ایک عرصے تک فرانس کی آبدوز ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے کے بعد اب پاکستانی بحریہ نے 2015 میں چین سے آبدوزیں خریدنے اور ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس معاہدے کے تحت پاکستان کے بحری بیڑے میں آٹھ یوان کلاس چینی ساختہ آبدوزیں شامل کی جا رہی ہیں جو چینی ساختہ ہیں۔ پاک بحریہ کے ترجمان کے مطابق ان کو ’ہنگور کلاس‘ کا نام دیا جائے گا اور یہ 1971 کی جنگ میں حصہ لینے والی آبدوز ہنگور کے ورثے کو لے کر آگے چلیں گی۔
جنوبی ایشیا کی پہلی آبدوز ’غازی‘
1964 میں جب پاکستانی بحریہ میں جب ’غازی‘ شامل ہوئی تو پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک بن گیا جس کے پاس آبدوز موجود تھی۔
اس تاریخی آبدوز کا اصل نام ’ڈیابلو‘ تھا اور اسے پاکستان نے امریکہ سے خریدا۔ غازی تارپیڈو سے لیس تھی اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ سمندر کے نیچے بارودی سرنگیں بچھا سکتی تھی۔
ابھی ایک سال ہی گزرا تھا کہ اس آبدوز کو جنگ میں آزمانے کا موقع بھی آ گیا۔ 1965 کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران غازی کو ممبئی کے پاس تعینات کیا گیا اور یہ چھ ستمبر سے لے کر 23 ستمبر تک بھارت کے پانیوں میں موجود رہی۔
1971 کی جنگ کے دوران غازی خلیج بنگال میں پراسرار حالات میں تباہ ہو گئی۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اسے حادثہ پیش آیا تھا جب کہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس نے غازی کو تباہ کیا تھا۔
اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے 1974 میں پرتگال سے ڈیفنی کلاس آبدوز خریدی اور تاریخی وجوہات کی بنا پر اس کا نام بھی ’غازی‘ رکھا گیا۔
غازی کے جانشین
پاکستان کی دوسری آبدوز ’ہنگور‘ تھی جو فرانس سے خریدی گئی تھی۔ اس کے ساتھ شوشک اور مینگرو آبدوز بھی بحری بیڑے کا حصہ بنیں اور یہ دونوں بھی فرانسیسی ساختہ تھیں۔ اس کے بعد 1978 میں دو آگستا آبدوزیں خریدی گئیں جن کو ’حشمت‘ اور ’حرمت‘ کے نام دیے گئے۔
1965 کی جنگ کے بعد بھارت بھی تین آبدوزیں حاصل کر چکا تھا جو کلوری کلاس سب میرین تھیں۔
اس کے بعد فورتھ جنریشن دور شروع ہوا اس میں ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی پر زور دیا گیا۔ پاکستان نے فرانس سے تین 90 بی آبدوزوں کا معاہدہ کیا جس کے تحت پاکستان کی پہلی اپنی آبدوز ’خالد‘ فرانس میں بنی۔ اس کے بعد ’سعد‘ پاکستان میں اسمبل ہوئی اور پی این ایس ایم ’حمزہ‘ کو مکمل طور پر پاکستان میں بنایا گیا۔ یہ فورتھ جنریشن سب میرینز تھیں جن میں ایئر پروپلشن سسٹم اور کومبیٹ سسٹم نصب ہیں۔
یوں فرانس سے آبدوز بنانے کی ٹیکنالوجی پاکستان منتقل ہو گئی۔
اب پاکستان کے بحری بیڑے میں آٹھ یوان کلاس آبدوزیں شامل کی جا رہی ہیں جو چینی ساختہ ہیں۔ پاک بحریہ کے ترجمان کے مطابق ان کو ’ہنگور‘ کا نام دیا جائے گا اور یہ 1971 کی جنگ میں حصہ لینے والی آبدوز ہنگور کے ورثے کو لے کر آگے چلیں گی۔
