مغل بادشاہوں اور امرا کے ہاں بڑی تعداد ملازم عورتوں کی ہوتی تھی۔ ان ملازم عورتوں کے فرائض کا انتخاب کر کے ان کی خدمات لی جاتی تھیں جو عورتیں شاہی حرم میں خدمات سرانجام دیتی تھیں۔
ان کے مردوں کو بھی ملازمت میں لے لیا جاتا تھا۔ ان کے ذمہ حرم کے باہر کے کام ہوا کرتے تھے۔ مغل شاہی خاندان میں ان عورتوں کا بہت احترام کیا جاتا تھا جو بادشاہوں اور جو شہزادوں کی رضائی مائیں ہوتی تھیں جو ’انگا‘ کہلاتی تھیں اور ان کے خاندان کو کل تاش کہلاتے تھے۔ ایک طرح سے یہ مغل خاندان کا حصہ بن جاتے تھے۔ اکبر اپنے رضائی بھائی عزیز خان کوکا کا بہت خیال کرتا تھا اور اس کی گستاخی کو یہ کہہ کر معاف کر دیتا تھا کہ اس کے اور میرے درمیان دودھ کی نہر بہہ رہی ہے۔ ماہم اَنا اور جی جی انگا کا ذکر بھی ابوالفضل نے اکبر نامے میں کیا ہے۔
یہ ملازم عورتیں اپنے مخصوص کاموں کے لحاظ سے پہچانی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر:
اصیلیں
یہ وہ ملازم عورتیں تھیں جو نسل در نسل شاہی خاندان میں خدمات دیتی رہی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مامائیں
جو روٹی پکانے کے کام پر مامور تھیں۔
مغلانیاں
جو سینے پیرو نے کا کام کرتی تھیں۔
خواصائیں
جو ذاتی خدمت پر مامور ہوتی تھیں۔
جیسول نی
خواتین جو شاہی محل میں خیر خبر پہنچاتی تھیں۔
باندیاں، لونڈیاں، کنیزیں
زرخرید کنیزیں ہوتی تھیں جنہیں غریب لوگ بردہ فروشوں کو بیچ دیتے تھے جو بادشاہ اور امرا کے حرم میں فروخت کے بعد آ جاتی تھیں۔ یہ ملازم عورتیں زندگی بھر حرم سرا میں رہ کر خدمات سرانجام دیتی رہتی تھیں۔ ان کی خدمات کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً تحفے تحائف بھی دیئے جاتے تھے۔
قلمقانیاں
شاہی محل میں قلمقانیاں بہت اہمیت کی حامل تھیں۔ یہ مسلح دستے کی صورت میں حرم کی حفاظت کرتی تھیں۔ شاہ جہاں جب قید میں تھا تو اس نے اورنگزیب سے ملنے کی خواہش کی۔ اورنگزیب بھی جانے کے لیے تیار تھا۔ مگر اسے مخبروں نے خبر دی کہ اس کے خلاف سازش کی گئی ہے کہ محل میں داخلے کے وقت اسے قلمقانیوں کے ذریعے قتل کروا دیا جائے گا۔ اس پر اورنگزیب نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا اور پھر باپ بیٹے میں کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
نادر شاہ نے جب دہلی پر حملہ کیا تو چنڈو خانے سے کسی نے یہ افواہ اڑا دی کہ واہ رے محمد شاہ تو نے محل کی قلمقانیوں سے نادر شاہ سے قتل کروا دیا۔ اس خبر پر پہلے دہلی کے لوگوں نے نادر شاہ کے فوجیوں کو مارنا شروع کیا۔ اس پر نادر شاہ نے اپنے فوجیوں کو دہلی کے لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور ایک بڑی خونریزی کے بعد یہ ہنگامہ ختم ہوا۔
مغل خاندان میں ملازم عورتوں کے فرائض اور ان کی خدمات آخری مغل بادشاہ تک جاری رہیں۔ منشی فیض الدین نے اپنی کتاب ’بزم آخر‘ میں ان ملازم عورتوں اور ان کے فرائض کا بڑی خوبصورتی سے حال لکھا ہے۔
رات
دیکھو بادشاہ محل میں سکھ فرماتے ہیں۔ چپی والیاں چپی کر رہی ہیں۔ باہر قصہ خواں بیٹھا داستان کہہ رہا ہے۔ ڈیوڑھیاں مامور ہیں۔ اندر حبشنیاں، ترکنیاں، قلماقنیاں پہرے دے رہی ہیں۔
صبح کے وقت جب بادشاہ بیدار ہوتے ہیں تو ان کی خدمت کرنے کے لیے جو ملازم عورتوں کی بڑی تعداد ہے۔ اس کا ذکر بھی بزم آخر میں میں بیان کیا گیا ہے۔
صبح
چلمچی آفتابے والیوں نے زیرانداز جپھا چلمچی آفتابہ لگایا۔ رومال خانے والیاں رومال، لیے کھڑی ہیں۔ بادشاہ بیدار ہوئے، سب نے مجرا کیا۔ (یعنی آداب بجا لائے) مبارک باد دی۔ طشت چوکی پر گئے، پھر وضو کیا، نماز پڑھی، وظیفہ پڑھا۔ اتنے میں توشہ خانے والیاں کمخاب کا دست بقچہ لے کر حاضر ہوئیں پوشاک بدلی۔ دیکھو تو جسول نی کے لیے ادب سے ہاتھ باندھے عرض کر رہی ہے۔
مغل خاندان کی یہ روایت دوسری ریاستوں میں بھی جاری رہی۔ مثلاً اودھ کے حرم میں عورتوں کی بڑی تعداد تھی جن میں بیگمات کے علاوہ رقاصائیں، موسیقار اور شاعر عورتیں بھی تھیں واجد علی شاہ نے اپنی کتاب ’پری خانہ‘ میں اپنی بیگمات کا ذکر کیا ہے۔
1856 میں جب اودھ کی سلطنت کا خاتمہ ہوا ہے تو حرم کے 80 ہزار ملازمین بیکار ہو گئے تھے۔ ان میں ملازمین عورتوں کی بڑی تعداد تھی جن کے لیے کوئی اور ملازمت کا حصول ناممکن ٹھہرا۔ 1857 میں جب انگریزوں کے خلاف ہنگامہ ہوا تو دہلی پر قبضے کے بعد مغل خاندان کا بھی خاتمہ ہو گیا اور محل کی ملازم عورتیں بے آسرا ہو گئیں۔
1856 اور 1857 کے بعد اودھ اور دہلی میں جو سماجی تبدیلی آئی اس نے ملازم عورتوں کی زندگی کو بھی بدل ڈالا۔ اب یہ اشرافیہ کے گھروں میں ملازمت کرتی تھیں، مگر ان کی مراعات جو شاہی خاندان میں تھیں ان کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
جب انگریز خاندان مستقلاً ہندوستان میں آئے تو ان کے گھروں میں خاص طور سے آیائیں اہمیت رکھتی تھیں جو ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ متوسط طبقوں کے ہاں ملازم عورتیں کھانا پکانے، صفائی کرنے اور کپڑے دھونے کا کام کرتی تھیں۔ بدلتے ہوئے ماحول میں ان کا سماجی مرتبہ گِر چکا تھا اور شاہی ملازمت میں انہیں جو سکون اور اطمینان تھا اب وہ باقی نہیں رہا۔