یہ تصورکہ روس صدیوں تک ایک سلطنت تھا کسی بھی طرح نیا نہیں اور نہ ہی یہ سوچ نئی ہے کہ روس آج بھی موجود ہے۔
ذہین مورخین نے اندازہ لگایاہےکہ روس ایک وقت تاریخ انسانی کی سب سے بڑی سلطنت تھی لیکن اس کے لیے اس کے زیرانتظام علاقے اورغلبے کی مدت کوبھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔
مہم جوسیاسی تجزیہ کارکہتے ہیں کہ حالیہ وقتوں میں روس کا رجحان شاہی اختیارات کے دوبارہ حصول کی طرف ہے۔سابق امریکی صدرجمی کارٹر کے مشیِر قومی سلامتی زبیگنیوبریجینسکی کے مطابق یوکرین کے بغیرروس یوریشین سلطنت نہیں رہتا۔
تاہم اگر ماسکو یوکرین کا دوبارہ انتظام سنبھالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو روس طاقتورشاہی ریاست بننے کے لیے درکاروسائل کا خود بخود دبارہ مالک بن جائے گا۔ ایسی ریاست جوایشیا سے یورپ تک پھیلی ہو۔ کریمیا کا الحاق اس عمل کا واضح ثبوت ہے۔
اس کے باوجود بہت سے مبصرین سمجھتے ہیں کہ موجودہ سلطنت(یعنی روسی فیڈریشن) ایک بارپھرمختلف حصوں میں تقسیم ہوسکتی ہے۔ بعض سیاست دانوں کوامید ہےکہ ایسا ہوگا۔
تاہم بہت کم لوگوں نے روس کے شاہی منصوبے اورروسی سلطنت یورپی بادشاہتوں کی مشترکہ خصوصیات اوراختلافات کوسمجھنے کی کوشش کی ہے۔
روسی اورمغربی شاہی تاریخ کے درمیان سب سے زیادہ نمایاں مماثلت، ایک ایسی مماثلت جواس قسم کی کسی بھی یورپی مہم جوئی کے لیے معقول طورپراہمیت کی حامل ہے۔ یہ مماثلت وہ حقیقت ہے کہ روسی اورمغربی شاہی تاریخیں دوواضح اورمسلسل مراحل میں بٹی ہوئی ہیں۔
پہلا مرحلہ آبادکاروں کی نوآبادی تھی جس کے تحت قابل عمل شاہی اختیارزمین کے بڑے حصے کواپنے تابع کرلیتا ہے۔ چاہے یہ زمین اس کے اپنے براعظم کی ہویا سمندرپارہو۔ لوگوں کواتنی بڑی تعداد میں وہاں منتقل کردیاجاتا ہے کہ وہ اپنی تعداد مقامی قبائل سے زیادہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ روسیوں کے لیے سائبیریا، فرانسیسیوں کے لیے لوئیزیانا اور کینیڈا، انگریزوں کے لیے تیرہ نوآبادیوں،آسٹریلیا اورنیوزلینڈ اورایک طرح سے سپین کے لیے لاطینی امریکہ میں ایسا ہی معاملہ تھا۔
یہ تمام تصرفات سولہویں صدی کے آغازاوراٹھارویں صدرکے وسط میں کیے گئے اوراس کا جونتیجہ نکلا اسے برطانوی ماہرمعیشت اینگس میڈیسن نے مغربی شاخیں قراردیا۔
دوسرا مرحلہ سیدھی سادی فوجی فتوحات کا ہے۔ تعداد میں نسبتاً چھوٹی باقاعدہ فوجوں نے مقامی آبادی کوتابع بنایا۔ آقا اورغلام کا پیچیدہ نظام دیکھنے میں آیا (اسکی مثال ہندوستان میں برطانوی راج ہے)۔
یہاں روس نے بھی مغرب کی پیروی کی۔ بالکل اسی طرح جیسے فرانس نے انڈونیشیا اورمغربی افریقہ جبکہ برطانیہ نے ایشا کے بڑے حصے پرقبضہ کرلیا۔ یہ قبضہ جدید پاکستان سے لے کرملایا اورافریقہ جبکہ افریقہ میں کینیا سے رہوڈیشیا تک پھیلا ہوا تھا۔ روسیوں نے قفقاز اوروسطی ایشیا کے حصے دونوں کواپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ 1885 میں افغان علاقے پنجدہ کے واقعے میں روسیوں نے برطانیہ کا سامنا کیا۔
دونوں مراحل میں روس کا رویہ یورپ کی طرح تھا۔ چاہے وہ عظیم برطانیہ ہویا فرانس۔ روس نے اپنی سلطنت یورپی دلیل پرکھڑی کی اورمواصلات اورجنگ کے یورپی وسائل استعمال کئے۔
اس کے باجود مغربی طریقے اورروسی سوچ کے درمیان بہت بڑا اختلاف تھا۔ یہ اختلاف 1776 اور1820 کے عشروں کے درمیان سامنے آیا جب مغربی یورپ کی سمندرپارنوآبادیوں نے بغاوت کردی۔ ان کی قیادت ان لوگوں نے کی جودنیا کے بارے میں اپنے نکتہ نظراوررویے میں مکمل طورپریورپی تھے۔ یہ نوآبادیاں میسا چوسٹس سے لے کرارجنٹائن تک خودمختارعلاقے بن گئے۔
اس صورت حال نے نوآبادیاتی طاقتوں کوفوجی طاقت کے موثر استعمال پرمجبورکردیا تاکہ مختلف مقامات پرنئی سلطنتیں قائم کی جاسکیں۔
اس دوران روسی سلطنت میں نہ تواس کے سائیبیریائی صوبوں نے اورنہ ہی تازہ تازہ مصالحت پرآمادہ ہونے والے علاقوں آج کے یورکرین اوربیلاروس نے علیحدگی کی کوشش کی۔
اس لئے جب برطانیہ اورفرانس اور ایک بعد ایک کرکے دومختلف سلطنتوں کے مالک تھے توپہلی اوردوسری روسی سلطنت(پہلی آبادکاروں کے ذریعے اوردوسری فوجی کارروائی سے قائم کی گئی سلطنت) اس طرح ایک دوسرے کے اندرسمودی گئیں جس طرح روس کی روائتی میٹری اوشکا گڑیا ایک دوسرے کے اندررکھی جاتی ہے۔
روس اورمغرب کی سامراجی تاریخ میں اس بنیادی فرق سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ یورپی طاقتیں کس طرح ختم ہوئیں جہاں وہ آج ہیں۔
خاص طورپرسوویت یونین کی تحلیل پرغورکرتے ہیں۔ چھوٹی موٹے فرق کے ساتھ اس وقت روسی سرحدیں وہی دکھائی دیتی ہیں جوسترھویں صدی کے وسط میں تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب روس اورمغربی طاقتوں کی پہلی سلطنتیں تقریباً مکمل تھیں۔ اس لئے میں یہ کہوں گا کہ سوویت یونین کا خاتمہ بڑی حد تک وہی عمل تھا جودوسری جنگ عظیم کے خاتمےاور1970 کی دہائی کے درمیان عالمی سطح پر وقوع پذیرہوا۔ اس عمل کوعام طورنو آبادی نظام کا خاتمہ کہا جاتا ہے۔
(مجھے یہ لفظ پسند نہیں کیونکہ میرے خیال میں اس وقت یورپ کی جانب سے سمندرپارتصرفات نوآبادیاں نہیں بلکہ فوجی قبضہ تھے) لیکن چونکہ اس عمل سے برطانیہ اورفرانس بالآخرسلطنتوں سے محروم ہوگئے۔ روس نے پہلی سلطنت برقراررکھ کردوسری کھو دی لیکن اس کی مستقبل میں دوبارہ توسیع کی خواہش برقرارہے۔
یہاں تاریخ کی طرف واپس آتے ہیں۔ روسی اورمغربی سلطنتیں قیام کے وقت اورطریقہ کارکے اعتبارسے ایک جیسی لیکن پس پردہ موجود عناصرکے لحاظ سے مختلف تھیں۔
مغربی یورپ میں بڑی قومیں نوآبادیاتی مہم جوئی شروع کرنے سے پہلے(بلاشبہ اس وقت کی بادشاہتیں) واضح قومی شناخت حاصل کرچکی تھیں۔ یورپ کی سب سے قدیم ریاست پرتگال 1143 سے مکمل خود مختارتھی۔اس نے سب سے پہلے سمندرپارتوسیع کا آغازکیا۔
فرانس 1453 میں برطانیہ کے ساتھ امن اور1482 میں برگنڈی کی شکست کے بعد پوری شان وشوکت کے ساتھ ابھرا۔ سپین 1469 میں متحد ہوگیا۔ 1603 میں سکاٹ لینڈ اورآئرلینڈ کی شمولیت کے بعد برطانیہ شاہ جیمزکی قیادت میں ایک ریاست کے طورپرسامنے آیا۔
ہم اس دورکوقبل ازسامرجی کے طورپردیکھ سکتے ہیں۔ اس وقت تک پرتگالی،ہسپانوی،فرانسیسی اوربرطانوی سمندرپارتوسیع کا ارادہ کرچکے تھے۔ ان کا اپنا قومی اتحاد کسی سوال سے بالاترتھا۔
اس کا مطلب ہے کہ جب ان کی پہلی سلطنتیں 18 ویں صدی کے اختتام اور19 صدی کے آغازپرختم ہوگئیں لیکن ان کی سامراجی بنیادوں کی قومی شناخت کوبہت کم نقصان پہنچا۔
نتیجے کے طورپرآگے چل کرویسی ہی برطانوی اورفرانسیسی سلطنتیں وجود میں آئیں جیسی پہلی تھیں۔
روس میں واقعات دوسری شکل میں رونماہوئے۔ ماسکواس وقت چھوٹی سے آبادی تھا جب کیون روس(قرون وسطیٰ میں سلاوی اورفینک گروپس کا اتحاد) 11 ویں اور12 ویں صدی میں پوری طاقت پکڑچکا تھا۔ جب الگ کی گئی روسی شہزادوں کی حکومتوں نے منگولوں سے آزادی کی جدوجہد شروع کی توماسکوطاقتورہوگیا۔
اس وقت تک وسیع وعریض ملک جسے آج ہم روس کہتے ہیں قومی یا نیم قومی ہی سہی کسی اعتبارسے اتنا متحد نہیں تھاکہ جتنا رجعت پسند عقیدے اوراس سوچ کہ سقوط قسطنطنیہ کے بعد وہ حقیقی مسیحی عقیدے کا روشن میناربن چکا ہے۔
روسی شہزادوں کی حکومتوں نے 1480 میں منگول تسلط کا خاتمہ کردیا بعد میں ایک صدی سے کم عرصے میں وولگا کے علاقے میں منگول حکومتیں تباہ کرنے کے بعد مشرق میں توسیع کا آغازکیا۔
انھیں بحرالکاہل کے ساحلوں تک پہنچنے میں مزید سوبرس لگے۔ مغرب میں وہ روس اوربیلاروس کی موجودہ سرحد سے آگے بڑھنے کے قابل نہیں تھے۔
روس جیسا کہ اس کے نام سے ظاہرہے 17 ویں صدی کے وسط میں بڑے حصے پرپھیل گیا۔ریاست روس کے تین بڑے مراکزنوف گراد،کیف اورولادیمیرپرماسکوسے حکومت کی جانے لگی۔
اس صورت حال کی خاص بات یہ ہے کہ روسی ریاست سلطنت بن کرابھری جوایک سلطنت کی طرح چلائی جارہی تھی جس میں کئی دوسری سامراجی عناصرشامل تھے۔ دوسرے لفظوں میں خود روس ایک سلطنت کے طورپرسامنے آیا جوروس نے نہیں بلکہ ماسکونے تعمیرکی تھی۔ اس لئے پہلی روسی سلطنت ماسکوکی سلطنت تھی روس کی نہیں۔
ماسکوکی تعمیرکردہ سلطنت روس کہلائی اوراپنے آپ کو17 ویں اور18 ویں صدی میں مستحکم کیا۔ مشرق میں آبادکاروں کی نوآبادیوں اورمغرب میں اصلی روسی سرزمین پرتسلط مضبوط بنایا۔
جونہی استحکام کا یہ عمل مستحکم ہوا روس نے قریبی زمینوں کوفوجی طورپرفتح کرنا شروع کردیا۔ فوجی فتوحات شمال میں فن لینڈ سے جنوب میں قفقازتک،مغرب میں پولینڈ سےجنوب مشرق میں بخارا اور قوقند تک پھیل گئیں۔ اس طرح دوسری روسی سلطنت ایک ایسی سلطنت بن گئی جوروس نے بنائی تھی ماسکونے نہیں اورایک خود بخود مکمل ہونے والے چکرمیں روسی قومی شناخت کے تصورکومضبوط بنایا۔
تمام مغربی یورپی مثالوں کا سامراجی مرکزشروع سے آخرتک ایک ہی رہا(برطانیہ،فرانس،سپین وغیرہ)۔
روس کے معاملے میں مرکزماسکوسے روس منتقل ہوگیا۔ اس لیے 20 ویں صدی میں صرف سٹالن کی خواہش پرسوویت یونین کوسوشلسٹ جمہوریاوں میں تقسیم نہیں کیاگیا بلکہ روس کی تمام تاریخ یہی تھی۔ یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس کا وسیع وعریض ملک جمہوریہ روس اورتمام دوسری جمہوریاوں پرمشتمل تھا۔ جمہوریہ روس کی سرحدیں وہی تھیں جوپہلی روسی سلطنت کی تھیں جبکہ دوسری جمہوریاوں نے دوسری روسی سلطنت کے فوجی قبضوں کی نقل کی۔
یہ بات قابل ذکرہے کہ یوایس ایس آرکے دورمیں جمہوریہ روس میں 1989 کی مردم شماری کے مطابق روسیوں کی تعداد آبادی کا 81.5 تھی۔ کسی بھی دوسری سوویت جمہوریہ میں روسیوں کی سادہ اکثریت بھی نہیں تھی۔
یہ تاریخ اورآبادی کا تناسب دواہم عناصرتھے جو1989 میں سوویت یونین کی تیزی سے تحلیل کا سبب بنے۔ ان تمام باتوں سے تین اہم تنائج نکالے جاسکتے ہیں۔
پہلا یہ کہ آج کا روس سلطنت ہے اورسلطنت رہے گا کیونکہ اس کے پاس پیچھے ہٹنے کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ روس 1991 میں اپنے مقبوضات کھونے کے بعد علاقائی سطح پر ایسی شکل کی جانب لوٹ گیا تھا جس میں اس نے 18 ویں صدی کے آخرمیں توسیع کی آخری لہرکا آغازکیا تھا۔
بظاہرایسا دکھائی دیتا ہے کہ تمام دوسری یورپی سلطنتیں 20 ویں صدی میں نوآبادیوں کے خاتمے کے دوران ان علاقائی حدود میں دھکیل دی گئی تھیں جن سے وہ شروع ہوئی تھیں۔
مغربی سامراجیت کے مراکز قومی ریاستیں تھیں اورہمیشہ رہی ہیں(ان میں بعض جمہوریتیں اورجمہوریائیں بھی) اڑھائی سوبرس پہلے جب روس نے پھیلنا شروع کیا وہ بذات خود ایک سلطنت تھا۔
روسی یورپی لوگ ہیں جوبڑی یورپی اقداراوراصولوں کے مالک ہیں لیکن اس کے باوجود روس ایک ملک کے طورپرابھرا۔ ایک قوم کے طورپرنہیں جس کی بنیاد اقدارپرہو،ایک سلطنت کے طورپرابھرا جوطاقت اورتوسیع کی پیاسی ہو۔
اگرایک قومی ریاست سلطنت قائم کرے اورناکام ہوجائے تووہ(امید کے ساتھ بہتر) قومی ریاست کی طرف واپس آجاتی ہے جوسامراجی خواہشات سے بالاترہوتی ہے۔ لیکن اگرایک سلطنت نسبتاً ایک بڑی سلطنت بناتی ہے اورناکام رہتی ہے توایک مشتعل،کھوئے ہوئے مقام کی متلاشی اورجارح سلطنت کے طورپردوبارہ سامنے آتی ہے—بالکل اس طرح جس طرح روس اس وقت دکھائی دے رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا نتیجہ جومیں نے نکالا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں امید نہیں کرنی چاہیے کہ روس کے ٹکڑےہوجائیں گے جیسا کہ بہت سے مبصرین کہہ رہے ہیں۔ اگرچہ روس میں کئی قومیں آباد ہیں روسی ملک کے تقریباً ہرحصے میں آبادی کا بڑا حصہ ہیں۔
میں کسی طورنہیں سمجھتا کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہوکہ حقیقی معنوں میں ایک مستحکم،ثقافتی اعتبارسے ایک جیسا ملک ٹوٹ کرحصوں میں تقسیم ہوجائے بشرط یہ کہ جنگ نہ ہوجائے (یہ ایک ایسا امکان ہے جس کیلئے کوئی نشانی نہیں ہے)۔
ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک ہی لسانی گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد یا لوگ مختلف ملکوں میں آباد ہوں لیکن ایسا صرف فوجی جنگوں کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔(مشرقی اورمغربی جرمنی،شمالی اورجنوبی کوریا،شمالی اورجنوبی ویت نام،براعظمی چین اورتائیوان)
کوئی غیرملکی طاقت روس کواس وقت فوجی شکست دے کرٹکڑوں میں تقسیم نہیں کرسکتی۔
مزید یہ کہ بیرونی طاقتوں کا خوف آج روس میں اتنا زیادہ ہے کہ ملک کے وہ حصے جن میں زیادہ خود مختاری کا رجحان موجود تھا (جیسا کہ مشرقی سائبیریا یا مشرق بعید) وہاں یہ رجحان اب ختم ہوگیا ہے۔
روس کے ان حصوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی وجہ سے پائی جانے والی بے چینی سامراجی مرکزکے استحصال کی وجہ سے بڑھتے دباؤسے پیدا ہونے والی تشویش سے زیادہ ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظرکہ روس معاشی اورسیاسی اعتبارسے کمزورترہورہا ہے کسی بھی غیرملکی کی یہ امید کہ روس ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا مرتی جارہی ہے۔
حتمی نتیجہ بہت اہم ہے اوروہ یہ ہے کہ ہربات اپنی جگہ لیکن روسی فیڈریشن کے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں بڑی کمزوری ہے۔
اس فیڈریشن میں اب بھی بہت سے علاقے موجود ہیں جواس کے لیے مکمل طوراجنبی ہیں۔
یہ علاقے جوسلطنت سازی کے پہلے دورکے بجائے دوسرے دورمیں حاصل کئے گئے تھے۔
یہ علاقے شمالی قفقاز جس کا 19 ویں صدی کے وسط میں خونیں جنگوں کے نتیجے میں روس کے ساتھ الحاق کیاگیا تھا اورمنگولیا کی سرحد پرواقع جمہوریہ تیووا ہیں جو پہلی بار1944 میں سوویت یونین کا حصہ بنا۔
شمالی قفقازکی زمینیں کسی بھی طرح روسی نہیں ہیں۔ آج روسی جمہوریہ انگشتیا میں لسانی روسی،یوکرینی اوربیلاروسی آبادی کا کل حصہ 0.9 ہے۔ اس کے مقابلے میں دوردرازکے کرغزستان میں جو وسطی ایشیامیں خود مختارملک ہے وہاں لسانی روسی،یوکرینی اوربیلاروسی آبادی چھ فیصد کے قریب ہے۔
موجودہ روس کے یہ حصے دوسری سلطنت کے عناصرہیں جو تاریخی غلطی سے پہلی سلطنت میں شامل کئے گئے تھے۔ حقائق خاصے مختلف ہیں۔1990 کے آغازمیں جب چیچنیا نے روسی حکومت کے خلاف بغاوت کی توسمجھا گیا کہ دوسری علاقائی جمہوری ریاستیں اس کی تقلید کے لیے تیاربیٹھی ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔
اب روس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے فوجی مقبوضات پردوبارہ کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مقامی خان اورامیرحضرات کو بے شمارخراج تحسین پیش کرتا ہے۔
روسی سلطنت کی یہ باقیات کسی مرحلے پرالگ ہوجائیں گی۔
خلاصہ یہ کہ روس ایک منفرد ملک ہے۔ اسے دوسری یورپی سلطنتوں پربالادستی حاصل نہیں بلکہ وہ ان سے قطعا مختلف ہے۔ یہ اختلافات نظراندازکئے جائیں نہ ان کا انکارکیا جانا چاہیے۔
روس کی یورپی فطرت اورتاریخ کوجانچنے کے لیے اس پرکسی غصے اورتعصب کے بغیرنظرڈالی جائے تاکہ سمجھا جا سکے کہ مستقبل میں اس کی جانب سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
روس آخری قائم سلطنت ہے --اورایک ایسی سلطنت جومغربی سلطنتوں سے زیادہ دیر قائم رہنے والی ہے اگرچہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔ روس پرتنقید کے بجائے اس پرتحقیق کی ضرورت ہے۔