چین کی ’خوشی کی صدی:‘ ٹرمپ کتنا رخنہ ڈال سکتے ہیں؟

بظاہر لگ رہا ہے کہ ٹرمپ چین کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے، تاہم ٹرمپ کا دوسرا اقتدار چین کے لیے ایک اہم موقع بھی فراہم کر سکتا ہے۔

چینیوں کو امید ہے کہ 20ویں صدی ’ذلت کی صدی‘ تھی مگر 21ویں صدی ان کے لیے خوشی کی صدی ثابت ہو گی (پکسا بے)

اگرچہ چین کے عالمی نظام کے تصور میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئی ہے، لیکن چنگ خاندان یعنی شاہی دور سے لے کر آج تک کچھ بنیادی نکات اس کے بین الاقوامی نظام کی تفہیم میں یکساں رہے ہیں۔

چین کے شاہی حکمران سفارتی رسومات کو ترجیح دیتے تھے جو ان کے عالمی مرکزیت کے نقطہ نظر کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتیں۔ وہ چینی تہذیب کو دنیا کا ثقافتی، سیاسی، اور اخلاقی مرکز سمجھتے تھے، جس کے تحت انہوں نے مختلف علاقوں میں سفارتی تعلقات اور رسمی اطاعت کے لیے سفیر بھیجے۔  

اسی دوران چینی بادشاہوں نے نہ صرف اندرونی ہم آہنگی اور مستحکم سماجی نظام کو ترجیح دی بلکہ دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات میں ثقافتی اثر و رسوخ، سفارت کاری، تجارت، اور فوجی دباؤ کا امتزاج بھی اختیار کیا۔ ہان خاندان کے دوران شاہراہِ ریشم کا قیام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ چین نے اپنی معیشت اور ثقافت کو باہمی فائدے کے لیے دنیا سے جوڑنے کو اپنا طور طریقے  بنایا۔  

اپنی مضبوط اقتصادی، سفارتی، اور عسکری طاقت کی بنا پر شاہی چین نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، تجارتی تعلقات قائم کیے، ٹریبیوٹ سسٹم کلو مستحکم کیا، اور اپنے علاقے میں چین کو بطور ’مرکزی سلطنت‘ کے تصور کے گرد عالمی نظام تشکیل دیا۔

17ویں صدی کے آخری عشروں تک چین نے اپنی حیثیت کو برقرار رکھا۔ تاہم منگ خاندان کے دوران تنہائی پسندی، غیر ملکی تجارت اور تعلقات کو محدود کرنا، رسمی اطاعت کے نظام کا خاتمہ، اور چنگ خاندان کے دوران مغربی سامراجیت کے عروج نے چین کے سنٹرک ورلڈ آرڈر کو کمزور کر دیا۔  

اگرچہ ’ذلت کی صدی‘ کا دور آیا، لیکن چینی قوم کا یقین تھا کہ وہ دوبارہ اپنی عظمت حاصل کرے گی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ 21ویں صدی چین کے لیے ’خوشی کی صدی‘ ہے۔  

دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور میں چین، جو اقوام متحدہ کا رکن تھا، موجودہ عالمی نظام میں اپنے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا رہا۔ 1949 میں ریاست کے قیام کے بعد چین نے خود کو عالمی امور میں ایک انقلابی طاقت کے طور پر پیش کیا، بین الاقوامی نظام کو مسترد کیا، اور پرولتاری بین الاقوامیت کو اپنایا، جس کا مقصد دنیا بھر کے محنت کش طبقے کے اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینا اور عالمی سطح پر سوشلسٹ نظام کا قیام تھا۔

بالآخر چو این لائی نے پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کو وضع کیا، جن میں خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا باہمی احترام، عدم جارحیت، ایک دوسرے کے داخلی امور میں عدم مداخلت، مساوات، اور پرامن بقائے باہمی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اصول شاہی دور سے چین کی پالیسی کا مرکز رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد ازاں، 1970 اور 1980 کی دہائی میں ماؤ زے تنگ کے تین عالمی نظریے کے تحت چین کے عالمی نظام کا تصور بدلا۔ ماؤ کے مطابق، پہلی دنیا میں امریکہ اور سوویت یونین شامل تھے جو دنیا پر غلبہ پانے کے لیے کوشاں تھے، دوسری دنیا میں امریکہ کے اتحادی جیسے جاپان، یورپی یونین، اور دیگر ممالک شامل تھے، جبکہ چین، پاکستان، بھارت اور دیگر ترقی پذیر ممالک تیسری دنیا کا حصہ تھے۔

ماؤ کے نظریے کے تحت چین نے ترقی پذیر ممالک کو متحد کرنے کی کوشش کی تاکہ دوسری دنیا پر غالب آ سکے اور سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین کے غلبے کی مزاحمت کی جا سکے۔  

ماؤ کا نظریہ 1980 کی دہائی کے اواخر میں ناکام ہو گیا۔ 1990 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں چین نے مغربی دنیا کے خلاف ایک نئے بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی نظام کے تصور کو اپنایا، جس میں قومی مفادات کو بڑھانے اور اقتصادی ترقی پر توجہ دی گئی۔

چین نے عالمی طرز حکمرانی میں شمولیت اختیار کی، دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بنائے، اور 1992 میں نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی، 1996 میں کمپری ہینسیو نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی، اور 1998 میں انٹرنیشنل کووینٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس پر دستخط کیے۔  

1990 کی دہائی کے آخر سے عالمی ماحول چین کے لیے سازگار رہا، جس نے داخلی ترقی اور اندرونی استحکام کو ترجیح دی۔ چین نے اعلان کیا کہ اس نے دنیا کے ساتھ تعلقات سے بے پناہ فوائد حاصل کیے ہیں اور اس کا خیال ہے کہ عالمگیریت ناقابل واپسی ہے۔  

آج کے عالمی نظام میں چین، شی جن پنگ کی قیادت میں، طاقت کے توازن میں تبدیلی دیکھ رہا ہے۔ چین کا خیال ہے کہ موجودہ عالمی نظام کو مزید منصفانہ اور مساوی بنانے کی ضرورت ہے۔ شی جن پنگ نے عالمی طرز حکمرانی کے مشترکہ کنٹرول اور ترقی پذیر ممالک کی امنگوں کو جگہ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔  

لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اب جب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھال چکے ہیں تو اس کے عالمی نظام پر بالعموم اور چین پر بالخصوص دور رس اثرات کیا ہوں گے۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ چین مخالف پالیسیوں کو اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھتے ہیں اور اس کا اظہار انہوں نے اپنی حلف برداری تقریب میں اپنی تقریر میں بھی کیا کہ ہم نے پاناما کینال کو پاناما کے حوالے اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہاں چین اجارہ داری قائم کرے۔

دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ چین کی معاشی ترقی اور اس کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوح سے بھی کافی پریشان نظر آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی نظر میں ان کا سب سے بڑا عالمی امتحان چین کے عالمی تسلط کو کم کرنا ہے۔

اسی طرح امریکہ کے موجودہ وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات کرنے کے بعد چین کو بالواسطہ واضح پیغام دیا کہ چین کی جانب انڈو پیسفیک میں یکطرفہ کارروائی یا جارحیت کی بھر پور طریقے سے مزاحمت کی جائے گی۔

اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ نے چین پر مزید ٹیرف لگانے کا عندیہ بھی دیہ ہے جس کا مقصد امریکہ کو دوبارہ امریکہ کو ایک عظیم ملک بنانا ہے یعنی امریکہ اپنا کھویا ہوا تسلط دوبارہ دنیا پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ امریکہ کی طاقت کمزور ہوچکی ہے اور اس کے دنیا پر تسلط قائم کرنے کے راسطے میں چین سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ ٹرمپ چین کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ تاہم ٹرمپ کا دوسرا اقتدار چین کے لیے ایک اہم موقع بھی فراہم کر سکتا ہے کہ وہ عالمی نظام سیاست کی طاقت کا توازن اپنی طرف کرے۔

ٹرمپ کا عالمی اداروں سے مثلا عالمی ادارہ صحت اور پیرس ماحولیاتی معاہدے سے انخلا اور نیٹو اتحادیوں کے ساتھ کشیدگی چین کو ایک سنہرا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ان اداروں میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرے، سفارتی تعلقات میں مزید گرم جوشی دکھائے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ موجودہ عالمی نظام میں مساوی بنیادوں پر تبدیلی ناگزیر ہے اور تمام ریاستیں اس نظام میں اصلاحات لانے کے لیے کوششیں کریں تاکہ ایک منصفانہ عالمی نظام تشکیل دیا جا سکے۔ 

یوں، چین 21ویں صدی میں عالمی نظام کی تبدیلی کو ایک اصلاح شدہ نظام کے طور پر دیکھتا ہے، جہاں چین کو عالمی طرز حکمرانی میں اس کا جائز مقام ملے اور ترقی پذیر دنیا کی امنگوں کو شامل کیا جائے۔  

مصنف اسلام آباد میں مقیم ایک ملٹی میڈیا صحافی اور محقق ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا