اگلے 30 سال میں روس کہاں ہو گا؟

جو کچھ بھی ہو، یہ طے ہے کہ اگلے 30 سال کے عرصے میں روس عظیم عالمی صارف معاشرے کا حصہ بن جائے گا۔

2050 تک ایک نئی نسل کے زیر انتظام روس غالباً سماجی طور پر اب کی نسبت بہت معمولی قدامت پسند رہ جائے گا(اے ایف پی)

سوویت یونین کے دنوں میں کے جی بی نے مغربی ممالک کے ماسکو میں قیام پذیر نامہ نگاروں کے لیے کرسمس کا ایک بہت خاص تحفہ رکھا تھا۔

عین وقت پر سب کا کرسمس ڈنر برباد کرنے کے لیے 25 دسمبر کی سہ پہر کو ہنگامی بنیادوں پر منعقد ہونے والی پریس کانفرنس کا نوٹس نہایت تاخیر سے دیا گیا تھا، لیکن یہ بات تقریباً قابل فہم ہے کیونکہ آج کی طرح تب بھی روس میں 25 دسمبر معمول کے مطابق ورکنگ ڈے ہوتا تھا۔

تب نئے سال کے دن ہی عام تعطیل ہوا کرتی تھی کیونکہ روسی آرتھوڈکس کرسمس سات جنوری کو منائی جاتی ہے۔ 

1991 کی کرسمس کے جی بی کی طرف سے ہنگامی بنیادوں پر طلب کیے بغیر گزر گئی لیکن ملک گیر صدراتی نشریات کے سرکاری اعلان نے تہوار کا کھانا پرسکون انداز میں کھانے کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

کریملن سے یہ میخائل گورباچوف کا تاسف بھرا آخری خطاب ثابت ہوا جس میں انہوں نے سوویت یونین کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ اسی شب ہتھوڑے اور درانتی والے سرخ پرچم کو کریملن سے اتار کر اس کی جگہ روسی ترنگا لہرا دیا گیا۔ 

اس دن کو 30 برس گزر چکے اور روس کی تقریباً دو ایسی نسلیں پرورش پا چکی ہیں جن کی ذہنوں میں سوویت یونین کے دور کی کوئی یادداشت نہیں۔

40 سال سے کم عمر کسی بھی شخص کے ذہن میں سوویت دور کی زندگی کی مجبوریوں اور محرومیوں کا محض دھندلا سا عکس ہو گا اور جو بھی وہ جانتے ہیں اس کا زیادہ تر انحصار بوڑھے رشتہ داروں اور دوستوں سے سنی ہوئی باتوں، ٹی وی کی دستاویزی فلموں اور کتابوں پر ہو گا۔

ان کی پرورش روس کے شہری کے طور پر ہوئی، ایک ایسی ریاست جسے رشین فیڈریشن کہا جاتا ہے، جو سوویت اتحاد بننے سے طویل مدت پہلے روس ہونے کے باوجود آج بھی دنیا میں اپنی شناخت تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ 

روس کی مشکلات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہمیں خاص طور پر برطانیہ میں کہیں زیادہ ہمدری کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب یہاں بریگزٹ کے دوران یونین کی بقا اور تازہ ترین بحران کی صورت میں سلطنت کی میراث پر خدشات کے بادل چھائے ہیں۔

روس کے برعکس جو سوویت یونین کے جانشین کے طور پر راتوں رات یا زیادہ سے زیادہ اگست 1991 میں گورباچوف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد چار ماہ کے اندر تقریباً اپنے ایک تہائی علاقے اور آبادی سے محروم ہو گیا تھا ہمارے پاس نصف صدی سے زیادہ وقت ہے جس دوران ہم سلطنت تقسیم ہونے کے عمل کا خود کو عادی بنا سکتے ہیں۔ یہ کوئی زیادہ حیران کن بات نہیں کہ روس کے اندر اور اس کے نئے سرحدی علاقوں کے سلجھاؤ کا عمل آج بھی تکمیل سے کوسوں دور ہیں۔

تاہم طویل عرصے سے روس کی شناخت تلاش کرنے میں مشغول روسی دانشوروں کے ساتھ اس عمل میں شریک ہونے کے بجائے شاید یہ بات زیادہ قابل غور ہے کہ گذشتہ 30 برسوں کے دوران روس میں ہونے والی یا نہ ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر آئندہ 30 برس تک اس کی ہیئت کیا ہو گی اور یہ کیسا محسوس ہو گا؟

