جب بھارتی شہر حیدرآباد دکن کے قطب اللہ پور کے رہنے والے روحان ارشد نے 22 نومبر 2018 کو اپنے ریپ گانے ’میاں بھائی‘ کو اپنے یوٹیوب چینل ’روحان ارشد آفیشل‘ پر اپ لوڈ کیا تو انہیں یہ بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ انہیں یہ گانا کچھ ہی ہفتوں میں شہرت کی بلندی تک لے کر جائے گا۔
بذات خود روحان ارشد کی جانب سے ’دکنی اردو‘ میں تحریر کردہ اس ریپ گانے کو ان کے یوٹیوب چینل پر اب تک 53 کروڑ سے زائد مرتبہ دیکھا گیا ہے۔ اسے نہ صرف بھارت اور مختلف ممالک میں مقیم بھارتیوں بلکہ پاکستان میں بھی خوب پسند کیا گیا تھا۔
حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی واجد اللہ خان کے مطابق اس ریپ گانے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہر میں ہر تیسرے شخص کے فون میں یہ گانا بجتا تھا اور پرانے شہر کے گلی کوچوں میں نوجوان اس گانے کی دھن پر رقص کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔
’اس گانے کی مقبولیت کی وجوہات میں دکنی اردو یا حیدرآبادی بولی کے مخصوص الفاظ کا استعمال، حیدرآباد کے مشہور پکوانوں بریانی و نہاری اور مختلف علاقوں جیسے قطب اللہ پور، ملک پیٹ، تارناکہ اور ملے پلی کا ذکر شامل ہے۔‘
23 سالہ روحان ارشد نے حال ہی میں یہ کہتے ہوئے موسیقی چھوڑنے کا اعلان کیا کہ ’میوزک حرام ہے لہٰذا میں اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ رہا ہوں۔‘
ان کے بعد ’حیدرآبادی یا دکنی فلم انڈسٹری‘ کے معروف اداکار عدنان ساجد خان عرف گلو دادا نے بھی اداکاری چھوڑنے کا اعلان کیا تاہم ان کے اس فیصلے کی وجہ روحان ارشد سے مختلف ہے۔
حیدرآباد کے سینیئر صحافی ایف ایم سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ روحان ارشد پہلے ایسے حیدرآبادی شوبز شخصیت نہیں ہیں جنہوں نے اسلام کا حوالہ دے کر موسیقی چھوڑی ہے۔
’ہو سکتا ہے کہ روحان ارشد کو موسیقی چھوڑنے کا مشورہ کسی مولانا نے دیا ہو، لیکن وہ ایسا کرنے والے پہلے حیدرآبادی مسلمان نہیں ہیں۔ ایک زمانے میں اسد یہاں کے ایک مشہور گلوکار تھے۔ ان کے نام پر رویندرا بھارتی آڈیٹوریم میں مہنگی مہنگی ٹکٹیں بکتی تھیں۔ انہوں نے بھی اچانک انڈسٹری چھوڑی اور برقع بنانے و فروخت کرنے کی دکان کھولی۔ ان کے سابقہ کیریئر کی وجہ سے ان کے برقعے اتنے مشہور ہو گئے تھے کہ لوگ ان کے گھر جا کر اپنی پسند کے برقعے بنواتے تھے۔‘
ایف ایم سلیم کے مطابق: ’کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کئی مقامی مسلمان شوبز انڈسٹری میں آئے اور پھر ایک وقت میں یہ کہہ کر انڈسٹری چھوڑ کر چلے گئے کہ دین اسلام یہ کام کرنے سے روکتا ہے، مگر زیادہ تر لوگوں نے انڈسٹری مشہور ہونے کے بعد ہی چھوڑی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد مصطفیٰ علی سروری حیدرآباد دکن میں واقعے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر تعینات ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کسی مسلمان فنکار کے شوبز انڈسٹری چھوڑنے کے فیصلے پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ ان کے بقول ’ایسے فیصلے ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔‘
تاہم محمد مصطفیٰ علی سروری کا کہنا ہے کہ چوں کہ فلم اور موسیقی کی انڈسٹری میں مسلمانوں کا تناسب اچھا خاصا ہے، لہٰذا انہیں دوسرے شعبوں میں اپنی موجودگی بڑھانے کی طرف دھیان دینا چاہیے۔
’فلم اور موسیقی کی انڈسٹری میں اپنا کیریئر بنانے کے چکر میں کافی تعداد میں مسلمان نوجوانوں نے اپنا کیریئر تباہ کیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ مسلمان نوجوان زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنی موجودگی بڑھانے پر دھیان دیں تو زیادہ اچھا ہے۔‘
شائقین مایوس
جب روحان ارشد نے موسیقی چھوڑنے کا اعلان کیا تو انہوں نے ان سے ترغیب حاصل کرکے ’ریپ موسیقی‘ شروع کرنے والے نوجوانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بھی اپنا راستہ بدل لیں۔
ان کا اپنی ایک ویڈیو میں کچھ یوں کہنا تھا: ’میں ہمیشہ کے لیے میوزک انڈسٹری کو چھوڑ رہا ہوں۔ میں آج کے بعد میوزیکل ویڈیوز نہیں بناؤں گا۔ میں جانتا تھا کہ اسلام نے میوزک کو حرام قرار دیا ہے لیکن جنون کی وجہ سے اس انڈسٹری کے ساتھ جڑ گیا تھا۔‘
’میں میوزک انڈسٹری کی وجہ سے ہی مشہور ہوا ہوں۔ مجھے اللہ پر بھروسہ ہے کہ وہ مجھے کمائی کا حلال ذریعہ عطا کریں گے۔ یوٹیوب چینل چھوڑ نہیں سکتا کیوں کہ اس میں میری کافی محنت لگی ہے۔ جو نوجوان مجھے دیکھ کر میوزک انڈسٹری میں آئے ہیں ان سے بھی میری گزارش ہے کہ وہ بھی اپنا راستہ بدل لیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے حیدرآباد دکن کے پرانے شہر میں کئی نوجوانون سے بات کی۔ وہ روحان ارشد اور گلو دادا کے فیصلے سے ناخوش اور مایوس نظر آئے۔
محمد اکرم نامی ایک نوجوان کا کہنا تھا: ’روحان ارشد کے ریپ سانگ نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی تھی۔ دنیا بھر میں پھیلے اردو اور ہندی جاننے والوں کو حیدرآبادی بولی سے پیار ہو گیا تھا۔ ان کے اچانک میوزک چھوڑنے کے فیصلے نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے۔
’ہمارے پاس یہاں اپنی فلم انڈسٹری ہے جس کو حیدرآبادی فلم انڈسٹری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے بینر تلے یہاں سنہ 2005 سے اب تک کم از کم دو درجن مزاحیہ فلمیں بنائی گئی ہیں۔ نہ جانے کیوں یہ انڈسٹری زوال پذیر ہو گئی ہے کہ اس کے ساتھ وابستہ عدنان ساجد اور مست علی جیسے اداکار بریانی اور حلیم بیچنے لگے ہیں۔‘
عدنان ساجد کیا کہتے ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے عدنان ساجد خان سے ’حیدرآبادی فلم انڈسٹری‘ چھوڑنے کی وجہ کے متعلق پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی فلمیں پچھلے پانچ سال سے باکس آفس پر لگاتار فلاپ ہو رہی تھیں اور وہ اب نہیں چاہتے کہ ان کی وجہ سے کسی پروڈیوسر کا مزید نقصان ہو۔
’انڈسٹری کے حالات بہت خراب ہیں۔ پچھلے پانچ سال سے یہ فلمیں نہیں چل پا رہی ہیں۔ فلم بنانے پر خرچ کیے جانے والے پیسے بھی واپس نہیں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے حیدرآبادی فلموں میں کام نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
’ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے لیے میرا فیصلہ اچانک یا جلد بازی میں لیا جانے والا فیصلہ ہو لیکن میں ایسا کرنے کے بارے میں پچھلے پانچ سال سے غور کر رہا تھا۔ ہر پروڈیوسر کا نقصان ہو رہا تھا۔ میں کب تک نقصان میں چلنے والی فلم انڈسٹری کا حصہ رہ سکتا تھا؟ میں نہیں چاہتا کہ ایسی فلم میں کام کروں جس کے پروڈیوسر کو نقصان ہو۔‘
تاہم عدنان ساجد عرف گلو دادا کا کہنا ہے کہ ان ہی فلموں سے معروف ہونے کی وجہ سے انہوں نے ’گلو دادا‘ کے نام سے حیدرآبادی بریانی کا کاروبار شروع کیا ہے۔
’اب میں زیادہ توجہ اپنے کاروبار پر ہی دے رہا ہوں۔ میرے کیریئر کی شروعات تو حیدرآبادی فلموں سے ہی ہوئی تھی لیکن افسوس ہے کہ پیسے واپس نہ آنے کی وجہ مجھے یہ انڈسٹری چھوڑنی پڑی ہے۔‘
عدنان ساجد ’حیدرآبادی فلموں‘ کے ’گولڈن پیریڈ‘ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’حیدرآباد میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یوٹیوبر بن گئی ہے۔ یہ یہاں کے لوگوں کو اتنا اچھا متن دے رہے ہیں کہ انہیں اب ہماری فلموں کا انتظار ہی نہیں رہتا۔
’پہلے یہ سب ذرائع نہیں تھے۔ لوگ حیدرآبادی فلموں کی ریلیز کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔ ہماری فلمیں کئی ہفتوں تک ہاؤس فل چلتی تھیں۔ لوگوں کو ٹکٹ بلیک میں بھی نہیں ملتے تھے۔
’کنارہ کشی اختیار کرنے سے پہلے مجھے ہر ہفتے کوئی نہ کوئی پروڈیوسر فون کرتا تھا کہ ہم ایسی فلم بنائیں گے۔ لیکن میں انہیں مشورہ دیتا تھا کہ آپ ایسی کسی فلم میں پیسے نہ لگائیں کیوں کہ یہ پیسے واپس نہیں آئیں گے۔ چوں کہ میں سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا لہٰذا میں ہی انڈسٹری سے اعلانیہ الگ ہو گیا۔‘
تاہم صحافی ایف ایم سلیم کا کہنا ہے کہ ’حیدرآبادی فلموں‘ سے لوگوں کی دوری کی وجہ اس انڈسٹری سے وابستہ لوگ ہی ہیں۔
’ان لوگوں نے فلموں کے معیار میں بہتری نہیں لائی۔ نئے آئیڈیاز اور نیا متن سامنے لے کر آتے تو شائقین اس طرح بے رخی اختیار نہیں کرتے۔ ان لوگوں نے پرانے اور گھسے پٹے موضوعات پر ہی فلمیں بنائیں جو ناکام ہوئیں۔‘