پردادی مرحومہ نے 1940 میں اس کار خیر کا سنگ بنیاد رکھا، ورنہ ہمارے خاندان میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔
تاہم مرحومہ کے اس عمل کو ان کی علم دوستی سے تعبیر کرنا تاریخ کے ساتھ سخت نا انصافی ہوگی۔ یہ قدم قرارداد پاکستان کی خوشی میں بھی نہیں اٹھایا گیا۔ مستحکم خاندانی روایات میں اس انقلابی تبدیلی کی وجوہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔
اس سے قبل ہمارے آبا و اجداد نسل درنسل چِٹے ان پڑھ چلے آ رہے تھے۔ البتہ اپنی تمام ترغربت وافلاس کے باوجود انہیں ہمیشہ سے فخر رہا کہ وہ مغل قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے خاندان کے ایک بزرگ بابا یَکڑی نے تو باقاعدہ اپنا شجرہ نسب بھی گھڑ رکھا تھا، جسے سنا کر نم آنکھوں سے فرماتے تھے کہ اگر برصغیر میں مغلیہ سلطنت کو زوال نہ آتا تو آج وہ خود بہ نفس نفیس ہندوستان کے تخت پر براجمان ہوتے۔ خصوصاً جب مرحوم کو کھانے کے لیے کچھ میسر نہ آتا تو آپ دلی، آگرہ اور لاہور کے اپنے آبائی قلعوں، محلات، حرم سراؤں، درباریوں، کنیزوں اور غلاموں کو یاد کرکے خوب گریہ کرتے۔
بابا یکڑی نے اپنے خاندان مغلیہ کے اقتدار پر شب خون مارنے کے جرم کی بنا پر تاحیات انگریز کو معاف نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملکہ برطانیہ نے کبھی وائسرائے ہند کو معافی مانگنے کے لیے ان کے دولت خا نے پر نہیں بھیجا۔ وہ ہمیشہ گاؤں سے باہر اپنی کچی ڈھوک پر حقے کے کش لگاتے انگریزسرکار کو صلواتیں سنا تے اوران کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں مانگتے رہے۔
حصول اقتدار کے لیے دو روایتی سیاسی طاقتوں کے درمیان کشمکش کا شاخسانہ ہے کہ بابا یکڑی نے تاج برطانیہ کی طرف سے ہندوستان میں ریلوے، نہری، عدالتی، انتظامی اور تعلیمی نظام کو کبھی صدق دل سے قبول نہیں فرمایا۔ خصوصاً سرکاری سکولوں میں درس تدریس کو تو آپ نے کھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف انگریزوں اور ہندوؤں کی مشترکہ گھناؤنی سازش قرار دیا جس کا مقصد مسلمان بچوں کو ہندو بنانا تھا۔ ان کے اس منطقی خیال کو علاقہ بھر میں اتنی پذیرائی حاصل ہوئی کہ یہاں کا اکلوتا پرائمری سکول فقط ہندو بچوں کے لیے وقف ہو کر رہ گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بابا یکڑی کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی سالہا سال تک ان کی تعلیمات پر عمل ہوتا رہا اور اس علاقے میں رہائش پذیر خاندان مغلیہ اور دیگر مسلم بچوں کو سکول کا منہ دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ پھر حالات نے ایسا عجیب پلٹا کھایا کہ 1940 میں پردادی محترمہ کو مجبوراً خاندانی روایات کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا پڑا۔ اس سے پہلے خاندان، برادری کا جو بچہ سکول جانے کی عمر کو پہنچتا، اس کی ڈھور ڈنگر سنبھالنے اور کھیتوں کھلیانوں میں امور زمینداری کی تربیت شروع ہو جاتی۔ بہت جلد یہ بچے اپنے کھردرے ہاتھوں سے ہل چلانے اور فصل وغیرہ کاٹنے کے علاوہ مویشیوں کو سنبھالنے کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرنے میں طاق ہو جاتے جبکہ مغلوں کی ملکاؤں اور شہزادیوں کا صبح صادق کے وقت چکی کی مشقت سے شروع ہونے والا دن رات گئے لالٹین کی روشنی میں چرخے، پینجے اور ویلنے کے ساتھ شغل کرتے تمام ہوتا، تب جا کر کہیں دو وقت کی روکھی سوکھی میسر آتی۔
ہوا یوں کہ بدقسمتی سے پر دادی کے دو پوتے ’ناخلف‘ نکلے۔ ایک ہمارے والد اور دوسرے ان کے چچا زاد بھائی۔ کام کی عمر کو پہنچتے ہی دونوں بچوں کا روایتی مغلیہ چال چلن کھل کر سامنے آنے لگا۔ دونوں بچوں میں اپنی روایتی گھریلو ذمہ داریاں سنبھالنے کی بجائے کھیل کود اور آوارہ گردی کی عادات پختہ ہوتی چلی گئیں۔ اپنے ہم عصروں کے برعکس انہوں نے نہ صرف کھیتی باڑی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا بلکہ اکثر گندم کی کٹائی وغیرہ کے علاوہ جانوروں کو سنبھالنے کے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں بھی سنگین غفلت کے مرتکب پائے جاتے۔ پردادا فوت ہو چکے تھے اور پردادی جوائنٹ فیملی کی سربراہ تھیں۔ اگرچہ دبنگ اور سخت مزاج جٹی تھیں مگر ہر طرح کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار کٹائی کے باوجود اپنے دونوں پوتوں کو سدھارنے میں ناکام رہیں۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ہر دو بچوں کی شرارتوں، خصوصاً ہندوؤں کے گھروں میں کی جانے والی کارستانیوں کی شکایات آنے لگیں۔
یہی وہ نامساعد حالات تھے جن کی بنا پر پردادی کی سوچ میں تبدیلی آئی اور انہوں نے بابا یکڑی کی تعلیمات اور خاندانی رویات سے روگردانی کی ٹھانی۔ پس انہوں نے اپنے دونوں پوتوں کو نتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا اور انہیں لے کر قریبی گورنمنٹ ورنیکولر سکول بلکسر(تحصیل چکوال، ضلع جہلم) جا پہنچیں، جہاں سارے استاد ہندو تھے۔ آپ نے اپنے بچوں کو سکول میں داخل کراتے وقت ہیڈ ماسٹر صاحب پر دو باتیں واشگاف الفاظ میں واضح فرما دیں۔ پہلی یہ وہ اپنے پوتوں کو محض مصروف رکھنے کی خاطر داخل کرا رہی ہیں تاکہ گاؤں ان کے شر سے محفوظ رہ سکے، ورنہ وہ تعلیم جیسی فضولیات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ دوسری بات ایک شدت پسندانہ وارننگ تھی کہ اگر ان کے پوتوں کو ہندو بنانے کی کوشش کی گئی تو سکول کے اساتذہ اکرام کی زندگیوں کوسخت خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
پردادی کے اس فیصلے سے علاقے کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اہل دیہہ کی جانب سے پردادی کو سمجھایا گیا کہ مسلمانوں کا اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرانا ہماری شاندار روایات سے کھلی بغاوت ہے، جس کا جواب انہیں آخرت میں دینا پڑے گا۔ گاؤں کے مولوی صاحب نے تو ان کے سامنے یہ انکشاف بھی کیا کہ سکول میں داخل ہوتے ہی بچہ کسی خودکار طریقے سے ہندو بن جاتا ہے۔
تاہم وہ پُرعزم خاتون اپنے اوراہل دیہہ کے تمام تر تحفظات کے باوجود ثابت قدم رہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ جہاں دیدہ بزرگوں کے تمام تر خدشات بے بنیاد ثابت ہوئے اورگورنمٹ ورنیکولر پرائمری سکول بلکسرکی کچی مٹی پر بیٹھ کر ہندو اساتذہ کی زیرنگرانی علم حاصل کرنے والے مٹھی بھر مسلم طلبہ، جن میں کرنل محمد خان ’بجنگ آمد‘ والے اور ہمارے والد شاہ نواز خان بھی شامل ہیں، ایمان کی حالت میں دنیا سے گئے اور جو چند ایک زندہ ہیں، ان کا ایمان بھی سلامت ہے۔
یوں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد حادثاتی طور پر ان کی نسل میں تعلیم حاصل کرنے کا عمل شروع ہوا، ورنہ بقول اکبر الہ آبادی:
کجا عاشق، کجا کالج کی بکواس!
(جاری ہے)