شاید میرے لیے تبدیلی کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ماضی میں سے کیا یاد رکھا گیا، کس طرح نہایت تیزی سے ماضی کے کچھ حصے بھلا دیے گئے یا ممکنہ طور پر ترک کر دیے گئے اور بعض حصے برقرار رکھے گئے۔

1970 کی دہائی کے دوران سوویت یونین میں حصول تعلیم کے ایک سال اور پھر سوویت یونین کے آخری برسوں میں رپورٹنگ کے وقت کی واضح ترین یادوں میں بیزاری، قلت اشیا، محدود ورائٹی، انڈوں اور گوشت کی خریداری سے لے کر بس اور ٹرام میں سوار ہونے تک ہر جگہ لمبی لمبی قطاریں اور ہر طرف خستہ حالی کا دور دورہ تھا۔

بات محض اتنی سی نہیں کہ آج کی نوجوان روسی نسل نے ان میں سے بیشتر تجربات کا سامنا نہیں کیا بلکہ جنہوں نے کیا، وہ مائیں جو صبح سے پہلے دودھ کے لیے قطار میں لگتی تھیں، وین ڈرائیور جو پھلوں والی گاڑیوں کی منزل معلوم کرنے کے لیے ان کا پیچھا کیا کرتے تھے، پتھر چہرے والے دکان معاونین جو (تعلق نبھانے کی خاطر) دوستوں کے لیے چیزیں چھپا کر رکھتے تھے، جنہوں نے ایسے پڑوسیوں کے ساتھ کچن اور باتھ روم شئیر کیے جو ان کا اپنا انتخاب نہ تھے یا کار خریدنے کے لیے متعلقہ فہرست میں دس یا اس سے بھی زیادہ برس انتظار میں گزارے، ان سب نے اپنے ذہن کی تلخیاں دور ماضی میں ہی دفن کر دیں۔

اگر لوگوں نے کچھ یاد رکھا تو وہ ہے بے فکرا بچپن، تحفظ کا احساس اور ایک عظیم الشان طاقت کے شہری ہونے کا رتبہ۔ 

میرے لیے یہ بالکل ہی مختلف چیز ہے ورنہ وحشت ناک جنگ یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے تجربات جیسی ہولناکیاں لوگ اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔

اس کے بجائے 1990 کی دہائی کے اوائل میں معاشی افراتفری کا سامنا کرنے سمیت سوویت یونین عہد کی زندگی کے تلخ حصوں کی جگہ لوگوں کے ذہنوں میں بڑی حد تک موجودہ حالات نے لے لی ہے۔ 

سوویت یونین کے خاتمے کے 30 برس بعد زیادہ تر روس بشمول ان دوسرے اور تیسرے درجے کے شہروں کے جہاں سوویت عہد میں اشیا کی رسائی کا نظام نسبتاً ناقص تھا وہاں کنزیومر سیکٹر برطانوی قصبوں کی برابری کر رہا ہے۔ یہ تبدیلی ناقابل یقین رفتار کے ساتھ رونما ہوئی۔ 

ابتدائی تبدیلیوں میں سے ایک درآمد شدہ نجی کاروں کی بڑی تعداد (جن میں جاپان سے آنے والی سیکنڈ ہینڈ کاریں بھی شامل تھیں جن کا اسٹیرنگ وہیل ’الٹے‘ سائیڈ پر لگا ہوتا تھا) اور ان کے لیے پیٹرول سٹیشن تھے۔

اس کے بعد بین الاقوامی سپر مارکیٹ کے سلسلے، پھر ملکی سپر مارکیٹس اور پھر اے ٹی ایمز، مجھے آج بھی حیرانی کا وہ عالم یاد ہے جب میں نے اپنے برطانوی کارڈ کو صوبائی قصبے میں موجود اے ٹی ایم میں ڈالا اور اصل روسی روبل نکل آئے۔

اس کے بعد شاپنگ مالز جن میں بیشتر ترک کمپنیوں کی مالی معاونت اور انہی کے ہاتھوں تعمیر ہوئے، پھر جم، سکیٹنگ رِنکس یا سینما جیسی تفریحی سہولیات نظر آنے لگیں۔

اس کے بعد نجی فلیٹوں کے سمارٹ بلاکس اور انہیں خریدنے کے لیے قرضہ جاتی سہولیات۔ فرنیچر بنانے والی آئکیا کمپنی پورے روس میں پھیل گئی، بھلا یہ کیسے نہ ہوتا؟ اب وہاں آن لائن شاپنگ کی سہولیات بھی میسر ہیں اور باقی دنیا کی طرح بہ نفس نفیس جا کر خریداری کرنا ایک تفریحی سرگرمی بن چکی ہے۔ 

کھانے پینے اور ملبوسات میں ہائی ٹیک گیجٹس، عام آدمیوں کے لیے ترک ریزورٹس سے لے کر مین ہٹن اور سوئس سکائی سلوپس کی لگژری ’ایگزیکٹیو‘ ہاؤسنگ اور غیر ملکی تعطیلات تک روسی دنیا کے دیگر صنعتی شہروں جیسے طرز زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور طبقاتی امتیاز کی طرح کے ویسے ہی سماجی عدم مساوات کا سامنا کر رہے ہیں جو پہلے یوں نمایاں نہیں تھا۔ 

یہ یقیناً نہیں بدلے گا۔ 30 سال کے اندر عظیم بین الاقوامی صارف معاشرہ جیسا بھی ہوا روس اس کا ایک حصہ ہو گا۔

کپڑوں سے لے کر ذاتی ٹیکنالوجی تک ہر چیز میں ان کا ذوق دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرے گا جو کسی حد تک آب و ہوا کے مطابق ہو گا لیکن بہرحال خاص روسی طرز احساس کا غماز جیسا کہ اب فر والی ٹوپی ہے۔ 

اگر (ماحولیاتی تبدیلی کے زیرِ اثر) موسم زیادہ گرم ہوتا ہے تو روس کے کچھ دیگر حصے رہنے کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہوں گے اس لیے ترقی کا دائرہ جنوب کے بجائے شمال کی سمت مرتکز ہو سکتا ہے، موسمیاتی تبدیلی حالیہ برسوں میں درمیانے درجے کے شہروں کے رجحان میں اضافہ کر رہی ہے۔

اگر شمال مشرقی راستہ قطب شمالی کی طرف محفوظ تجارتی راستے کے طور پر کھلتا ہے تو آبادیاں اور انفراسٹریکچر بھی اسی جانب رخ کرے گا۔

روس کے بعض شمالی حصے پہلے سے ہی اپنی تجارتی ترقی اور انداز رہائش میں شمالی کینیڈا یا آئس لینڈ کے کچھ حصوں کی طرح نظر آنے لگے ہیں۔

اگلے 30 برسوں کے دوران ظاہری شکل و صورت میں ناقابل تصور تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ 

گذشتہ 30 برسوں کے دوران مادی سطح پر روس کی اس قدر تیز ترقی سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو وہ یہ کہ مشرقی بلاک کے دوسرے ممالک کے ساتھ اس کی پیش قدمی پر نظریے اور منصوبہ بند معیشت کی تباہ کاریوں نے مصنوعی بند باندھ رکھا تھا۔

کئی طرح سے اس نے اپنا سفر دوبارہ وہاں سے شروع کیا جہاں 1917 میں چھوڑا تھا جس سے ایک اور غیر مادی تبدیلی سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

سوویت عہد کی زندگی میں مروج زبان اور طور طریقوں میں ہمیشہ ایک کھردرا پن رہا جس نے پرانے دانشوروں کو غیر متعلق کر دیا اور انہیں بڑی حد تک خفیہ زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا، گھر میں ایک معیار، باہر دوسرا۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد چند ماہ بلکہ کچھ دنوں میں ہی یہ ختم ہونا شروع ہو گیا اور ’بورژوا‘ بطور تحسین نہ سہی لیکن ایک دلچسپ انداز میں دوبارہ استعمال ہونے لگا۔

کسی حکم نامے کے بغیر طرز تخاطب کے طور پر ’کامریڈ‘ ترک کر دیا گیا جو بعد میں محض اس وقت استعمال ہوتا جب کسی پر طنز کرنا ہو جیسا کہ ’وہ (بیوقوف) کامریڈ۔‘ ’مسٹر‘ اور ’مسز‘ دوبارہ طرز تخاطب کے طور پر اور عوامی تقریبات میں ’خواتین و حضرات‘ پر رائج ہوا۔

