(حیدر آباد دکن) سنہ 1933 میں بنگالی زبان کے مشہور شاعر و ادیب رابندر ناتھ ٹیگور سید محمد مہدی المعروف نواب مہدی نواز جنگ کی دعوت پر حیدرآباد دکن آئے۔ آخر الذکر اُس وقت نظام دکن نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی ایگزیکٹو کونسل کے سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔
مہدی نواز جنگ نے ٹیگور کو بنجارہ ہلز پر واقع اپنے گپھا نما مکان ’مہدی نواز جنگ دیوڑھی‘ میں ٹھہرایا۔ اس مکان کو انہوں نے محض تین سال قبل یعنی سنہ 1930 میں تعمیر کرایا تھا۔
’مہدی نواز جنگ دیوڑھی‘ آج بنجارہ بھون کہلاتی ہے۔ یہ مکان اس لحاظ سے انوکھا ہے کیوں کہ یہ حیدرآباد دکن میں پائے جانے والے گرینٹ پتھروں سے بننے والا پہلا مکان ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور اس مکان کی بناوٹ، بنجارہ ہلز پر ہر سو پھیلے دیو قامت پتھروں اور سرسبز جھاڑیوں کو دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ ’کوہستان‘ کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم لکھ ڈالی۔
ٹیگور کو مہدی نواز جنگ کا گپھا نما مکان اور بنجارہ ہلز کے پتھر اس قدر پسند آئے کہ وہ یہ تک کہہ بیٹھے کہ اگر ان پر اپنے تعلیمی ادارے ’شانتی نکیتن‘ کا انتظام و انصرام دیکھنے کی ذمہ داری عائد نہ ہوتی تو وہ ہمیشہ کے لیے یہیں سکونت اختیار کرتے۔
جن پتھروں نے رابندر ناتھ ٹیگور کا دل چرا لیا تھا وہ سارے دکن سطح مرتفع یا دکن پلیٹو میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم شہر میں رہائشی سہولیات کی بڑھتی ہوئی طلب اور مختلف انواع کے دفاتر کے ہر سو بچھنے والے جال کے سبب ان پتھروں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔
ڈائنوسار اور سلسلہ کوہ ہمالیہ سے بھی قدیم
محمد صبغت اللہ خاں ’حیدرآباد دکن: السٹریٹڈ‘ نامی کتاب کے شریک مصنف ہیں۔ وہ حیدرآباد کی تاریخ پر لکھنے کے علاوہ ’دکن آرکائیو‘ کے بینر تلے ہیریٹیج واک بھی کراتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حیدرآباد دکن کی پہاڑیوں اور کھردرے میدانی علاقوں میں موجود یہ پتھر ڈائنوسار اور سلسلہ کوہ ہمالیہ سے بھی بہت قدیم ہیں۔ ’یہ پتھر ہماری قدرتی ثقافت کا اہم حصہ ہیں۔ آپ کو یہ صرف دکن پلیٹو میں ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ ان کی عمر 25 سے 45 ارب سال پرانی ہے۔‘
محمد صبغت اللہ خاں کا کہنا ہے کہ مختلف شکلوں کے یہ پتھر بنیادی طور پر آتش فشاں سے نکلنے والے لاوے کی چھینٹوں سے بنے ہیں۔
’اربوں سال پہلے یہ دنیا گرم اور مائع کی شکل میں تھی۔ اس دوران آتش فشاں سے نکلنے والے لاوے کی چھینٹیں زمین پر پڑیں۔ جب یہ چھینٹیں سالوں بعد رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے سبب ٹھنڈی پڑ گئیں تو انہوں نے ان پتھروں کی شکل اختیار کی۔
’پھر جب زمین پر دھوپ پڑنے، ہوا چلنے اور بارش ہونے کا سلسلہ جاری رہا تو ان پتھروں کی شکل بھی تبدیل ہوتی رہی۔ یہ پتھر مختلف اقسام کی شکل اختیار کر گئے۔ آج کہیں کوئی پتھر مینڈک تو کہیں کوئی پتھر مشروم کی شکل کا ہے۔ شیر اور الو کی شکل کے پتھر بھی نظر آتے ہیں۔‘
محمد صبغت اللہ کہتے ہیں کہ دکن پلیٹو میں زیادہ تر قلعے ثابت پتھروں یا پتھریلے پہاڑوں پر ہی بنائے گئے تھے تاکہ حملہ آوروں کے لیے ان پر چڑھنا مشکل ہو۔
’بھونگیر قلعہ ایک مونولیتھک راک یا یک سنگی پتھر (ایک ثابت پتھر) پر بنا ہے۔ حیرت انگیز تعمیر کی وجہ سے آج کے زمانے میں بھی اس پر چڑھنا بہت مشکل ہے۔ بھونگیر کے قلعے کو مغربی چالوکیہ کے حکمراں ٹی وکرمادتیہ نے دسویں صدی عیسوی میں تعمیر کروایا تھا۔ اسی طرح گولکنڈہ قلعے کی تعمیر میں بھی ان پتھروں کا استعمال کیا گیا تھا۔‘
محمد صبغت اللہ خاں مزید کہتے ہیں کہ دکن کے پتھر اور پتھریلی پہاڑیاں شہر کی ماحولیات کے لیے بھی کافی اہم ہیں۔
’میں جب خواجہ گوڑہ کے پہاڑوں پر پہلی بار چڑھا تو میں وہاں کے ماحولیاتی نظام کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا۔ مجھے وہاں پتھروں کے بیچوں بیچ پانی کے چشمے اور مختلف اقسام کے مشروم نظر آئے۔
’یہ پتھر آج بھی ندی نالوں اور تالابوں کو بارش کے پانی سے سیراب کرنے کا کام کرتے ہیں۔ یعنی جب پہاڑوں پر بارش ہوتی ہے تو ان پتھروں کی مدد سے یہ پانی جھرنوں کی شکل اختیار کر کے آبی ذخائر میں جاتا ہے۔‘
’دا سوسائٹی ٹو سیو راکس‘ حیدرآباد دکن میں پتھروں اور پتھریلے پہاڑوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک سرگرم اور معروف تنظیم ہے۔ یہ تنظیم پتھروں کے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے ہر ماہ کی تیسری اتوار کو ’راک واک‘ کا اہتمام کرتی ہے۔
اس تنظیم کی صدر پروفیسر فاطمہ علی خاں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حیدرآباد دکن میں پائے جانے والے پتھر دنیا کے قدیم ترین پتھروں میں سے ہیں اور اپنی مخصوص بناوٹ کی وجہ سے گرینٹ پتھر کہلاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آپ کو یہاں مختلف شکل کے چھوٹے اور دیو قامت پتھر دیکھنے کو ملیں گے۔ ان پتھروں نے لاکھوں سال کے ویدرنگ پراسس یا موسمیاتی عمل کی وجہ سے ہی یہ شکلیں اختیار کی ہیں۔ ہم تو ان پتھروں کو بچپن سے دیکھتے آئے ہیں لیکن جو لوگ باہر سے آتے ہیں وہ ان پتھروں کی بناوٹ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔‘
ہیریٹیج کیوریٹر ڈاکٹر حسیب جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں تشویش ظاہر کی کہ شہر کی ترقی اور توسیع کے چکر میں قدیم ترین پتھر اپنا وجود کھو رہے ہیں۔
’سب لوگ درختوں کی کٹائی کی بات کرتے ہیں۔ مگر میرا ماننا ہے کہ ایک درخت کاٹنے پر دس نئے درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ جنگل پھر سے اگائے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ایک پتھر کو ختم کرتے ہیں تو اس کو واپس نہیں لا سکتے۔‘
پتھروں اور پتھریلے پہاڑوں پر عبادت گاہیں
پروفیسر فاطمہ علی خاں کہتی ہیں کہ پتھروں اور پتھریلے پہاڑوں پر درگاہیں، عاشور خانے (حیدرآباد دکن میں امام بارگاہوں کو عاشور خانے کہا جاتا ہے) اور مندر بننے سے ان جگہوں کو تحفظ مل گیا ہے۔
’یہاں مولا علی علاقے میں کوہ مولا علی کے نام سے ایک مشہور عاشور خانہ ہے جو ایک مونولیتھک راک پر قائم ہے۔ اس کے روبرو ایک مونولیتھک راک پر قدم رسول اور کوہ بتول کے نام سے عاشور خانے واقع ہیں۔ اسی طرح فخر الدین گٹہ، پہاڑی شریف، بڑا پہاڑ اور میر مومن کی پہاڑی کی درگاہیں پتھریلے پہاڑوں پر بنی ہیں۔ کئی مندر بھی ایسی جگہوں پر بنائے گئے ہیں۔
’یہاں کے لوگ پچھلی کئی صدیوں سے ان جگہوں پر جا کر عبادت کرتے ہیں یا روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ پتھروں پر عبادت گاہیں بننے کا بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ چھیڑ سکتی ہے نہ لالچی عناصر۔‘
ڈاکٹر حسیب جعفری کا کہنا ہے کہ حیدرآباد دکن میں پتھر اور پتھریلے پہاڑوں پر درگاہیں بننے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مقامات ماضی میں یہاں آنے والے ولیوں کی رہنے کی جگہیں تھیں۔
’وہ ان جگہوں پر رہنے کو اس لیے ترجیح دیتے تھے کیوں کہ انہیں یہاں سکون ملتا تھا۔ ان پتھروں اور پتھریلے پہاڑوں کے نیچے درجہ حرارت سال بھر یکساں رہتا تھا۔‘
پتھروں کے تحفظ کے لیے سرگرم جرمن خاتون
جرمن خاتون فراوکے قادر پچھلے 25 برسوں سے حیدر آباد دکن میں پتھروں اور پتھریلے پہاڑوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ ’دا سوسائٹی ٹو سیو راکس‘ کی بانی رکن اور سیکرٹری ہیں۔
پروفیسر فاطمہ علی خاں نے بتایا کہ جب فراوکے قادر ڈھائی دہائی قبل حیدر آباد دکن آئیں تو انہیں یہاں کے ان پتھروں سے بے حد لگاؤ ہو گیا۔
’لیکن فراوکے کو یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ ان پتھروں کو دھماکہ خیز مواد سے بڑی بے دردی کے ساتھ توڑا اور ہمیشہ کے لیے نابود کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ان پتھروں کے تحفظ کے لیے مہم چلائی اور لوگ جڑتے گئے۔
’ان بیش قیمتی پتھروں کو کوئی اکیلا انسان بچا نہیں سکتا بلکہ ان کو بچانا ہر ایک فرد کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ فراوکے اور ہم لوگ چاہتے ہیں کہ حیدر آباد کے جس علاقے میں بھی یہ پتھر زیادہ تعداد میں موجود ہیں اس علاقے کو ایک پارک میں تبدیل کیا جائے تاکہ لوگ آ کر قدرت کے کرشموں کو دیکھ سکیں۔
’ہماری تنظیم پچھلے 15 سال سے فخر الدین گٹہ کو نیچر پارک میں تبدیل کرانے کے لیے لڑ رہی ہے۔ یہ علاقہ دلکش پتھروں، سرسبز جنگلی جھاڑیوں اور جانوروں سے بھرا پڑا ہے۔ شہر میں اس جیسے سینکڑوں پارکس بنائے جا سکتے ہیں۔‘
’دا سوسائٹی ٹو سیو راکس‘ ایسے اداروں کو ایوارڈ سے نوازتی ہیں جو اپنے احاطے میں بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے وقت ان پتھروں کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں۔
’حالیہ دنوں میں ہماری تنظیم نے گچی باؤلی میں واقع اردو یونیورسٹی کو ایوارڈ سے نوازا ہے۔ اس یونیورسٹی نے گرینائٹ پتھروں کو اپنے کیمپس میں نہ صرف بچائے رکھا ہے بلکہ مصنوعی لائٹنگ سے سجایا بھی ہے۔‘
دستاویزی فلم ’اددر کوہ نورز‘
اوما میگل اور ماہ نور یار خاں حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والی انڈپینڈنٹ فلم ساز ہیں۔ وہ شہر میں پائے جانے والے پتھروں پر ’اددر کوہ نورز: دا راکس آف حیدرآباد‘ کے نام سے دستاویزی فلم بنا رہی ہیں۔
ماہ نور یار خاں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس دستاویزی فلم کے لیے ان کی ٹیم نے دو سال تک تحقیق کی ہے۔
’تحقیق کے دوران ہمیں جن چیزوں کا علم ہوا اس میں ہندو دیوی رینوکا یللما کی کہانی بھی شامل ہے۔ رینوکا دیوی کو ان کا بیٹا مارنا چاہتا تھا۔ اس نے دکن میں پتھر کا روپ اختیار کیا۔ باقی جگہوں پر اس نے مچھلی، پانی اور دوسرے روپ اختیار کیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یللما کمیونٹی پتھروں کی پوجا کرتی ہے۔
’تحقیق کے دوران ہمیں کئی دوسری چیزوں کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ حیدرآباد کی کئی سڑکوں کے نام پتھروں کے نام پر ہیں جیسے پتھر گھٹی، پنجہ گٹہ، بنڈلہ گوڑہ اور پھسل بنڈہ۔‘
ماہ نور خاں کہتی ہیں کہ ’اددر کوہ نورز: دا راکس آف حیدرآباد‘ بنانے کا مقصد شہر کے جغرافیہ کا اٹوٹ انگ کی حیثیت رکھنے والے ان پتھروں کے متعلق آگاہی پیدا کرنا اور ان کے تحفظ کی کوشش کرنا ہے۔
’ہم شہر کی ترقی کے خلاف نہیں ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ حکومت، آر کیٹیکٹز اینڈ بلڈرز اور دیگر متعلقین ان پتھروں کا تحفظ یقینی بنائیں۔ ہمارا بھی مطالبہ ہے کہ ہر ایک علاقے میں ایک راک پارک اور شہر میں کم از کم ایک نیشنل پارک کا قیام عمل میں لایا جائے۔‘
ماہ نور خاں نے بتایا کہ دستاویزی فلم پر کام تکمیل کے آخری پڑاؤ میں ہے اور اسے اگلے ماہ یعنی فروری کے آخر تک ریلیز کیا جائے گا۔
’ہمیں اس دستاویزی فلم کی تیاری میں آٹھ سال لگ گئے۔ تاخیر کی سب سے بڑی وجہ فنڈنگ کی کمی تھی۔ رشتہ داروں اور دوستوں سے تھوڑے پیسے ملے ہیں۔ یہ فلم تین زبانوں دکنی، انگریزی اور تلگو میں بنائی جا رہی ہے۔ اس فلم میں اینیمیشن، قوالی اور ریپ سانگ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔‘
بھارت کا پہلا راک میوزیم
حیدرآباد دکن میں گذشتہ روز بھارت کا پہلا راک میوزیم قائم کیا گیا ہے۔ اس میں حیدرآباد سمیت بھارت کے مختلف حصوں سے لائے جانے والے 35 اقسام کے پتھر نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔
بھارت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پریس انفارمیشن بیورو کے ایک ترجمان کے مطابق راک میوزیم میں رکھے جانے والے پتھروں کی عمر 5.5 کروڑ سال سے 3.3 ارب سال ہے۔
’ان پتھروں کا تعلق حیدر آباد دکن کے علاوہ کشمیر، اڑیسہ، اتراکھنڈ، جھارکھنڈ، تمل ناڈو جیسی ریاستوں سے ہے۔ اس راک میوزیم کے قیام کا مقصد ان پتھروں کے متعلق کئی کم معلوم حقائق کے بارے میں لوگوں کو باخبر کرنا ہے۔‘