پاکستان میں بنائے جانے والی ایک ہنگور کلاس آبدوز کو پاک بحریہ ’تسنیم‘ کا نام دے گی۔ ایڈمرل ر تسنیم ہنگور ڈے کے ہیرو ہیں ان کے نام سے یہ منسوب کی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈمرل ر تسنیم احمد ہنگور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب میرین کے بنیادی اصول بھی جنگی جہازوں کی طرح ہیں، اگر آپ کے پاس بنیادی معلومات ہیں اور آپ پرانی ٹیکنالوجی پر مہارت حاصل کر چکے ہیں تو نئی پر منتقل ہونا مشکل نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’غازی جنگ عظیم دوم کی امریکی آبدوز تھی، ہنگور فرانسیسی ساخت کی تھی اور اس کے بعد ہم ماڈرن ڈیزل سب میرین کی طرف منتقل ہوئے۔ جس طرح ٹرینگ تربیت حاصل کر کے منتقلی ہوئی، اسی طرح چینی آبدوز کے سلسلے میں بھی ایس او پیز فالو کیے جائیں گے۔ نئی چیزوں اور ٹیکنالوجی کا شامل ہونا خوش آئند ہے یہ ایک اہم اضافہ ہو گا۔‘
فرانس سے چین تک
اگر ہم فرانس سے چین کی طرف ٹیکنالوجی کی منتقلی کا جائزہ لیں تو پہلے پاکستانی سب میرین کا انحصار صرف فرانس کی ٹیکنالوجی پر تھا اب پاک بحریہ چین کی ٹیکنالوجی سے مستفید ہو گی۔ پاکستان ایئرفورس بھی چین کے اشتراک سے جے ایف 7 تھنڈر بنا چکی ہے، جن کا سکہ پوری دنیا میں مانا گیا ہے اور اب جے ٹین سی لڑاکا طیارے بھی پاکستان چین سے خرید رہا ہے۔
پاکستان بحریہ کی سب میرین فورس کو 57 سال ہو گئے ہیں یہ مسلح افواج کی تجربہ کار فورس ہے۔ اس میں آٹھ نئی آبدوزوں کے شامل ہونے سے اس کی استعداد میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔
شعبہ تعلقات عامہ پاک بحریہ کے مطابق معرکۂ نو دسمبر کو ہنگور کے 50 سال مکمل ہو گئے اس لیے اب سب میرین فورس میں نئی شامل ہونے والی آبدوزوں کو ہنگور کلاس کا نام دیا جا رہا ہے۔ ان میں سے چار آبدوزیں چین میں تیار ہوں گی اور پاکستانی عملہ وہاں تربیت لے گا، اس کے بعد چار سب میرینز کو کراچی شپ یارڈ اور انجینیئرنگ ورکس میں تیار کیا جائے گا۔ پاکستان میں چار آبدوزیں بننے سے ڈیفنس اور شپنگ انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔
بھارتی بحریہ کے پاس کتنی آبدوزیں ہیں؟
آبدوز کے معاملے میں بھارت کا پہلے انحصار روس اور جرمن ٹیکنالوجی کی طرف تھا اب وہ اپنی ٹیکنالوجی فرانس کی طرف منتقل کر رہا ہے۔
بھارت کے پاس کل 16 آبدوزیں ہیں جن میں ’اریہانت‘ نامی نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے لیس ایک آبدوز بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس بیلسٹک میزائل سب میرین بھی ہے۔
یوان کلاس کی نمایاں خصوصیات
لمبائی: 77.6 میٹر
بیم: 18.4 میٹر
ڈس پلیسمنٹ: 3600 ٹن
سپیڈ: 20 ناٹ
سیلرز کی گنجائش: 40
اسلحہ
اینٹی شپ میزائل نصب
تارپیڈو: چھ 533 ایم یم
تارپیڈو کی رفتار: 65 ناٹ
رینج: 45 کلومیٹر