پرانے نام بھی دوبارہ رکھے جانے لگے، لڑکیوں کے لیے وکٹوریہ اور اینستیزیا Anastasia، لڑکوں کے لیے تموفے Timofei اور نکیتا Nikita۔ جزوی طور پر یہ سوویت حکمرانی کے دور میں غائب ہونے والے سابقہ متوسط طبقے کی واپسی کی عکاسی تھی اور جزوی طور پر یہ نئے سماجی طرز احساس کی نمائندگی تھی۔

 اگرچہ 30 برس گزر چکے ہیں لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا قبل از وقت ہو گا کہ روس کا قدیم اور جدید متوسط طبقہ کس قدر پھیلے گا اور جب لوگ سطحی قسم کے غیر طبقاتی سوویت طور طریقوں کو ایک بار ترک کر دیں گے تو سماجی تفریق کس قدر دوبارہ سر اٹھائے گی اور وسیع سماجی تقسیم میں یہ مرحلہ ابھی کتنا دور ہے۔ 

آبادیاتی تبدیلی کا اندازہ لگانا نسبتاً کم مشکل ہے۔ روس کی موجودہ آبادی 14.6 کروڑ ہے جو بتدریج کم ہو گی اور 2050 کے تخمینے کے مطابق یہ 12.1 کروڑ کے آس پاس ہو گی۔

اس کمی کی وجہ کسی حد تک سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کے برسوں میں شرح پیدائش میں ہونے والا تباہ کن زوال ہے لیکن یہ مغرب کے بہت سے بدخواہوں کی پیشن گوئی سے کم ہے۔

وبائی بیماری کے پھیلنے سے پہلے، جس سے روس کے متاثر ہونے کی شرح بھی یورپ کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے حصوں کے برابر ہے، شرح پیدائش (جزوی طور پر حکومتی مراعات کی بدولت) اور متوقع عمر دونوں میں اضافہ ہوا تھا۔

 اس سے ان لوگوں کے لیے دو بہت نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں جو روس کو سوویت یونین کے دور سے جانتے تھے۔

پہلی یہ کہ 2000 کے اوائل میں دو والدین، ایک یا دو چھوٹے بچے ٹہلتے ہوئے، کھیل کے میدانوں یا برف باری میں ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے ایک ساتھ آپس میں لطف اندوز ہو رہے ہوتے تھے۔

اس سے پہلے شاید ہی کبھی خاندان ایک ساتھ نظر آتا، سرکاری نظریہ اور کام کاج کے تقاضوں نے خاندان کے سب افراد کے لیے ایک ساتھ وقت نکالنا یا چھٹی کرنا مشکل بنا دیا تھا۔ یہ ایک بڑی اور خوشگوار تبدیلی تھی۔

دوسری بھی اتنی ہی خوشگوار تبدیلی تھی کہ ’نوجوان اور عمر رسیدہ‘ نسل ایک ساتھ نظر آتی جس طرح زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔

2010 کی دہائی کے وسط تک وہاں لوگوں کا ایک بالکل نیا گروہ نظر آتا جن کی عمریں ظاہر ہے ساٹھ اور ستر کے عشرے میں تھیں اور وہ عمدہ لباس زیب تن کیے باہر گھوم پھر رہے ہوتے تھے۔

20 سال پہلے یہ گروہ تقریباً بالکل ہی غائب تھا۔ بہت سے لوگ بالخصوص مرد حضرات جوانی میں ہی لقمہ اجل بن جاتے یا اگر زندہ بھی ہوتے تو اس قدر بیمار یا لاغر کہ باہر نکلنے کی سکت ہی نہیں۔

بہتر خوراک، کم ووڈکا (اور زیادہ بیئر) اور شاید صحت کی بہتر دیکھ بھال نے روس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے درمیان فرق کم کر دیا۔ 

اگلے 30 برس میں یہ فرق جہاں تک موجود ہے یقیناً مزید کم ہو جائے گا۔ 2050 تک روسیوں کی تعداد کم ہو سکتی ہے لیکن وہ صحت مند طویل العمر روسی ہوں گے جو اشاریہ جات کے مطابق اپنے مغربی پڑوسیوں سے بہت کم مختلف ہوں گے۔ 

تاریخی اعتبار سے روس کو صنعت، صارفین اور آبادیات کے مرکزی دھارے میں لے جانے والی یہ تبدیلی قابل ذکر رفتار سے وقوع پذیر ہوئی۔

غالباً اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے جو کسی نے سرخ پرچم اتارتے وقت ایسی قوم کے بارے میں سوچا ہو گا جس کے لوگ بڑھاپے کی طرف رواں اور جوانی میں مر رہے تھے، جس کی معیشت زبوں حالی کا شکار اور جس کا ستر سالہ رہنما نظریہ خاک میں مل چکا تھا۔

