انڈیا میں مہا کمبھ میلے میں بھگدڑ مچنے سے کم از کم سات افراد جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ کمبھ میلے میں لاکھوں افراد تین مقدس دریاؤں کے سنگم پر اشنان(نہانے) کے لیے جمع ہوئے تھے۔
بدھ کو مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے تین مختلف مقامات پر بھگدڑ مچ گئی جب ہندو یاتریوں کی بڑی تعداد مہا کمبھ کے سب سے اہم دن مونی امواسیہ کے موقعے پر پانی میں نہانے کے لیے پہنچی۔
ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لاشوں کو سٹریچر پر اٹھا کر لے جایا جا رہا ہے اور زمین پر بیٹھے افراد رو رہے ہیں جبکہ دیگر لوگ بھگدڑ سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے لوگوں کی جانب سے چھوڑے گئے سامان والے قالین پر چڑھ گئے۔
ایک یاتری روین نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’میں نے بہت سے لوگوں کو گرتے اور ہجوم کے پیروں تلے روندے جاتے دیکھا۔۔۔ کئی بچے اور خواتین گم ہو گئے، مدد کے لیے پکارتے اور روتے رہے۔‘
توقع تھی کہ اس تہوار کے دوران 40 کروڑ سے زیادہ یاتری ہندو مت کے تین ’مقدس‘دریاؤں – گنگا، جمنا اور افسانوی سرسوتی کے سنگم پر اشنان (نہانے) کے لیے ریاست اتر پردیش کے شہر پریاگ راج آئیں گے۔
یہ دنیا میں لوگوں کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔
اب تک حکام نے بدھ کی صبح پیش آنے والے اس واقعے میں مرنے والوں تعداد نہیں بتائی اور میڈیا میں مرنے والوں کی تعداد مختلف بتائی جا رہی ہے۔ گارڈین نے ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مرنے والوں کی تعداد 50 کے قریب پہنچ چکی ہے۔
پریاگ راج شہر کے ایک ڈاکٹر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’اب تک کم از کم 15 افراد مارے گئے ہیں۔ دیگر افراد کا علاج جاری ہے۔‘
تہوار میں موجود سپیشل ڈیوٹی افسر آکانکشا رانا نے بتایا کہ سنگم پر بیریئر ٹوٹنے کے بعد کئی لوگوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں ابھی تک زخمیوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔‘
کرناٹک ریاست سے تعلق رکھنے والی ایک یاتری، سروجنی، نے کہا کہ وہ نو افراد کے ایک گروپ کا حصہ تھیں جو اس وقت پھنس گیا جب ہجوم میں موجود لوگ دھکم پیل کرنے لگے۔
انہوں نے پی ٹی آئی نیوز ایجنسی کو بتایا: ’ہم میں سے بہت سے لوگ گر گئے اور ہجوم بے قابو ہو گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’بچ نکلنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 30 خواتین زخمی ہوئیں اور ان کا علاج کمبھ میلے والے علاقے کے مرکزی ہسپتال میں جاری ہے۔
ہندو مذہبی رہنماؤں نے اپنا ’شاہی اشنان‘ منسوخ کر دیا ہے، جس میں مونی امواسیہ کے موقعے پر ایک بڑا ہجوم جمع ہوتا ہے، جب راکھ میں لت پت برہنہ سادھو جلوس کی قیادت کرتے ہوئے دریا کی طرف جاتے ہیں۔
رویندر پوری نے کہا: ’جب ہمیں اس واقعہ کی اطلاع ملی تو ہمارے سبھی سنت اور سادھو اشنان کے لیے تیار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنا اشنان نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے یاتریوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے قریبی گھاٹ پر اشنان کریں اور دریاؤں کے سنگم کی طرف جانے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ’انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کریں اور انتظامات میں تعاون کریں۔‘
تاہم انہوں نے بھگدڑ کا کوئی براہ راست حوالہ نہیں دیا اور یاتریوں سے کہا کہ وہ ’افواہوں‘ پر یقین نہ کریں۔
کمبھ میلہ ہر تین سال بعد مختلف ’مقدس‘ شہروں میں باری باری منعقد ہوتا ہے، جبکہ مہا کمبھ میلہ ہر 12 سال بعد ہوتا ہے۔ ’مہا‘ کا مطلب ہے ’بڑا‘، اور اس تہوار میں سب سے زیادہ عقیدت مند آتے ہیں کیونکہ اسے سب سے زیادہ ’مقدس‘ سمجھا جاتا ہے۔
گذشتہ مہا کمبھ میلے کے دوران بھی اشنان کے سب سے مصروف دن ایک جان لیوا بھگدڑ مچی تھی، جس میں 2013 میں 36 ہندو یاتری مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں 27 خواتین اور ایک آٹھ سالہ بچی شامل تھی۔
ہندو عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ مہا کمبھ میلے میں دریاوں کے سنگم میں اشنان سے ان کے گناہ مٹ جاتے ہیں اور موت و حیات کے چکر سے نجات دلانے کا باعث بنتا ہے۔
اتر پردیش کے حکام نے سنگم کے علاقے کو عارضی خیموں کا شہر بنا دیا ہے، جہاں ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد خیمے نصب کیے گئے ہیں، 3,000 باورچی خانے، 145,000 بیت الخلا اور تقریباً 100 کار پارکنگ بنائی گئی ہیں۔
ہزاروں کی تعداد میں نئے بجلی کے کنکشن بھی فراہم کیے گئے ہیں کیونکہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس تہوار میں اتنی زیادہ بجلی استعمال ہوگی جتنی کہ اس علاقے کے ایک لاکھ شہری اپارٹمنٹس ایک ماہ میں استعمال کرتے ہیں۔
© The Independent