یہ تحریر مضمون نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کریں
تقسیم ہند کو 75 سال گزرنے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ تاج برطانیہ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ڈائری اور تقسیم کی دستاویزات کو خفیہ رکھا ہوا ہے اور عوامی دباؤ اور عدالتی جنگوں کے باوجود اسے عوام تک رسائی نہیں دی؟
یہ بات بھی کتنی مضحکہ خیز ہے کہ دو آزاد مملکتوں کا قیام 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو ہو چکا ہے مگر کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کس کی سرحد کہاں ہے اور سرحدوں کا اعلان 17 اگست کو کیا جا رہا ہے۔
وائسرائے ملکہ وکٹوریہ کا پڑپوتا اور باؤنڈری کمیشن کا سربراہ برطانوی بادشاہ جارج ششم کا وکیل۔ ہندوستان کی آزادی کے ایکٹ کا اعلان برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے 20 فروری 1947 کو کیا تھا جبکہ برطانیہ کے بادشاہ جارج ششم نے 18 جولائی کو اس دستاویز پر دستخط کیے۔ ایکٹ کے تحت پاکستان اور انڈیا کی آزادی کا جو ٹائم فریم مقرر کیا گیا تھا وہ 30 جون 1948 تھا لیکن جو جلد بازی اس معاملے میں دکھائی گئی اس سے دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑا۔
آٹھ جولائی کو ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے آیا اور آٹھ اگست تک وہ یہ کام کر کے چلتا بھی بنا۔ باؤنڈری کمیشن کا سربراہ سیرل ریڈ کلف نہ تقسیم سے پہلے کبھی ہندوستان آیا تھا نہ بعد میں کبھی آیا، بلکہ اس سے ایک بار یہ پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ جانا تو درکنار اگر میں تقسیم کے بعد وہاں رک جاتا تو لوگ مجھے قتل کر دیتے۔
پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا معاملہ ہو یا مسئلہ کشمیر پر ہونے والی چار جنگیں، خون خرابے کا جو سلسلہ 75 سال پہلے شروع ہوا تھا وہ آج ایک ایٹمی جنگ کی صورت خطے پر منڈلا رہا ہے۔
خود ریڈ کلف نے بھی ا س حوالے سے کبھی کوئی کتاب نہیں لکھی البتہ مرنے سے دو سال قبل معروف بھارتی صحافی کلدیپ نائر نے 1976 میں ان کا انٹرویو کیا تھا جس میں ان سے پوچھا تھا کہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ ایوارڈ علاقائی قتل کے مترادف تھا اور ان کا کردار شرم ناک تھا جو اپنے ماتھے پر غیر جانبداری کا لیبل لگائے ہوئے تھے۔
اس پر سیرل ریڈ کلف نے جواب دیا کہ ’میرے پاس کوئی متبادل حل نہیں تھا کیونکہ میرے پاس وقت بہت مختصر تھا، اگر اس کام کے لیے مجھے دو تین سال دیے جاتے تو شاید میں زیادہ بہتر کام کر سکتا تاہم اگر کچھ لوگوں کی سیاسی خواہشات پوری نہیں ہو سکیں تو مجھے اس سے کوئی سرو کار نہیں تھا۔‘ کلدیپ نائر نے اگلا سوال کیا کہ لاہور رنجیت سنگھ کے دور سے سکھوں کو مرکز تھا آبادی اور جائیداد کے حوالے سے بھی لاہور سکھوں کا دارالحکومت تھا، آپ نے یہ پاکستان کو کیسے دے دیا۔‘
اس پر ریڈ کلف نے جواب دیا، ’میں لاہور انڈیا کو دینے ہی والا تھا کہ پھر مجھے خیال آیا کہ پاکستان کے پاس تو کوئی بڑا شہر ہی نہیں ہو گا کیونکہ میں پہلے ہی کلکتہ انڈیا کو دے چکا تھا۔‘
باؤنڈری کمیشن چیئرمین سیرل ریڈ کلف سمیت پانچ اراکین پر مشتمل تھا۔ دو رکن جسٹس (ر) دین محمد اور محمد منیر مسلم لیگ سے اور دو رکن مسٹر مہر چند مہاجن اور مسٹر تیجا سنگھ کانگریس کے نامزد کردہ تھے۔ ریڈ کلف نے ہندوستان پہنچتے ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی اور اس کے بعد انہوں نے 14 اور 15 جولائی کے دن لاہور میں گزارے۔
کمیشن کی معاونت کے لیے قائداعظم نے جو دو وکیل مسلمانوں کی جانب سے نامزد کیے تھے ان میں ایک سر ظفراللہ خان اور دوسرے سید محمد شاہ تھے جو پاکستان کے سابق وفاقی وزیر جسٹس (ر) سید افضل حیدر کے والد تھے۔ افضل حیدر لکھتے ہیں کہ ’قائداعظم پاکستان کے چھ صوبے چاہتے تھے جن میں بنگال، آسام، سرحد، بلوچستان، سندھ اور پنجاب شامل تھے۔ وہ کسی صورت بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے حامی نہ تھے مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کانگریس کی طرف سے بتا دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے مطالبے کو مانتے تو ہیں لیکن اس میں پنجاب کے 13 مشرقی اضلاع شامل نہیں ہوں گے جن میں مسلم اکثریتی اضلاع گورداس پور اور امرتسر بھی شامل تھے۔
’اس لیے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کانگریس اور مسلم لیگ کے قائل کر لیا تھا کہ کمیشن کا فیصلہ جو بھی ہو گا سب کو قابل قبول ہو گا۔ لگتا ہے کہ ریڈ کلف سے صرف اعلان کروایا گیا، اصل لکیریں لارڈ ماؤنٹ بیٹن پہلے ہی کھینچ چکا تھا۔‘
اس کی مثال دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’لاہور کے اجلاس کے بعد ریڈ کلف نے جسٹس دین محمد کو کہا کہ سرحدوں کا فضائی جائزہ لیتے ہیں، آپ بھی ساتھ چلیں، لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ذاتی جہاز بھیج دیا ہے۔ ایئرپورٹ پہنچے تو موسم کی خرابی کی وجہ سے جہاز پرواز نہیں کر سکا تاہم جسٹس دین محمد نے جو نقشہ پائلٹ کے پاس دیکھا اس پر ایک لائن کھنچی ہوئی تھی۔ اسے دیکھتے ہی جسٹس محمد دین کے کان کھڑے ہو گئے۔
’انہوں نے واپس آ کر چوہدری ظفراللہ خان سے کہا کہ مجھے تو کمیشن ایک ڈھونگ دکھائی دیتا ہے، لارڈ ماؤنٹ بیٹن پہلے ہی فیصلہ کر چکا ہے کہ اس نے تقسیم کیسے کرنی ہے۔ انہوں نے جب قائداعظم کو بتایا تو انہوں نے چودھری محمد علی کو وائسرائے کے پاس بھیجا۔ چودھری محمد علی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سیکریٹری کے کمرے میں بھی لگے ہوئے نقشے پر اسی طرح لکیر موجود تھی جیسی لکیر جسٹس دین محمد نے پائلٹ کے ہاتھ میں موجود نقشے پر دیکھی تھی۔‘
پنجاب کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں باؤنڈری کمیشن کے اجلاس 21 جولائی سے 31 جولائی کے درمیان روزانہ کی بنیادوں پر ہوتے رہے جن کی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر وائسرائے آفس کو بھیجی جاتی رہی۔ کانگریس اور مسلم لیگ کو اپنا اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے چار چار دن اور بقیہ لوگوں کے لیے ایک دن مختص کیا گیا۔ عدالت میں داخلے کے لیے 20 ٹکٹ مسلمانوں اور 20 غیر مسلموں کے لیے رکھے گئے، جبکہ پریس کے لیے علیحدہ سے نشستیں رکھی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسلمانوں اور ہندوؤں نے اپنے دلائل دیے۔ آخری دن سکھوں کے وکیل ہرنام سنگھ نے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب کی دھرتی کے اصل وارث ہم ہیں۔ انگریزوں نے ہم سے حکومت چھینی تھی لہٰذا ہمیں ہی واپس کرے۔ پنجاب کی آبادکاری میں ہمارا بہت دخل ہے اور لاہور کو ملک بھر میں اہم مقام دلانے کے لیے بڑی خدمات سرانجام دی ہیں۔ ہم خزانے میں مسلمانوں سے زیادہ محصولات جمع کرواتے ہیں۔ ہمارے مقدس مقامات یہاں پر ہیں۔ لاہور، گورداس پور، شیخوپورہ، فیصل آباد اور ساہیوال کو مشرقی پنجاب کا حصہ بنایا جائے۔ پنجاب کے اصل وارث ہم ہیں، مسلمان تو کمی کمین ہیں۔ انگریزوں کو ہمارے ساتھ بات کرنی چاہیے۔‘
اس کے بعد مسیحی برادری کے وکیل ایس پی سنگھا کمیشن کے روبرو پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہرنام سنگھ کی باتیں سن کر ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ سکھوں اور ہندوؤں کے نزدیک دولت ہی سب کچھ ہے۔ سکھ نمائندے نے اپنے گرونانک کی تعلیمات کا بھی پاس نہیں رکھا جو ذات پات کی تقسیم کے خلاف وعظ کرتے رہے۔ ہم عیسائی ہندوستان کی آبادی کا چار فیصد ہیں اور مسلمانوں کی آبادی گورداس پور میں 52 فیصد ہے۔ میں کمیشن سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری آبادی بھی مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال دے اور گورداس پور مسلمانوں کو دیا جائے کیونکہ ہمارا پیغمبر بھی خدا کا بھیجا ہوا ہے اور مسلمانوں کا پیغمبر بھی، ہمیں مسلمانوں کے ساتھ رہنا قبول ہے۔‘
مگر بعد میں 17 اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مغربی پنجاب سے متصل مسلم اکثریتی تین تحصیلیں گورداس پور، بٹالہ اور پٹھان کوٹ ہندوستان کو دے دیں تاکہ ہندوستان کا کشمیر کے ساتھ زمینی رابطہ قائم ہو جائے۔ اسی طرح ضلع جالندھر کی دو تحصیلیں نکودر اور جالندھر، ضلع امرتسر میں اجنالہ، فیروز پور کی زیرہ اور فیروز پور تحصیلیں بھی بھارت کو دے دیں۔
سیرل ریڈ کلف کے پرائیویٹ سیکرٹری کرسٹو فر بیماؤنٹ کے بیٹے برنی وائیٹ سپنر کی ایک کتاب ’’پارٹیشن، دی سٹوری آف انڈین انڈیپنڈنس اینڈ کریشن آف پاکستان ان1947‘ 2017 میں چھپی جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’ریڈ کلف نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دباؤ پر پنجاب کی سرحدیں آخری لمحے میں تبدیل کیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نہرو کے دباؤ میں تھا اس لیے ریڈ کلف کو کہا گیا کہ وہ فیروز پور اور زیرہ کے علاقے پاکستان سے نکال کر انڈیا کو دے دے جس کی وجہ سے کمیشن کی ساکھ ہی ختم ہو کر رہ گئی کیونکہ اس کمیشن کی تشکیل کے وقت دعوی ٰ کیا گیا تھا کہ یہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہو گا۔‘
انہوں نے لکھا کہ میرے والد نے 1992 میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ’تقسیم کے بارے میں اصل سچ کسی کو نہیں معلوم کہ ایسا کیوں کیا گیا تھا۔‘