یہ دوبارہ پرانے حالات پر کبھی نہیں آئے گا۔ روس کی عالمی ترقی کا سلسلہ دوبارہ اس طرح موثر طریقے سے کبھی منقطع نہیں ہو گا جس طرح پہلے ایک بار ہوا۔

تاہم کچھ تبدیلیاں ایسی ہیں جنہوں نے بہت سے پیشین گوئیوں سے کہیں زیادہ وقت لیا ہے اور ممکن ہے کبھی رونما ہوں ہی نہیں۔

سوویت یونین کے انہدام کے فوراً بعد امریکی مالی معاونت سے چلنے والے سوویت مخالف نشریاتی ادارے ریڈیو لبرٹی نے ایک سروے منعقد کیا جس میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ 10 سال بعد روس کیسا ہو گا۔

10 سال بعد ادارے کے ایک متعلقہ فرد نے مجھے بتایا کہ تمام اندازوں میں سے قریب ترین اندازہ میرا تھا۔ افسوس کہ یہ اندازہ بہت خوش کن نہیں تھا۔

میں نے پیشین گوئی کی تھی کہ لوگ جو سوچ رہے ہیں اس کی نسبت بہت کم تبدیل ہو گا۔ ایک مقبول پیش گوئی کو غلط ثابت کرتے ہوئے روس سویڈن نہیں بنا، بلکہ اس کے قریب بھی نہیں آ سکا۔

صارفین اور کاروباری شعبے سے ہٹ کر فرسودہ ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں لوگوں کے اندازوں کی نسبت کہیں زیادہ وقت لگا۔

یہاں بہت زیادہ بہتری آئی ہے لیکن سڑکوں، ٹرانسپورٹ اور بنیادی اشیا کی رسائی کو منظم طریقے سے کامیابی کے ساتھ چلنے میں بیس یا اس سے بھی زیادہ سال لگ گئے۔

ابھی کرنے کو جو باقی ہے اس میں اگلے 30 برس لگ سکتے ہیں، جو موجودہ منصوبوں کے ساتھ شامل ہو کر کم از کم ’سرسبز‘ روس کو سچ ثابت کرتے ہوئے اسے 2060 تک کاربن نیوٹرل ملک بنا سکتا ہے۔

ناقابل مرمت پرانے ٹیریسٹریل نیٹ ورکس کو مؤثر طریقے سے ترک کرتے ہوئے روس نے جس قدر تیزی سے موبائل اور وائی فائی کمیونیکیشنز کو اپنایا اس نے سب کو حیران کر دیا۔ ایسا ہی کچھ بڑے انفسٹریکچر کے ساتھ ہو سکتا ہے۔

سوویت یونین کے بعد کے پہلے تیس برس میں جس چیز کو بدلنے میں بہت زیادہ وقت لگا وہ رویے تھے جو ممکنہ طور پر باہر کے لوگوں کی دو غلط فہمیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

ایک یہ کہ لوگوں کے رویے معیار زندگی کی طرح تیزی سے اور جامع طور پر تبدیل ہو سکتے ہیں، دوسرا یہ کہ ان کا تبدیل ہونا بنتا ہے اور وہ مکمل طور پر ہو کر رہیں گے۔

1990 کی دہائی میں روس کے اندر کام کرنے والے مغربی سرمایہ کاروں اور مینجرز نے اکثر اس بات پر اصرار کیا کہ صرف نوجوان عملے کو بھرتی کیا جائے جو ان کے خیال میں وقت گزاری، بے ہمتی اور سوویت دور میں بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے بدعنوان طور طریقوں سے پاک ہوں گے۔

یہ بات کہنے میں آسان لیکن عملی طور پر بہت مشکل تھی، بہت سے مغربی کاروباری لوگوں نے اس خوف کی تصدیق کی کہ سوویت یونین کی بدنام زمانہ وراثت سے نجات حاصل کرنے میں کم از کم ایک اور نسل لگ سکتی ہے۔

کئی لحاظ سے یہ بہت مایوس کن تھا۔ روسی لوگوں کے کام کاج کرنے کے رویے تبدیل ہوئے ہیں، کاروباری صلاحیت اور محنت کی عادت ان کی زندگیوں کا حصہ بنی ہے۔ لیکن باہر کے لوگوں کی توقعات کی نسبت ممکن ہے کچھ تبدیلیاں زیادہ سست رفتار ثابت ہوئی ہوں یا سرے سے رونما ہوئی ہی نہ ہوں۔ 

ان رویوں میں سے ایک سماجی انصاف سے جذباتی وابستگی ہے جو شاید سوویت یونین کے عہد سے یا غالباً اس سے بھی پہلے sobornost کے طور پر معروف چلی آتی ہے یعنی برادری اور سماجی یکجہتی کا احساس۔

اس کی ابتدا جہاں سے بھی ہوئی ہو بہرحال یہ وابستگی ممکنہ طور پر 1990 کی دہائی کے اوائل میں کچھ لوگوں کے پاس نمایاں مال و دولت آنے سے مجروح ہوئی جس سے وہاں کے کروڑ پتی اولیگارک جیسے انتہائی امیر لوگ سامنے آئے جن میں سے بہت سے اپنا پیسہ (اگر خود اور اپنے خاندان کو نہیں تو) ملک سے باہر رکھتے ہیں۔

 اس سے منسلک وسیع پیمانے پر ایک مشترکہ خیال یہ ہے کہ ریاست کی اپنے شہریوں کے لیے بہت زیادہ ذمہ داریاں ہیں، اس قدر کہ امریکہ سمیت بہت سے دیگر ممالک میں لوگ یقیناً ایسی توقع کر ہی نہیں سکتے۔

ایک خیر خواہ ریاست اور سماجی یکجہتی کے یہ دونوں نظریات ایک بار پھر واپس آ سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ایسا لگتا ہے سوویت دور کی یادوں میں گم افراد کے بجائے یہ نوجوانوں میں نظر آ رہا ہے جو اس سال روس میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کیمونسٹ پارٹی کے ووٹ بینک میں بھاری اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں یورپی طرز کی کسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ 

اس کے خلاف سماجی قدامت پسندی کا پختہ نظام کھڑا کرنا پڑے گا جو مغربی یورپ کے بجائے پولینڈ، ہنگری اور یوکرین میں زیادہ رائج ہم جنس پرستوں کی شادی، تبدیلی صنف کے اختیار اور احترام مذہب (روسی آرتھوڈکس) جیسی چیزوں پر خالص روسی آرا کا اظہار کر سکے۔

ماسکو کے مرکزی کیتھیڈرل کی جانب سے مقدس فیصلے کے طور پر پیش کی جانے والی Pussy Riot پنک بینڈ کے اراکین کی سزائوں کو روس میں بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی اور آج بھی وہ اس کی حمایت کریں گے۔

 اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آئندہ دہائیوں میں بھی یہی صورت حال رہے گی۔ یار رکھیے جمہوریہ آئرلینڈ میں کیتھولک چرچ کے وسیع اثرورسوخ سے اسقاط حمل اور ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے رائے شماری تک اور ہم جنس پرست کے ملک کا وزیر اعظم بننے تک کتنی تیزی سے رائے تبدیل ہوئی۔

1991 کے بعد بیس سال کے اندر روسیوں کی آرتھوڈکس چرچ کی طرف پرجوش واپسی کسی حد تک ’روسی پن‘ کا اظہار تھا جو ایسا لگتا ہے اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔

2050 تک ایک نئی نسل کے زیر انتظام روس غالباً سماجی طور پر اب کی نسبت بہت معمولی قدامت پسند رہ جائے گا۔

 چاہے اسے حب الوطنی کا نام دیا جائے یا قوم پرستی کا یہ الگ معاملہ ہے لیکن کیا روسی اپنے ملک سے وفاداری میں کم قدامت پسند ہو سکیں گے۔

2014 میں پیوتن کے کریمیا کے الحاق کو معاشرے کی تقریباً ہر سطح پر جس طرح سے عوامی پذیرائی ملی اس سے مجھے گمان گزرتا ہے کہ یہ بات محض اس حد تک نہیں کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روسی اس طرح کی فتح دیکھنا چاہتے تھے بلکہ وہ کس طرح اب بھی اپنے ملک کو ایک عظیم طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کی حب الوطنی کا جذبہ کیسا لازوال ہے۔

روس کے وہ شہری جنہوں نے تعلیم، روزگار یا اپنے وطن کی موجودہ حالت سے بیزار ہو کر کسی دوسرے ملک رہنے کا انتخاب کیا ہے ان میں سے ایک آدھ بھی ایسا مشکل سے ملے گا جو روس سے وفادار نہ رہا ہو۔ (پیوتن سے وفاداری الگ بات ہے۔)

