انڈیا: اپریل سے جون تک طویل ہیٹ ویوز، بجلی کا نظام متاثر ہونے کا خدشہ

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس سال بجلی کی کھپت میں 10 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے بلیک آؤٹس کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

11 جون 2024 کو اجمیر کی اس تصویر میں گرمی کی شدت سے متاثر ایک شخص پانی سے نہاتے ہوئے (اے ایف پی/ ہیمانشو شرما)

انڈیا ایک بار پھر طویل اور جان لیوا گرمی کی لہروں کا سامنا کرنے جا رہا ہے، کیونکہ محکمہ موسمیات نے اپریل سے جون کے دوران معمول سے زیادہ درجہ حرارت اور کئی علاقوں میں انتہائی گرمی والے دنوں میں نمایاں اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔

انڈین محکمہ موسمیات (آئی ڈی ایم) نے بتایا کہ اس سال، اتر پردیش، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور اوڈیشہ جیسی ریاستوں میں ہیٹ ویو کے دنوں کی تعداد 11 تک پہنچ سکتی ہے، ہیٹ ویو ایسے طویل دورانیے کو کہا جاتا ہے جب درجہ حرارت غیر معمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔

محکمہ موسمیات کے سربراہ، مرتیونجے مہاپاترا نے اس ہفتے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ انڈیا کے وسطی، شمالی اور مشرقی علاقوں میں ہیٹ ویو کے دن تاریخی اوسط سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’اپریل سے جون کے درمیان، شمالی اور مشرقی انڈیا، وسطی انڈیا، اور شمال مغربی میدانوں کے بیشتر حصوں میں معمول سے دو سے چار زیادہ ہیٹ ویو کے دن متوقع ہیں۔‘

یہ انتباہ ایک غیر معمولی گرم سال کے آغاز کے بعد سامنے آیا ہے۔ فروری کا مہینہ دنیا بھر میں اور انڈیا میں ریکارڈ پر سب سے زیادہ گرم مہینوں میں شامل رہا، جس کی وجہ سے گندم کی فصلوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ کئی ریاستوں میں کم از کم درجہ حرارت معمول سے ایک سے تین ڈگری سیلسیس زیادہ رہا۔

مغربی اور جنوبی انڈیا کے کچھ علاقوں جیسے ممبئی، گوا اور کرناٹک میں فروری کے اختتام تک ابتدائی گرمی کی لہر کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

انڈیا میں ہیٹ ویوز عام طور پر اپریل سے جون کے درمیان آتی ہیں، لیکن عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے یہ پیٹرن بدل رہا ہے، جس کی وجہ سے شدید گرمی جلدی آتی ہے اور زیادہ عرصہ تک رہتی ہے۔

سال 2024 میں، انڈیا کے اندر راجستھان میں 50.5 ڈگری سیلسیس کے ساتھ  تاریخ کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، اور ملک بھر میں گرمی سے متاثر ہونے کے مشتبہ کیسز کی تعداد 40 ہزار سے تجاوز کر گئی۔

وزارت صحت نے سرکاری طور پر 143 اموات کی تصدیق کی، لیکن آزاد محققین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

فروری میں حکام نے خبردار کیا تھا کہ مارچ کے غیر معمولی درجہ حرارت کی وجہ سے گندم، چنے اور سرسوں جیسی فصلوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جو زیادہ گرمی برداشت نہیں کر سکتیں۔

انڈیا، جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گندم پیدا کرنے والا ملک ہے، کی پیداور مسلسل کئی سالوں سے متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے برآمدات پر پابندیاں اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ پیدا ہوا ہے۔

محکمہ موسمیات کے ایک عہدیدار نے سال کے آغاز میں کہا تھا: ’مارچ گندم کے لیے سازگار نہیں ہوگا،‘ اور خبردار کیا تھا کہ دانے کمزور ہو سکتے ہیں اور قبل از وقت پک سکتے ہیں۔

توانائی کا شعبہ بھی دباؤ کا شکار ہے۔ گھریلو اور تجارتی سطح پر ایئر کنڈیشنرز کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے گرمیوں میں بجلی کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس سال بجلی کی کھپت میں 10 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے بلیک آؤٹس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے ایک حالیہ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر انڈیا نے ٹھنڈک پیدا کرنے والے آلات کے لیے توانائی کے مؤثر معیار کو اپڈیٹ نہ کیا تو اگلے سال سے بجلی کی شدید قلت ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ایئر کنڈیشنرز کی مؤثریت کو دوگنا کرنے سے صارفین کے 26 ارب ڈالر بچ سکتے ہیں اور 2035 تک 60 گیگاواٹ اضافی طلب سے بچا جا سکتا ہے۔

مطالعے کے مرکزی مصنف نکت ابھیانکر نے کہا: ’ایئر کنڈیشنرز بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب  کے سب سے بڑے محرکات میں سے ایک بنتے جا رہے ہیں، اور اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ہمیں بلیک آؤٹ یا مہنگے ہنگامی اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

ماہرین طویل عرصے سے خبردار کرتے آئے ہیں کہ عالمی حدت انڈیا میں شدید گرمی کی لہر جیسے واقعات کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔

کلائمٹ سینٹرل کے ایک حالیہ تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اس سال ممبئی اور گوا میں فروری کے مہینے میں ریکارڈ توڑ درجہ حرارت انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی بحران کے باعث تین سے پانچ گنا زیادہ ممکن تھا۔

محکمہ موسمیات کے سربراہ مہاپاترا پہلے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی نہ کی گئی تو گرمی کی لہریں زیادہ اور شدید ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے گذشتہ سال کہا تھا: ’ہم صرف خود کو نہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘

بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر، کچھ ریاستوں نے گرمی سے نمٹنے کے منصوبے اور ہنگامی اقدامات متعارف کرائے ہیں، جن میں ابتدائی وارننگ سسٹم، پانی پلانے کے مراکز اور سکولوں کے اوقات میں تبدیلی شامل ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کا ردعمل اب بھی ناکافی ہے، خاص طور پر جب موسمی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سکائی میٹ ویدر کے محکمہ موسمیات و ماحولیاتی تبدیلی کے نائب صدر مہیش پلاوت نے کہا: ’گرمیوں کا دورانیہ بڑھ رہا ہے۔ سردیاں سکڑ رہی ہیں۔ موسم کے چکر بدل چکے ہیں۔ اور جو ہم اب دیکھ رہے ہیں وہ اسی تبدیلی کے اثرات ہیں جو سامنے آ رہے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا