امریکی مرین کور کے سارجنٹ اور دھماکہ خیز مواد سے عمارتیں مسمار کرنے کے ماہر اپنے ملک اور اس خانہ جنگی کے بارے میں فکر مند تھے جس کا انہیں خدشہ تھا کہ صدارتی انتخابات کے بعد ہوگی۔
انہوں نے امریکی فوج کے لیجون تربیتی مرکز کی حدود سے ایک ایک کرکے 13 پاؤنڈز (6 کلوگرام) سی فور دھماکہ خیز مواد چرایا تھا۔
سارجنٹ ٹریوس گلوسر نے بعد میں فوجی تفتیش کاروں کو سات صفحات پر مشتمل اپنے ایک تحریری بیان میں بتایا کہ ’میں نے اس ملک کو ایک خوفناک نامعلوم مستقبل کی طرف بڑھتے دیکھا۔ میرے ذہن میں ایک بات تھی، صرف ایک بات، میں اپنے خاندان اور اپنے آئینی حقوق کی حفاظت کر رہا ہوں۔‘
ممکن تھا کہ ان کے جرم کا کبھی پتہ نہ چلتا لیکن سال 2018 میں حکام شمالی کیرولائنا کے ساحلی علاقے کے بڑے اڈے لیجیون سے ایک اور چوری کی تفتیش کر رہے تھے جس میں چوری شدہ دھماکہ خیز مواد ہائی سکول کے بچوں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ تفتیش کے دوران حکام کو غیر متوقع طور پر سی فور کی چوری کے متعلق بھی ایک کڑی ملی تھی۔
یہ اس نوعیت کے صرف دو کیسز نہیں ہیں۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی تحقیقات کے مطابق سینکڑوں اور ممکنہ طور پر ہزاروں بکتر بند شکن دستی بم، سینکڑوں پاؤنڈز پلاسٹک کا دھماکہ خیز مواد، بارودی سرنگیں اور راکٹ گذشتہ دہائی کے دوران امریکی مسلح افواج سے چوری یا گم ہو چکے ہیں۔
فوجیوں نے کچھ چوریوں کو چھپانے کے لیے ریکارڈز میں جعلسازی کی اور کچھ معاملات میں دھماکہ خیز مواد کی گمشدگی کی اطلاع نہیں دی گئی۔
تفتیشی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ’وہ دھماکہ خیز مواد کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے۔‘ اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔
اگست میں مسی سپی کے ایک ری سائیکلنگ یارڈ میں توپ خانے کا گولہ پھٹ گیا تھا۔
کرس اسمتھ نامی عینی شاہد نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں کام کے بعد تھوڑا آرام کر رہا تھا اور پانی پی رہا تھا کہ اچانک میں نے اپنے ایک ساتھی کارکن کو دیکھا جس کی ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا اور وہ وہیں مر گیا تھا۔‘
تفتیشی حکام کو شبہ ہے کہ گولے کیمپ شیلبی سے آئے ہیں جو تقریباً 40 میل دور آرمی نیشنل گارڈ کا ایک اڈہ ہے۔
مسی سپی نیشنل گارڈ کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل ڈیڈری اسمتھ نے کہا کہ ’ایسا کوئی ثبوت میرے علم میں نہیں جس سے پتہ چل سکے کہ شیل نیشنل گارڈ کے اڈے سے باہر گئے۔‘
وفاقی حکام کے مطابق شیلبی کیمپ سے پہلے بھی چوریاں ہو چکی ہیں۔
وفاقی حکام کے مطابق ایک شخص 2012 میں مسی سپی میں اپنے گھر میں ایک دھماکے سے زخمی ہو گئے تھے۔ انہوں نے شیلبی کی ٹریننگ رینج کے علاقے سے لیے گئے اے ٹی 451 ٹینک شکن گولے کو کھولنے کی کوشش کی تھی۔ اس مقدمے میں میں پانچ افراد نے الزامات کا اعتراف کیا تھا۔
کچھ چوریاں ایسی بھی تھیں جن کو مقامی طور پر توجہ حاصل ہوئی جیسے کہ 2019 میں ٹیکساس میں فورٹ ہڈ کے بالکل قریب گھروں سے تربیت کے دوران استعمال ہونے والے راکٹ ملے تھے۔
حبر رساں ادارے اے پی نے دیگر بہت سارے واقعات کو بے نقاب کیا جس میں کیمپ لیجیون سے ہونے والی چوریوں سمیت فلپائن کے کلارک ایئر بیس کی چوری بھی شامل ہے جس میں دھماکہ خیز مواد ٹی این ٹی کے کچھ بنڈل غائب ہوگئے تھے۔
فوجی حکام نے کہا کہ ان کی صفوں میں چور بہت کم ہیں۔ کھوئے ہوئے یا چوری ہونے والے دھماکہ خیز مواد کی مجموعی مقدار بہت کم ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل یوریا آرلینڈ نے کہا کہ ’ہم چوریوں کی تعداد کو صفر تک پہنچانا چاہتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہونے والے نقصانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔‘
دھماکہ خیز مواد گھروں اور اسٹوریج یونٹس، فوجی بیرکوں کے اندر اور سڑکوں کے کنارے، یہاں تک کہ یو ایس میکسیکو سرحدی چوکی سے بھی ملا ہے۔
یہ زنگ آلود جنگی ٹرافیاں نہیں تھیں بلکہ فوجی ترسیلات یا اڈوں سے آئے تھے۔ بہت سارے تو فوج کے اندرونی لوگوں نے اٹھائے تھے۔
اے پی کی اسلحے کے متعلق تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ناقص احتساب اور صفوں میں چور ہونے کی وجہ سے 2010 سے اب تک دو ہزار سے زیادہ فوج کا آتشی اسلحہ ضائع ہوچکا ہے۔ کچھ بندوقیں شہری جرائم میں استعمال بھی ہوئی ہیں جو مجرمان کے پاس پائی گئیں یا گینگز کو فروخت کی گئیں۔
کانگریس کا مطالبہ ہے کہ فوج ہر سال قانون سازوں کو نقصان اور چوری کی تفصیلی رپورٹ دے۔
یہ اصلاحات سی فور جیسے دھماکہ خیز مواد کی چوری نہیں روک سکتیں۔ دھماکہ خیز مواد کا حساب لگانا آتشیں اسلحے سے زیادہ مشکل ہے۔ فوجی اسلحہ خانے کے اندر اور باہر بندوقوں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔
دھماکہ خیز مواد کو گولہ بارود کے سپلائی پوائنٹس سے اس خیال کے ساتھ تقسیم کیا جاتا ہے کہ انہیں استعمال کر لیا جائے گا۔
اگر دھماکہ خیز مواد استعمال نہ کیا جائے اور غائب ہو جائے تو صرف چور کو ہی معلوم ہوگا۔ دھماکہ خیز مواد کو ٹریک کرنے کے لئے انفرادی سیریل نمبر نہیں ہوسکتے ہیں اور پلاسٹک کے دھماکہ خیز مواد کو آسانی سے چھپایا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی نے 2010 سے 2020 تک دھماکہ خیز مواد کے نقصان یا چوری کا اندازا لگانے کے لیے چاروں مسلح افواج کی برانچز سے تفصیلی معلومات حاصل کی ہیں۔
فوج نے ایک چارٹ فراہم کیا جس میں لاپتہ دھماکہ خیز مواد کے تقریباً 1,900 اندراجات تھے جن میں سے تقریباً نصف برآمد ہو چکے تھے۔
اکثریت کو سی فور- ٹی این ٹی کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ دیگر میں مارٹر، بارودی سرنگیں، دستی بم، راکٹ اور 40 ملی میٹر کے گرنیڈ شامل تھے۔
فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل برینڈن کیلی نے کہا کہ چارٹ ایک ہاتھ سے لکھے گئے ریکارڈ کے جائزے سے بنایا گیا ہے۔
کیلی نے کہا کہ محققین ہمیشہ مقدار کا تعین نہیں کرسکتے اس لیے مثال کے طور پر یہ جاننا ممکن نہیں تھا کہ 1,066 اندراجات میں کتنے پاؤنڈز سی فور تھا۔
انہوں نے کہا: ’گمشدہ دھماکہ خیز مواد کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے۔ گذشتہ دہائی کے دوران، فوج نے 99.9 فیصد گولہ بارود کی مناسب طریقے سے گنتی کی ہے۔‘
فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت دی گئی درخواست کے جواب میں مرین کور نے اعداد و شمات فراہم کیے جو درست تعداد کا حساب لگانے کے لیے بہت غیر واضح تھے۔
اے پی کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ ہزاروں ہتھیار، دستی بم اور سینکڑوں پاؤنڈز پلاسٹک کے دھماکہ خیز مواد کے گم یا چوری ہونے کی اطلاع ملی ہے۔
کیپٹن اینڈریو وڈ نے ایک تحریری بیان میں کہا: ’اس میں سے کچھ کو بعد میں تلاش کرلیا گیا تھا اور اکثر یہ رپورٹس انسانی غلطی سے منسوب کی جاتی ہیں، جیسے کہ غلط گنتی یا غلط دستاویزات۔‘
انہوں نے لکھا کہ مرینز کے پاس دھماکہ خیز مواد کا حساب کتاب کرنے کے لیے ’مناسب پالیسیز اور طریقہ کار ہیں۔‘
فضائیہ نے ایک چارٹ فراہم کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ تقریباً 50 پاؤنڈز (23 کلوگرام)سی فور، (244 میٹر) سے زیادہ دھماکہ کرنے والی تار اور کئی درجن دستی بم غائب ہو گئے ہیں۔
ترجمان سارہ فیوکو نے کہا کہ سروس کے 25 ارب ڈالرز کے دھماکہ خیز مواد کے ذخیرے میں نقصان کی شرح ایک فیصد کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ فیوکو نے سوالات کے جواب میں لکھا: ’فضائیہ کی کارکردگی دھماکہ خیز مواد کے احتساب کے حوالے سے بہت اچھی ہے۔‘
امریکی بحریہ نے کہا کہ صرف 20 ہینڈ گرنیڈ چرائے گئے ہیں جن میں سے دو کو چھوڑ کر باقی سب برآمد ہوئے ہیں۔
جب اے پی نے 2012 میں بحری جہاز کے اسلحہ خانے سے اضافی 24 دستی بموں کے غائب ہونے کا ریکارڈ فراہم کیا تو بحریہ کے ترجمان لیفٹیننٹ لیوس ایلڈریج نے کہا کہ ’مقامی طور پر صرف دو سال کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور یہ معاملہ اس سے باہر ہے۔‘
ایلڈریج نے مزید کہا: ’ہم شفافیت اور مناسب طریقہ کار پر عمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور دھماکہ خیز مواد کے گنتی کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔‘
تمام گمشدہ دھماکہ خیز مواد کی اطلاع فوج کی بیوروکریسی کو دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آفس آف سیکریٹری آف ڈیفنس کی طرف سے جمع کیے گئے سرکاری نقصان اور چوری کے اعدادوشمار اصل کی نسبت کم ہیں۔
مثال کے طور پر فوجی سروسز کو ضرورت نہیں ہے کہ وہ پینٹاگون کوسی فور کے 10 پاؤنڈ سے کم کے نقصان یا چوری کے بارے میں بتائیں۔
پینٹاگون کے ترجمان اعلی جان کربی نے جون میں اے پی کو بتایا کہ ’دھماکہ خیز مواد کے نقصان کی تعداد بہت کم ہے۔‘
اے پی نے نیول کریمینل انویسٹیگیٹو سروس، آرمی کریمنل انویسٹی گیشن کمانڈ اور ڈیفنس کریمنل انویسٹی گیٹو سروس کے ذریعے درجنوں دھماکہ خیز مواد کی تحقیقات کا بھی پتہ لگایا ہے۔
ان 63 کیسز میں سے زیادہ تر میں فوج کو اس وقت تک دھماکہ خیز مواد کی چوری کا احساس نہیں ہوا جب وہ کسی ایسے مقام سے برآمد نہ ہوجائے جہاں اسے نہیں ہونا چاہیے۔
عدالتی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہی کچھ 2018 میں ہوا جب ایک مرین کے باپ نے تفتیش کاروں کو کولوراڈو میں اپنے بیٹے کے گھر کے بارے میں اطلاع دی۔
حکام نے سی فور کے چار بلاکس، جو جوتے میں اور ہڈی کی جیب میں تھے، ایک دھماکہ کرنے والی تار اور دستی بم پکڑے تھے۔
یہ اشیا جارجیا میں نیول سب مرین بیس کنگز بے سے آئی تھیں۔ سابق مرین وہاں جوہری طاقت سے چلنے والے بیڑے کی حفاظت کرنے والی سکیورٹی فورس کا حصہ رہ چکے ہیں۔
ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مرین نے کاغذی کارروائی میں ردوبدل کرکے یہ ظاہر کیا کہ دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
اس کیس نے کنگز بے سے مزید دھماکہ خیز مواد کی چوری کی تحقیقات کو جنم دیا۔ تفتیشی فائل کے مطابق 50 پاؤنڈ (23 کلو گرام) دھماکہ خیز مواد چوری کیا گیا تھا۔
ماہرین نے کہا کہ تربیت یافتہ افراد سی فور کی تھوڑی سی مقدار سے بھی گاڑیوں، پلوں یا عمارتوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
دھماکہ خیز مواد چوری کرنے والے سابق فوجیوں کو ہمیشہ سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2016 میں پنسلوانیا کے ایک شخص کے گھر سے جو دو دہائی قبل مرینز سے بطور لیفٹیننٹ کرنل ریٹائر ہوئے تھے 10 پاؤنڈز (5 کلوگرام) سی فور دھماکہ کرنے والی تار اور بلاسٹنگ کیپس برآمد ہوئے تھے۔
فلوریڈا میں آرمی سپیشل فورسز کے ایک سابق فوجی کو سویلین جیوری نے ٹی این ٹی، گرنیڈ اور ڈائنامائٹ کے ڈبے لینے سے بری کر دیا۔
انہوں نے گواہی دی کہ ان کے نگران افسر نے اسے فورٹ بریگ، شمالی کیرولائنا سے دھماکہ خیز مواد لے جانے کی اجازت دی تھی اس دعوے کی سپروائزر نے تردید کر دی تھی۔
فوج کو معلوم نہیں تھا کہ دھماکہ خیز مواد برسوں سے غائب ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ایک فوجی ماہر نے ایک جعلی فارم دیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ پھٹ گئے تھے۔
کیمپ لیجیون کے دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کی کہانی نوعمر لڑکوں کے ایک خالی مکان میں داخل ہونے سے شروع ہوتی ہے۔
جہاں سے سونے والے کمرے کی الماری کے ایک خانے سے کالے رنگ کا بیگ ملا اور اس کے اندر سے دھمالہ خیز مواد، دھماکہ کرنے والی تار، بلاسٹنگ کیپس اور بارودی سرنگ کے حصے برآمد ہوئے تھے۔
تفتیشی فائل کے مطابق 2017 کے اوائل میں کیمپ لیجیون میں ڈیمولیشن انسٹرکٹر کے طور پر انہوں نے ایک تربیتی مشق کے اختتام پر اپنا بیگ چھوڑ دیا تھا۔ اس بیگ کے اندر موجود اشیا کو پھٹ جانا چاہیے تھا۔
بعض اوقات فوجی تربیت سے بچا ہوا حصہ اکٹھا کرتے ہیں اور انہیں واپس کرنے کے بجائے اڑا دیتے ہیں اور اضافی فارم بھرتے ہیں۔ اسے جنک شاٹ، سیفٹی شاٹ یا کلین اپ شاٹ کہا جاتا ہے۔
بارودی مواد واپس کرنے یا کین کو اڑانے کے بجائے کراسوویک نے اسے رکھ لیا تھا۔ نو عمر لڑکوں کو وہ بیگ مل گیا تھا اور انہوں نے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔
ان لڑکوں میں سے ایک کو گھر میں فوجی دھماکہ خیز مواد رکھنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔
ایک فرانزک لیب نے دھماکہ خیز مواد پر کرسووک کے فنگر پرنٹس کی نشاندہی کی ہے۔
کراسوویک نے اے پی کے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تقریباً ایک سال بعد کراسوویک سے تفتیش کے دوران اہلکاروں کو ایک اور سارجنٹ ٹریوس گلوسر کے بارے میں پتہ چلا۔
کیمپ لیجیون میں ٹرینر کی حیثیت سےگلوسر کو بھی سی فور تک غیر معمولی رسائی حاصل تھی۔
2016 کے موسم گرما کے دوران گلوسر کو خدشہ تھا کہ صدارتی انتخابات میں ہلیری کلنٹن ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دیں گی اور معاشرے میں انتشار پھیل سکتا ہے۔
اس لیے ٹریوس گلوسرنے بچا ہوا مواد جمع کرنا شروع کر دیا اور ان کے پاس 13 پاؤنڈز (6 کلوگرام) سی فور مواد جمع ہوگیا تھا۔
گلوسر نے جون 2018 میں نیول کریمینل انویسٹیگیٹو سروس کے اہلکار کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرا مطلب ہے، آپ جانتے ہیں کہ آج کل دنیا کتنی پاگل ہو چکی ہے۔ میں نے یہ اس لیے چرایا کہ اگر دنیا ختم ہونا شروع ہوجائے تو میں اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کر سکوں۔‘
ٹرمپ کے جیتنے کے بعد انہوں نے دھماکہ خیز مواد کو کیمپ لیجیون سے دور اپنے گھر کے عقب میں دفن کر دیا۔ ایک سال سے زیادہ عرصے بعد یہ بات گردش کرنے لگی کہ کراسوویک مشکل میں ہے اور انوینٹری کا جائزہ لیا جائے گا۔
گلوسر نے سب سے پہلے کراسوویک کیس کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ چوری شدہ سی فور کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔
اگلی صبح طلوع آفتاب سے پہلے انہوں نے قریبی جنگلوں میں دھماکہ خیز مواد کو دفن کرنے کے لیے فوجی بیلچہ استعمال کیا۔
گلوسر نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے گولہ بارود کہاں دفن کیا تھا۔ گلوسر اور کراسوویک نے فوجی املاک کی چوری کا جرم قبول کیا۔ ہر ایک کو فوجی جیل میں دو سال سے کم قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ کراسوویک کو سروس سے ہٹا دیا گیا تھا۔
گلوسر کی اہلیہ نے اے پی کو بتایا کہ وہ کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ حکام سے پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ انہوں نے تباہی پھیلانے کا کبھی منصوبہ نہیں بنایا اور کہا کہ ان کا کسی مسلح تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے لکھا: ’میں نے کبھی بھی دھماکہ خیز مواد کسی کو بیچنے، دینے یا دکھانے کا ارادہ یا سوچا بھی نہیں تھا۔ میرا بھی کبھی کسی کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