تقریباً کچھ بھی ہو جائے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ روسی شناخت 30 سال بعد آج کی نسبت معمولی سی بھی کمزور ہو جائے گی۔

چاہے وہ اس کا اظہار ایک صحت مند قومی فخر کے طور پر کرے یا ایک زیادہ خطرناک قوم پرستی کے طور پر یا خود کو باقی دنیا سے کاٹ کر ایک الگ تھلگ ملک کے طور پر، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آئندہ برسوں میں دنیا کی بڑی طاقتیں اور اس کے پڑوسی اس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں۔

سوویت یونین کے انہدام کے ساٹھ سال بعد تب ممکن ہے روسی اپنی مابعد سوویت اتحاد شناخت، سرحدوں اور ملک کی ترقی کے خلاف موجودہ رکاوٹوں کے حوالے سے زیادہ مطمئن ہوں۔

لیکن محض اپنے جغرافیائی حجم کی بدولت بھی یہ ایسی قوت رہے گا جسے اہم فیصلے کرتے وقت نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ 

جیسا کہ پیوتن اپنے ووٹرز کو باقاعدگی سے یاد دلاتے ہیں، 21 سال قبل جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو روس کے ٹوٹنے کا ایک حقیقی خطرہ موجود تھا۔

چیچن علیحدگی پسندوں کے ساتھ دو وحشت ناک جنگیں ہوئیں۔ تاتارستان نے ایک موقعے پر علیحدہ ہونے کی دھمکی دی اور سائبیریا میں علحیدگی کی ایک تحریک شروع ہو گئی تھی۔

یہ خطرہ اب ٹل چکا ہے۔ نیا خطرہ ٹوٹنے کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ خطے کے مختلف علاقوں میں ماسکو کی رٹ اب کی نسبت کم موثر ہو جائے گی۔

پوتن نے طاقت کے ڈھانچے، جنہیں وہ ’طاقت کا اہرام‘ کہتے ہیں، موثر بنانے کے لیے کئی سال صرف کیے۔ حقیقتاً ایسا کبھی نہیں ہوا اور ماضی کے چند برسوں کے دوران انفرادی طور پر کئی خطوں میں ایک بار پھر سرکش رویہ دیکھنے کو ملا ہے اگرچہ اسے علیحدگی پسندانہ نہیں کہہ سکتے۔

بالخصوص مقامی ماحولیات اور بدعنوانی کے خلاف مظاہرے خاصے موثر رہے جس کی وجہ سے حزب اختلاف کی شخصیت الیکسے نوالنے ایک بھرپور قوت بن کر ابھرے (اور جیل بھیج دیے گئے)۔ 

زیادہ سے زیادہ پوتن یا ان کے جانشین علاقائی جذبات سے فائدہ اٹھا کر خطوں کو زیادہ اختیارات دینے کے قابل ہو جائیں گے اور صلح صفائی سے ملک کو اوپر سے نیچے کے بجائے نیچے سے اوپر چلائیں گے۔

اس طرح 30 سال میں روس زیادہ پرامن اور پیدواری صلاحیت کا حامل ہو جائے گا جہاں صنعتی اور زرعی شعبہ پھلتے پھولتے ہوئے علاقائی تفاخر میں اضافہ کا باعث بن رہا ہو گا۔

بہت برا بھی ہوا تو یہ ہو گا کہ ایک خطہ دوسرے کے خلاف اور یہ خطے ماسکو کے خلاف برسرپیکار ہوں گے جس کا نتیجہ روس کی شکست و ریخت نہیں بلکہ ایک غیر فعال حالت ہو گی جس میں ممکنہ خوشحالی کا زیادہ تر امکان ضائع ہو کر رہ جائے گا۔

اس بات کے بہت سے دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں کہ سوویت دور کی نسبت روس اپنی موجودہ سرحدوں کے ساتھ اب زیادہ مربوط اور محفوظ ریاست ہے۔

لیکن اس سلامتی ہو برقرار رکھنے یا مزید پختہ کرنے کا انحصار مغربی سمت میں اس بات پر ہو گا کہ یوکرین ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنا مقام کیسے قائم کرتا ہے، جنوب اور مشرق میں اس بات پر کہ افغانستان کی علاقائی حیثیت کتنی غیر مستحکم ہوتی ہے اور اس سے زیادہ کہ چین کا کیا بنتا ہے: چین بیرون ملک اپنے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کیسے سنبھالتا ہے اور کیا وہ ملک کے اندر خود کو کسی بڑی ہنگامی صورتحال سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ گذشتہ تیس برس کے دوران روس نے سابق سوویت یونین کا حصہ وسط ایشیائی ریاستوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑے رکھا۔ اگر چین خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے لگا تو کیا پھر بھی ایسا ہی رہے گا؟

روسیوں کو قدیم زمانے سے اس بات کا خوف ہے کہ گنجان آباد چین بڑے پیمانے پر اس کی خالی مشرقی ریاستوں پر قبضہ جما لے گا۔

کسی کشمکش کی حالت میں چین اپنی سرحدوں سے بھی اچانک میزائل داغ سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں روس کی مغربی سمت کے بجائے روس کے مشرقی جانب تنازعات کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔

بالکل ایسا ہو سکتا ہے کہ باہمی مفاد کے پیش نظر نئی تجارت اور یہاں تک کہ علاقائی انتظامات پر بھی بات چیت کے راستے کھل جائیں۔

لیکن تاریخ تعاون سے کہیں زیادہ شکوک و شبہات پیش کرتی ہے اس لیے مغرب میں کچھ لوگوں کے خوف کے باوجود اتحاد کی بات تو رہنے ہی دیجئیے۔ 

2050 تک روسی معیشت کے خدوخال اس سے مختلف ہوں گے جو اب ہیں۔ گرم ماحول اور بہتر صلاحیت کی بنیاد پر روس اب کی نسبت بہتر زرعی ملک بن سکتا ہے۔

ممکنہ طور پر شمال مشرقی راستہ کھلنے سے یہ جہاز رانی کے زریعے ہونے والی تجارت کا ایک کلیدی روٹ بن جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر یورپ اپنے توانائی کے شعبے کو کاربن سے پاک کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو روس کو بھی تیل اور گیس کی برآمدات کو چھوڑنا پڑے گا جو اس کی بیرون ملک سے ہونے والی آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں یا پھر یورپ کے بجائے چین اور جنوب مشرقی ایشیا کو فروخت کرنا پڑیں گی۔

اگر وہ 2060 تک کاربن فری ملک بننے کے اپنے وعدے پر قائم رہتا ہے تو روس نئی سرسبز معیشت کا پوسٹر چائلڈ بن سکتا ہے۔ اس میں یہ صلاحیت موجود ہے، اس بات کا امکان رد نہیں کیا جانا چاہیے۔ 

بحیثیت مجموعی روس یورپی معیار زندگی کی حامل ایک خوشحال ریاست بن سکتا ہے یا بدعنوان اور مسابقتی مفادات میں گھری ایک انتشار پسند اور بدانتظامی کے دلدل میں دھنسی ریاست، جہاں کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔

گذشتہ 30 برس میں اس نے کتنی پیش رفت کی ہے اس کی بنیاد پر بہتر مستقبل کا امکان خارج نہیں کیا جانا چاہیے: بہترین زرعی پیداوار کا ملک، صاف آب و ہوا، توانائی کا صاف ستھرا نظام، ایسا معیار زندگی اور سماجی و ثقافتی اقدار جو اسے آسانی کے ساتھ یورپی کیمپ کا حصہ بنا دے جہاں یہ تب سلامتی کے ویسے کثیر الجہتی معاہدے کے لیے ہاتھ پاؤں نہ مار رہا ہو جیسے سوویت یونین کے انہدام کے بعد مار رہا تھا۔ 

جنہوں نے پیشین گوئی کی تھی کہ دس سال میں روس سویڈن بن جائے گا وہ غلط تھے۔ لیکن شاید ان کا اندازہ محض نصف صدی کے فرق سے غلط ثابت ہوا ہو۔

سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے اعلان کی طرح ہر چیز ایسے جھٹ پٹ نہیں ہو جاتی۔ سوویت یونین کے انہدام کے تین دہائیوں بعد روس 21ویں صدی میں پہنچا ہے اور کئی لحاظ سے وسیع دنیا کا حصہ بنا ہے۔

لیکن اگر ماضی کی بنیاد پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے تو روس اور روسیوں کو دنیا میں اپنی نئی جگہ بنانے میں کم از کم 30 برس لگ سکتے ہیں۔ 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا