شاہ رخ خان کے 23 سالہ بیٹے آریان خان کے خلاف منشیات کے کیس نے بھارت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
ایک طرف وہ لوگ ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ مجرم چاہے جو بھی ہو، اس پر قانون کی گرفت کڑی ہونی چاہیے۔ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جن کا کہنا ہے کہ شاہ رخ خان کے بیٹے کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف کالم نگار اپوروانند نے لکھا ہے کہ شاہ رخ خان کے بیٹے کے خلاف کیس دراصل بھارت کی ہندو قوم پرستوں کی احساسِ کمتری کا شاخسانہ ہے جنہیں اس بات کا حسد ہے کہ بھارت میں طاقتور اور خوبرو مسلمان مردوں کے پیچھے اتنی بڑی تعداد میں عورتیں کیوں بھاگتی ہیں۔
آریان کے خلاف کیس کیا ہے؟
دو اکتوبر کو این سی بی نے ’کورڈیلا‘ نامی ایک کروز شپ پر چھاپہ مارا جو ممبئی سے گوا جا رہا تھا۔ اس کروز شپ سے 13 گرام کوکین، 21 گرام چرس اور دوسری منشیات برآمد ہوئیں۔
تین اکتوبر کو آریان خان، ان کے دوست ارباز مرچنٹ اور ماڈل منمن دھمیچا کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ وہ نہ صرف یہ منشیات استعمال کر رہے تھے بلکہ اس کے کاروبار میں بھی ملوث ہیں۔
سات اکتوبر کو آریان خان کا جسمانی ریمانڈ ختم کرکے عدالت نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔ آریان خان کے وکیل نے ضمانت کی درخواست کی مگر اسے مسترد کر دیا گیا۔
اس کے بعد آریان خان کے وکیلوں نے سیشن کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی جس کی سماعت منگل کو شروع ہوئی۔
آریان خان کو بھارت کے منشیات کے قانون مجریہ 1985 کے تحت حراست میں لیا گیا ہے جس میں بارِ ثبوت پولیس پر نہیں بلکہ خود ملزم کو ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے کہ اس نے جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔
آریان خان کو تین اکتوبر کو حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف این ڈی پی ایس ایکٹ کی چھ شقوں کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
وہ چار اکتوبر تک این سی بی کی حراست میں رہے جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ کی مدت سات اکتوبر تک بڑھا دی گئی۔
سات اکتوبر کے بعد سے اب تک وہ جوڈیشل ریمانڈ پر ممبئی کی آرتھر روڈ جیل میں قید ہیں۔
ضمانت کے مقدمے میں کیا بحث ہوئی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منگل کو آریان خان کی ضمانت کی اپیل پر بحث ہوئی، جس میں آریان خان کے وکیل نے کہا کہ ان کے پاس سے چرس برآمد نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی میڈیکل ٹیسٹ ہوا ہے جس سے پتہ چلے کہ انہوں نے چرس پی رکھی تھی۔
اس کے جواب میں محکمۂ انسدادِ منشیات این سی بی نے کہا کہ ملزم ایک بااثر شخص ہے اور اگر اسے رہا کر دیا گیا تو ممکن ہے وہ شواہد میں رد و بدل کر دے یا پھر ملک سے ہی فرار ہو جائے۔
این سی بی کا مزید کہنا تھا کہ ان کی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ آریان خان بظاہر منشیات کی تجارت کے کسی بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہیں۔
کیس کی سماعت بدھ (27 اکتوبر) کو بھی جاری رہے گی۔
کیس میں جھول
آریان خان کو اس وقت پکڑا گیا تھا جب وہ ایک کروز شپ پر موجود تھے، لیکن ان کی تحویل میں کوئی منشیات نہیں پائی گئیں۔
دوسری بات یہ کہ جس شخص نے انسدادِ منشیات کے ادارے این سی بی کو مخبری کی تھی، اس کا تعلق حکمران بی جے پی پارٹی سے ہے۔ جو شخص این سی بی کا گواہ ہے، وہ خود فراڈ کے کیسوں میں پولیس کو مطلوب ہے۔
ایک اور گواہ نے الزام عائد کیا ہے کہ این سی بی شاہ رخ خان سے رشوت لینے کی کوشش کر رہا ہے۔
میڈیا کی زبردست توجہ
بھارتی میڈیا نے اس کیس کو زبردست توجہ دی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر نان سٹاپ بحث کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ اکثر آن لائن اخبار اس پر لائیو اپ ڈیٹس دے رہے ہیں۔
اس کیس کو اتنی توجہ کیوں مل رہی ہے، یہ خود ایک اہم سوال ہے جس پر کئی کالم نگاروں نے تبصرے کیے ہیں۔
معروف صحافی برکھا دت نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک آرٹیکل میں عدالت کی جانب سے آریان خان کو ضمانت نہ دیے جانے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ضمانت معمول کی کارروائی ہوتی ہے، خاص طور پر ایسی صورتِ حال میں جب زہر اگلنے والے جتھے مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں۔
برکھا نے مزید لکھا ہے کہ شاہ رخ خان اور ان کا بیٹا موجودہ صورتِ حال میں توجہ بٹانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ چین کے خطرے پر کوئی بات نہیں کر رہا، نہ ہی کوئی کرونا کے اثرات پر بات کر رہا ہے کیوں کہ میڈیا کے پاس پرائم ٹائم پر بغیر عدالتی کارروائی کے فیصلے صادر کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کی فرصت ہی نہیں۔
برکھا نے مزید لکھا ہے کہ بھارت میں مسلمان، دلت اور قبائلیوں کی تعداد جیلوں میں ان کی آبادی کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہے۔
’لو جہاد‘ کی ایک شکل
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف کالم نگار اپوروانند نے دی وائر میں ایک کالم میں لکھا ہے کہ شاہ رخ خان کے بیٹے کے خلاف کیس دراصل بھارت کی ہندو قوم پرستوں کے احساسِ کمتری کا شاخسانہ ہے جنہیں اس بات کا حسد ہے کہ بھارت میں طاقتور اور خوبرو مسلمان مردوں کے پیچھے اتنی بڑی تعداد میں عورتیں کیوں بھاگتی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ بالی وڈ میں ’خانوں‘ کی بے پناہ مقبولیت سے قوم پرستوں کے احساسِ کمتری کو ہوا ملی ہے اور ’لو جہاد‘ نامی مہم اسی احساسِ کمتری کی پیداوار ہے، جس میں ہندوتا کے پیروکار قوم پرستوں کو خدشہ ہے کہ ان کی عورتیں مسلمانوں کے ہتھے چڑھ جائیں گی۔
اپوروانند نے مزید لکھا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں آج اردو بھی نشانے پر ہے۔ انہوں نے حال ہی میں فیب انڈیا کمپنی کی جانب سے ’جشنِ رواج‘ نامی مہم کے نام پر ہندونواز جماعتوں کی مخالفت پر لکھا کہ آر ایس ایس کے لیے ’یہ بات ناقابلِ برداشت ہے کہ مذہبی تہواروں پر بھی مسلمانوں اور اردو زبان کا سایہ پڑ رہا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ مسلمان فلمی ستاروں کی طرح اردو زبان بھی حسد کا شکار ہے اور اسے ملک کی تقسیم کا باعث قرار دے کر اس سے نفرت کی جا رہی ہے۔
اپوروانند نے اپنے کالم کا اختتام اس پر کیا ہے کہ ’اردو اور شاہ رخ خان زندہ یادگاریں ہیں۔ انہیں اپنے وجود کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔‘