یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں
بھارت کی فلم انڈسٹری بالی وڈ کے بادشاہ کہلانے والے اداکار شاہ رخ خان نے جب 2010 میں اپنی ایک فلم میں یہ مشہور ڈایلاگ ’میرا نام خان ہے اور میں دہشت گرد نہیں‘ کہا تھا تو انہوں نے بظاہر مسلمانوں کے تئیں اس مخصوص سوچ کی عکاسی کی تھی جو امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے بعد گہری ہوگئی تھی۔ جب ہر ایک مسلمان کو اسامہ بن لادن سمجھا جانے لگا تھا۔
بالی وڈ کے معروف ’خان‘ ہندوتوا کی سوچ رکھنے والوں کے راڈار پر ہیں وہ چاہیے شاہ رخ ہوں، سلمان خان ہوں یا عامر خان، عالمی میڈیا کی بیشتر رپورٹوں میں اس مسئلے کو اکثر ابھارا جا رہا ہے کہ بھارت میں مذہبی جنونیت کی لہر اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ ملک کے بڑے اداروں میں اقلیتوں کی موجودگی کم ہوتی جا رہی ہے جس کی لپیٹ میں اب بالی وڈ بھی ہے۔
بھارت کی انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمان کے ایک سرسری جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ آبادی کے 11 فیصد مسلم اقلیت کو پارلیمان میں صرف پانچ فیصد سے کم نمائندگی ملی ہے جو 2014 کے بعد بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔
بقول سینیئر صحافی آدرش گپتا ’اقلیت مخالف ایجنڈا آر ایس ایس نے کافی پہلے طے کیا تھا اور بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف اقلیت کی نمائندگی کم ہوتی جا رہی ہے بلکہ لبرل کہلانے والے بیشتر ہندووں کو بھی سیاسی پلیٹ فارم سے غائب کرنے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔‘
بھارتی پارلیمان میں 543 اراکین میں اس وقت 27 مسلم ہیں جن کی تعداد 1980 میں 49 تھی۔ جو اراکین اب ہیں ان کی آواز بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھارت کی بڑی عدالت سپریم کورٹ میں 2019 کے بعد 34 ججوں میں محض ایک مسلم جج باقی رہا ہے۔
انتظامیہ کا حال اس سے بھی برا ہے جہاں مسلمان نفی کے برابر رہ چکے ہیں اور جس پر اب پوری طرح سے آر ایس ایس کا کنٹرول ہے۔ اب صرف بالی وڈ ہی بچا ہے کہ جس پر ابھی تک مسلم اداکاروں کا بول بالا ہے وہ چاہیے اداکار ہوں، مصنف ہوں، سنگیت کار ہوں یا شاعر ہوں۔
اگر وہ عالمی سٹیج پر کوئی بڑا کارنامہ انجام دیتے ہیں تو ہندوتوا ان پر اپنی ملکیت جتانے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے مگر اندرون ملک ان کے مسلمان ہونے پر سوال ضرور اٹھاتے ہیں۔
اے آر رحمان نے دنیائے موسیقی میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے لیکن نام کی وجہ سے وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ آریان تو آدھے مسلمان ہیں جن کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا تو رحمان کو کیا بخشا جائےگا؟
آریان خان کا بظاہر ایک ہی جرم ہے کہ وہ شاہ رخ خان کے بیٹے ہیں حالانکہ وہ گوری خان کے بھی بیٹے ہیں جو ہندو ہیں لیکن شاید ان کو ’لو جہاد‘ میں گھیرنے کا حربہ کامیاب نہیں ہوسکتا تھا جو اکثر غریب جوڑوں پر ایک تلوار کی طرح لٹکتا رہتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ شاہ رخ کو بالی وڈ کی بادشاہت سے ہٹانے کے لیے ان کے بیٹے کو قربانی کا بکرا بنائے جانے کا ڈراما رچایا جا رہا ہے۔
مان لیجیے اگر آریان خان اس پارٹی میں تھے جہاں بعض لوگ نشہ کرنے کے لیے آئے تھے اور وہ بھی نشہ کرتے ہیں تو کیا ان کا میڈیا ٹرائل کرنا لازمی تھا یا پھر قانون کے دائرے میں رہ کر تحقیقات کرنا ضروری تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مندرا پورٹ سے 21 ہزار کروڑ روپے کی مالیت کی تین ہزار کلوگرام منشیات پر پردہ ڈالنے کے لیے آریان خان کی گرفتاری سے ڈبل ایجنڈا پورا ہوا، ایک شاہ رخ کی شبیہ کو کسی حد تک مسخ کرنا اور دوسرا مندرا پورٹ ڈرگ سمگلنگ میں ملوث ایک بڑے نیٹ ورک سے توجہ ہٹانا۔
ممبئی کے سماجی کارکن سورن یادو کہتے ہیں کہ آریان کی گرفتاری سے اقلیت کو یہ پیغام بھی دینا تھا کہ اگر وہ سینیما کے بادشاہ کو گھیر سکتے ہیں تو آپ کس کھیت کی مولی ہو جو سمجھتے ہیں کہ آپ ہجومی تشدد، مذہب تبدیل کرنے یا ہجرت کرنے سے بچ سکتے ہیں۔
’اقلیتوں کے لیے یہ چلینج2014 سے شروع ہوا جو نہ جانے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کتنے ہندووں کو ڈوبو لے گا اگر ہندوستان کا عام شہری اپنے ملک کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑا نہیں ہوتا ہے۔‘
آریان خان کو سزا دی جاتی ہے یا نہیں، شاہ رخ خان بالی وڈ کے بادشاہ رہتے ہیں یا نہیں، کیا حالات کے پیش نظر 22 کروڑ مسلمان بھارت چھوڑ کر جائیں گے؟
چند روز پہلے سوشل میڈیا پر ایک مسلم سپیس میں اسی موضوع پر بحث ہو رہی تھی جہاں ایک رہنما کہہ رہے تھے کہ ’مسلمان 1947 سے آگے نکل چکے ہیں وہ ہندوستان سے کبھی ہجرت نہیں کریں گے اور نہ زیادہ دیر تک دبنے والے ہیں بلکہ عنقریب ایک اور بٹوارے کا مطالبہ کریں گے جس کے لیے ہندوتوا کو بھی تیار رہنا ہوگا کیونکہ مسلمان موت سے نہیں ڈرتا۔‘
آریان خان کو گرفتار کرنے کے پیچھے جو بھی ایجنڈا ہے مگر جن حالات سے بھارت کے عام لوگ بشمول ہندو بھی گزر رہے ہیں وہ چاہے معیشت کی بگڑتی صورت حال ہے یا روزگار کا چھن جانا، ممکن ہے کہ ان حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے اندرونی طور پر بھی سرجیکل سٹرایکس شروع کی جائیں گی گو کہ وزیر داخلہ نے پاکستان کو دھمکی بھی دی ہے۔