یمن پر حملے کا منصوبہ ایک صحافی کو کیسے لیک ہوا؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 15 مارچ کو ان حملوں کا اعلان کیا تھا، لیکن دی اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹر اِن چیف جیفری گولڈبرگ نے لکھا کہ انہیں اس گروپ چیٹ کے ذریعے کئی گھنٹے قبل ہی اس منصوبے کی اطلاع مل گئی تھی

13 مارچ 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ اور دیگر حکام کے ہمراہ (اے ایف پی)

وائٹ ہاؤس نے پیر کو تصدیق کی کہ ایک امریکی صحافی کو غلطی سے ایک گروپ چیٹ میں شامل کر لیا گیا تھا جس میں امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ، نائب صدر جے ڈی وینس اور دیگر اعلیٰ حکام نے یمن کے حوثی باغیوں پر ہونے والے آئندہ حملوں پر بات چیت کی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 15 مارچ کو ان حملوں کا اعلان کیا تھا، لیکن دی اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹر اِن چیف جیفری گولڈبرگ نے لکھا کہ انہیں اس گروپ چیٹ کے ذریعے کئی گھنٹے قبل ہی اس منصوبے کی اطلاع مل گئی تھی۔ یہ بات چیت سگنل نامی ایپ پر جاری تھی۔

قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے کہا: ’جو پیغاماتی سلسلہ رپورٹ ہوا وہ بظاہر اصلی ہے اور ہم یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ غلطی سے ایک نمبر چین میں کیسے شامل ہو گیا۔‘

وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر ٹرمپ ’اپنی قومی سلامتی کی ٹیم پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں‘ اگرچہ اس سے قبل صدر نے کہا تھا کہ انہیں اس معاملے کے بارے میں ’کچھ علم نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فاکس نیوز کے سابق میزبان پیٹ ہیگستھ، جنہیں پینٹاگون جیسے بڑے ادارے کی قیادت کا کوئی تجربہ نہیں، نے پیر کی شام صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سکیورٹی کی اس ناکامی کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

اس کے بجائے انہوں نے گولڈ برگ پر  تنقید کی اور اصرار کیا کہ ’کوئی جنگی منصوبے پیغام میں نہیں بھیجے جا رہے تھے،‘ حالانکہ وائٹ ہاؤس نے خود اس سکیورٹی ناکامی کی تصدیق کی ہے۔

گولڈ برگ نے لکھا کہ ہیگستھ نے حملوں کے بارے میں معلومات، جن میں ’اہداف، امریکہ کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ہتھیار، اور حملے کے ترتیب وار مراحل‘ شامل تھے، گروپ چیٹ میں شیئر کیں۔

گولڈ برگ نے لکھا: ’ہیگستھ کے طویل پیغام کے مطابق، یمن میں پہلا دھماکہ دو گھنٹے بعد، مشرقی وقت کے مطابق 1:45 بجے کیا جائے گا۔‘

اگر گولڈ برگ نے حملوں کی تفصیلات پیشگی شائع کر دی ہوتیں تو یہ انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی تھی، لیکن انہوں نے حملوں کے بعد بھی ایسا نہیں کیا۔

صحافی نے کہا کہ انہیں دو دن قبل اس گروپ چیٹ میں شامل کیا گیا تھا اور دیگر اعلیٰ حکام کی جانب سے پیغامات موصول ہوئے، جن میں اس مسئلے پر کام کرنے والے نمائندوں کی نشان دہی کی گئی تھی۔

14  مارچ کو ایک شخص، جس کی شناخت وینس کے طور پر ہوئی، نے حملے کرنے پر شکوک کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ’یورپ کو ایک بار پھر بچانے‘ کے خلاف ہیں، کیونکہ حوثیوں کے بحری جہازوں پر حملوں سے یورپی ممالک امریکہ سے زیادہ متاثر ہو رہے تھے۔

’حیران کن اور خطرناک لاپروائی‘

گروپ چیٹ میں شامل افراد، جن کی شناخت نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مائیک والٹز اور پیٹ ہیگستھ کے طور پر ہوئی، دونوں نے ایسے پیغامات بھیجے جن میں کہا گیا کہ صرف واشنگٹن کے پاس یہ حملے کرنے کی صلاحیت ہے۔ ہیگستھ نے وینس کے ’یورپی مفت خوروں سے نفرت‘ کو سراہتے ہوئے کہا: ’یہ قابلِ رحم ہے۔‘

اور ایک شخص جس کی شناخت ’ایس ایم‘ کے طور پر ہوئی — جو ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ کے مشیر سٹیفن ملر ہو سکتے ہیں — نے دلیل دی: ’اگر امریکہ آزاد بحری جہاز رانی کو بحال کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، اور اس پر بھاری قیمت چکاتا ہے، تو اس کے بدلے میں کچھ مزید معاشی فائدہ بھی حاصل کیا جانا چاہیے۔‘

پیر کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ہیگستھ نے اس لیک کے متعلق سوالات ٹال دیے، حالانکہ اس میں نہ صرف انتہائی حساس مواد ایک صحافی کے ساتھ شیئر کیا گیا بلکہ وہ بھی ایک کمرشل ایپ پر، نہ کہ ایسے محفوظ فوجی چینلز پر جو ایسی گفتگو کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔

سکیورٹی کی اس ناکامی پر پر ڈیموکریٹس نے شدید ردعمل دیا۔

سینیٹ کے اقلیتی رہنما چک شومر نے اسے فوجی انٹیلی جنس کی سب سے حیران کن خلاف ورزیوں میں سے ایک قرار دیا اور اس پر مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

سینیٹر جیک ریڈ نے بھی اس لیک کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’صدر ٹرمپ کی کابینہ کی لاپرواہی حیران کن اور خطرناک ہے۔‘

سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن — جن پر صدر ٹرمپ نے ان کے دورِ وزارت میں ذاتی ای میل سرور استعمال کرنے پر بارہا تنقید کی تھی، نے اس معاملے پر اٹلانٹک کا مضمون ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’یہ مذاق ہو گا، ہے نا؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