوبصورتی دیکھ کر خواہش ظاہر کی تھی کہ میرا قبرستان بھی یہیں پر ہو۔‘
محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر نے شالامار باغ نور جہاں کے لیے تعمیر کرایا تھا۔
ان کے بقول: ’شالامار باغ کی تعمیر نور جہاں کا ایک خواب تھا جس کو جہانگیر نے پورا کیا۔ تعمیر کے بعد نور جہاں نے اس باغ کی منتظمہ کے فرائض انجام دیے۔ وہ اس باغ کو مزید جاذب النظر بنانے کے کام میں سرگرم رہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نور جہاں نے کشمیر میں کئی باغات اپنی سرپرستی میں تعمیر کرائے۔‘
سنیل شرما اپنی کتاب ’مغل آرکیڈیا – پرشین لٹریچر این انڈین کورٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ نور جہاں کا نام آگرہ، لاہور اور سری نگر میں واقع کئی باغات سے جڑا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کشمیر کے باغات کا نگینہ کہلایا جانے والا شالامار باغ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصے کا نام فرح بخش ہے جو جہانگیر نے 1619 میں نور جہاں کے لیے تعمیر کرایا۔ دوسرے حصے کا نام فیض بخش ہے جو ان کے بیٹے شاہ جہاں نے 1934 میں تعمیر کرایا۔‘
’سری نگر کا دوسرا بڑا باغ نشاط ہے جو شالامار باغ سے بھی زیادہ دلکش ہے۔ اس کو نور جہاں نے 1625 میں اپنے بھائی آصف خان سے تعمیر کرایا۔ انہوں نے کشمیر میں اچھہ بل اور جھروکا باغ سمیت دیگر کئی باغات بنوائے۔‘
جرمن مورخ و مصنف مائیکل جے کاسیمیر اپنی کتاب ’فلوٹنگ اکانومیز: دا کلچرل اکولوجی آف دا ڈل لیک ان کشمیر‘ میں لکھتے ہیں: ’مغل شہنشاہ جہانگیر نے 1619 میں اپنی ملکہ نور جہاں کے لیے جنت نظیر کہلائے جانے والے کشمیر کے اندر ایک اور جنت تعمیر کرائی۔ مشہور مغل باغات شالامار باغ اور نشاط باغ اس وقت بھی ڈل جھیل کے شمال مشرقی حصے میں تاباں ہیں۔‘
جیمز ایل ویسکوٹ اور جے ڈبلیو بلمن نے اپنے مقالے ’مغل گارڈنز: سورسز، پلیسز، ریپریزنٹیشنز اینڈ پراسپیکٹس‘ میں لکھا ہے کہ جہانگیر کے عہد حکمرانی میں ان کی ملکہ نور جہاں کی سرپرستی میں باغات کی تعمیر کا کام عروج کو پہنچا۔
’نور جہاں کا خاندان 16ویں صدی کے اواخر میں فارس سے ہندوستان منتقل ہوا تھا۔ جہانگیر سے شادی کے بعد نور جہاں، ان کے والد اور بھائیوں نے بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت حاصل کی اور مرکزی شہروں، کارواں سرائیوں اور باغات کے صوبہ کشمیر میں باغات کی تعمیر کی سرپرستی کے فرائض انجام دیے۔‘
کرنل تیج کمار ٹکو اپنی کتاب ’کشمیر: اٹس ایبرجنیز اینڈ دیئر ایکسڈس‘ میں لکھا ہے: ’جب جہانگیر نے پہلی مرتبہ کشمیر کا دورہ کیا تو وہ مغل روڈ پر ایک انتہائی دلکش آبشار دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ جہانگیر نے اس آبشار کو اپنی محبوب ملکہ نور جہاں کے نام سے منسوب کر دیا اور اس کا نام نور چھمب رکھا۔ آج یہ آبشار نوری چھمپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘
شالامار باغ کی خصوصیات
مورخ محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ مغلیہ دور خاص طور پر جہانگیر کے عہد حکمرانی میں شالامار باغ میں رات کے وقت موسیقی اور رقص کی محفلیں سجتی تھیں جن میں مغلیہ خاندان کی مرد و زن اور دیگر عزیز و اقارب شامل ہوتے تھے۔
ان کے مطابق: ’اُس زمانے میں ڈل جھیل کے کنارے قلعہ ہاری پربت کی سرحدوں کو چھوتے تھے۔ دن بھر قلعے میں حکومتی امور انجام دینے کے بعد شہنشاہ، ان کے افراد خانہ اور دیگر حکومتی عہدیدار کشتیوں میں سوار ہو کر شالامار باغ پہنچ جاتے۔ نصف شب تک وہاں محفلوں اور بیٹھکوں میں مصروف رہنے کے بعد وہ آرام کرنے کے لیے واپس قلعے کو آ جاتے۔ ‘
مورخ ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ رات کے وقت شالامار باغ کا نظارہ قابل دید ہوتا تھا اور جہانگیر خود چاند کی روشنی میں اس باغ میں وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔
’سری نگر کے شالامار باغ کی سب سے بڑی خوبی اس کے طبقات (ٹیریسز) ہیں۔ ہر طبقہ ایک مخصوص بلندی پر ہے۔ سب سے بلند طبقے سے صاف و شفاف پانی کی ایک نہر بہتی ہے۔ جس وقت جہانگیر نے شالامار باغ تعمیر کرایا اُس وقت اس نہر کی چوڑائی 36 فٹ اور لمبائی ڈیڑھ کلو میٹر تھی۔‘
انہوں نے کہا: ’اس باغ میں بڑے پیمانے پر چنار کے درخت لگائے گئے تھے۔ شالامار باغ کے باہر آج ایک 62 فٹ چوڑا چنار کا درخت ہے جو وادی کا دوسرا قدیم ترین چنار کا درخت ہے۔ عہد مغلیہ میں شالامار باغ کا پہلا طبقہ دیوان عام اور آخری و سب سے بلندی پر واقع طبقہ دیوان خاص کہلاتا تھا۔ اس میں ایک دلکش بارہ دری تعمیر کرائی گئی تھی جہاں سے پورے باغ کا نظارہ کیا جاتا تھا۔‘
محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ شالامار باغ میں ایک بارہ دری ایسی تھی جس میں ہیرے جواہرات سے جڑی پینٹنگز موجود تھیں۔
’جب کشمیر پر جمالیاتی احساس سے محروم ڈوگرہ راج مسلط ہوا تو اس کے اہلکاروں نے وہ ہیرے جواہرات لوٹ کر اپنے خزانے میں جمع کر دیے۔ ‘
سری نگر کی طرح لاہور میں بھی ایک شالامار باغ ہے تو دونوں میں فرق کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ٹینگ کا کہنا تھا: ’لاہور میں بھی ایک وسیع شالامار باغ ہے، لیکن سری نگر کا شالامار باغ سب سے بڑا اور گوناگوں صفات کا حامل ہے۔ لاہور کا شالامار باغ ہموار ہے اس کے برعکس ہمارا شالامار باغ غیر مساوی طبقات میں منقسم ہے۔ چنار کا درخت شالامار باغ کی روح ہے۔ ہمارا شالامار باغ چنار کے درختوں سے بھرا پڑا ہے لیکن لاہور میں چنار کے درخت نہیں ہیں۔‘
حیدرآباد دکن کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سابق سربراہ ڈاکٹر مشتاق احمد کاؤ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میں نے مارکسسٹ نظریے کو مطمع نظر رکھ کر مغل باغات کا جائزہ لیا ہے کہ مغلوں نے ان باغوں کو جمالیاتی مشغلے کے بطور تعمیر کیا ہے۔ ان کی تعمیر سے اگرچہ کچھ مقامی لوگوں کو روزگار مل گیا لیکن ایک بڑے کسان طبقے کو اس کا نقصان بھگتنا پڑا۔ ان لوگوں سے وصول شدہ ٹیکس یا جزیے کو ہی ان باغات کی تعمیر پر صرف کیا جاتا تھا لہٰذا ان کسانوں کے خون پسینے سے یہ باغات تعمیر ہوتے تھے۔‘
جہانگیر کی چہیتی ملکہ
نور جہاں شاہی دربار سے وابستہ اہم ترین شخصیت مرزا غیاث بیگ کی دختر تھیں۔ ان کی پہلی شادی ایک ایرانی نوجوان علی قلی بیگ سے ہوئی تھی جنہیں مغل شاہی دربار نے شیر افگن کا خطاب دیا تھا۔
شادی کے قریب 13 سال بعد علی قلی بیگ ہلاک ہوگئے جس کے بعد نور جہاں کو شاہی دربار واپس لایا گیا۔ یہاں وہ شہنشاہ اکبر کی بیوہ اور جہانگیر کی سوتیلی والدہ رقیہ سلطان بیگم کی خدمت پر مامور کی گئیں۔
جہانگیر کی ’تزک جہانگیری‘ کے مترجم مولوی احمد علی رامپوری لکھتے ہیں: ’جشن نوروز کے دوران ایک دن شہنشاہ جہانگیر کی نظر نور جہاں پر پڑیں اور وہ شہنشاہ کے دل میں سما گئیں۔ شہنشاہ نے انہیں شاہی حرم میں داخل کرنے کا اعزاز بخشا۔ پہلے نور محل کا خطاب دیا اور بعد میں نور جہاں کے خطاب سے سرفراز کیا۔‘
ان کے مطابق: ’نور جہاں بیگم شہنشاہ کے دل میں اتنا گھر کر چکی تھیں کہ سوائے خطبہ کے سلطنت کے تمام کاروبار ان کے حکم سے سر انجام پاتے تھے۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے جھروکا میں بیٹھتی تھیں اور امرا و وزرا حاضر ہو کر آداب بجا لاتے تھے اور احکامات سنتے تھے۔ ان کے نام کا سکہ چلتا تھا۔ رفتہ رفتہ شہنشاہ جہانگیر نے حکومت سے کنارہ کشی کر لی اور حکومت کی باگ ڈور نور جہاں بیگم کے سپرد کر دی۔‘
ڈاکٹر بینی پرشاد اپنی کتاب ’ہسٹری آف جہانگیر‘ میں لکھتے ہیں کہ جہانگیر کے عہد حکومت کا کوئی واقعہ اتنا جاذب توجہ نہیں جتنا ان کی نور جہاں سے شادی کا ہے۔
’پورے 15 سال تک یہ خاتون سلطنت مغلیہ کی سب سے زیادہ نمایاں اور با اقتدار ہستی رہیں۔ نور جہاں کا دل فیاضیانہ تھا۔ جہانگیر سے انہیں بے پناہ محبت تھی۔‘
کشمیر جہانگیر کی نظر میں
شہنشاہ جہانگیر اپنی خودنوشت ’تزک جہانگیری‘ میں کشمیر کے بارے میں لکھتے ہیں: ’شہر کا نام سری نگر ہے۔ دریائے جہلم اس کے وسط سے گزرتا ہے۔ شہر میں ایک عالی شان مسجد (جو آج جامع مسجد سری نگر کہلاتی) ہے جو سنہ 1392 میں سلطان سکندر نے بنوائی تھی۔ شہر سے متصل دو بڑے بڑے تالاب ہیں۔ لوگوں کی آمد و رفت کشتیوں سے ہوتی ہے۔ کشمیر کا راستہ بہت دشوار گزار ہے۔‘
جہانگیر کشمیر کی قدرتی خوبصورتی کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں: ’یہ ایک سدا بہار باغ کی مانند ہے۔ بادشاہوں کے لیے ایک گلشن اور درویشوں کے لیے دلکش سرائے ہے۔ بادام اور آڑو کے شگوفے یہاں کے بہترین شگوفے خیال کیے جاتے ہیں۔ شہر سے متصل ایک پہاڑی ہے جسے کوہ ماراں کہتے ہیں۔ اسے ہری پربت کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ مشرق کی جانب کوہ ڈل واقع ہے۔‘
’میرے والد بزرگوار کے عہد میں یہاں پتھر اور چونے سے ایک مضبوط قلعے کی تعمیر شروع کی گئی تھی جو میرے عہد میں پایہ تکمیل کو پہونچی۔ یہ قلعہ اتنا بڑا ہے کہ پہاڑی اس کے اندر آ گئی ہے۔ اس کے پاس دولت خانہ بنایا گیا اور اس دولت خانہ کے اندر باغیچہ لگایا گیا ہے۔‘