آج سے 50 برس قبل پاکستانی بینکار آغا حسن عابدی نے محض 25 لاکھ ڈالر سے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کی بنیاد رکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا ساتواں سب سے بڑا پرائیویٹ بینک بن گیا۔
کراچی اور لندن میں اپنے مرکزی دفاتر قائم کرنے والا یہ بینک صرف ایک دہائی بعد دنیا کے 70 ممالک میں 400 سے زائد شاخوں کا مالک تھا۔
عربی میں ایک اصطلاح ہے، ’شعلۂ مستعجل،‘ یعنی وہ شعلہ جو جتنی تیزی سے بھڑکتا ہے، اتنی ہی تیزی سے جل کر دھواں بھی ہو جاتا ہے۔ بی سی سی آئی کے ساتھ بھی یہی ہوا، اس بینک نے جس برق رفتاری سے ترقی کی، منی لانڈرنگ اور مالی جرائم کے الزامات کے بعد اتنی ہی تیزی سے اس کا شیرازہ بکھر گیا۔
بعض لوگوں کے نزدیک یہ تیسری دنیا کے عالمی سطح پر ابھرتے ہوئے بینک کے خلاف مغرب کی سازش تھی۔ دوسری طرف امریکی پارلیمان کی رپورٹ، امریکہ کا فیڈرل ریزرو سسٹم اور بینک آف انگلینڈ بی سی سی آئی کو سنگین جرائم کا مرتکب گردانتے ہیں۔ آئیے اس بینک کی بنیاد، ابتدائی کامیابیوں، الزامات اور زوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔
آغا حسن عابدی اور بی سی سی آئی کا قیام
بینکنگ کے شعبے میں نام پیدا کرنے والے آغا حسن عابدی انگلش لٹریچر اور قانون کے طالب علم تھے، جنہوں نے 24 سال کی عمر میں حبیب بینک سے ملازمت کا آغاز کیا اور بہت جلد اس کے فیصلہ سازوں میں سے ایک ہوگئے۔
1959 میں سہگل گروپ کی سرمایہ کاری سے انہوں نے یونائیٹڈ بینک کی بنیاد رکھی۔ 11 برس کے اندر اندر ملک بھر میں اس کی 912 شاخیں کھل گئیں اور حبیب بینک کے بعد یہ ملک کا دوسرا بڑا بینک بن گیا۔
ایسا لگتا ہے آغا حسن عابدی کی اڑان کے لیے پاکستان کا افق کم پڑ گیا تھا۔ وہ پہلے سے ہی ٹھان چکے تھے کہ ایک عالمی سطح کا بینک قائم کرنا ہے لیکن دو واقعات اس کے فوری محرکات بن گئے۔ پہلا مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور دوسرا بھٹو کا نجی ادارے قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ۔
ایک طرف مشرقی پاکستان میں یونائیٹڈ بینک کا کھاتہ بند ہوگیا تو دوسری جانب بھٹو کے فیصلے سے واضح تھا کہ اب یونائیٹڈ بینک بھی قومی تحویل میں لے لیا جائے گا۔
عالمی سطح کا بینک قائم کرنا ایک بہت بڑا خواب تھا، جس کے لیے اعتماد کی غیر معمولی قوت اور تعلقات کے وسیع تر جال کی ضرورت تھی۔ آغا حسن عابدی کے خمیر میں یہ دونوں چیزیں گندھی ہوئی تھیں۔
60 کی دہائی میں عابدی صاحب کو مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے کی سوجھی۔ یونائیٹڈ بینک کی شاخ کھولنے کی غرض سے وہ عرب امارات گئے اور اپنی کرشماتی شخصیت کی بنا پر پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے شیخ زید کو ایک قیمتی قالین تحفے میں دے کر ان سے دوستی گانٹھ لی۔ اس کے بعد شیخ زید جب بھی پاکستان آتے ان کے قیام و طعام کے انتظامات آغا صاحب کے ذمے ہوتے۔
1972 میں شیخ زید کی 75 فیصد اور بینک آف امریکہ کی 25 فیصد سرمایہ کاری سے بینک آف کامرس اینڈ کریڈٹس کی بنیاد رکھی گئی جسے یورپی ملک لکسمبرگ میں رجسٹرڈ کروایا گیا۔ معترضین کا کہنا ہے کہ لکسمبرگ میں رجسٹرڈ کروانے کا فیصلہ وہاں کے نرم قوانین اور مالی بدعنوانیوں کی وسیع تر گنجائشوں کے پیش نظر کیا گیا تھا۔
بی سی سی آئی نے کس قدر تیزی سے ترقی کی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1973 میں دنیا کے پانچ ممالک میں 19 شاخوں سے یہ تعداد اگلے چار برس کے دوران 32 ممالک میں 146 شاخوں تک جا پہنچی۔ جہاں تک مجموعی اثاثہ جات کی بات ہے تو اس دوران یہ 20 کروڑ ڈالر سے 2.2 ارب ڈالر کی حد عبور کرگئے۔
تیل کے وسیع ذخائر کی دریافت اور 70 کی دہائی میں پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے عرب ممالک پر دولت کی بارش ہونے لگی۔ 1970 میں ابوظبی کی آمدن 80 کروڑ ڈالر تھی جو پانچ برس بعد آٹھ ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
ظاہر ہے کہ اتنا پیسہ رکھنے کے لیے عرب ممالک کو کسی نہ کسی بینک کی بھی ضرورت تھی، چنانچہ ترجیحاتی بنیادوں پر انہوں نے اس مقصد کے لیے بی سی سی آئی کو منتخب کیا۔
بی سی سی آئی کو یورپ کے دیگر بینکوں پر ایک اور طرح سے بھی فوقیت حاصل تھی۔ اسے شروع سے ہی ایشیا اور تیسری دنیا کے غریب ممالک کا بینک کہہ کر پیش کیا گیا۔ یورپ میں موجود ایشیائی باشندے بی سی سی آئی سے قرب محسوس کرتے تھے۔ دوسری طرف بی سی سی آئی بھی ان کے ساتھ نرمی برتتا تھا۔ بینک کی ابتدائی کامیابیوں میں ان دونوں عوامل کا بہت کردار تھا۔
1977 میں برطانیہ کے اندر بی سی سی آئی کی 45 شاخیں کھل چکی تھیں۔ جنوری 1978 میں سنڈے ٹائمز آف لندن میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں لکھا تھا کہ اگلے ماہ تک بی سی سی آئی مزید پانچ شاخیں اور اگلے دو تین سال میں مزید ڈیڑھ سو شاخیں کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہی وقت تھا جب بینک آف انگلینڈ نے بی سی سی آئی پر مزید شاخیں قائم کرنے پر پابندی عائد کردی۔
1979 کے دوران برطانیہ میں برٹش بینکنگ ایکٹ پاس ہوا جس کے تحت بینکوں کو دو مختلف درجہ بندیوں میں تقسیم کیا گیا۔ درجہ بندی میں دوسری سطح پر رکھنے کی بدولت بی سی سی آئی نے احتجاج کرتے ہوئے اس فیصلے کو ’تیسری دنیا‘ کے ایک بینک کے خلاف ’نسلی تعصب‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔
تیسری دنیا کا یہ بینک اپنے طے کردہ ہدف کے مطابق اکیسویں صدی کے آغاز سے قبل دنیا کا سب سے بڑا بینک بننا چاہتا تھا، سو اس کے لیے امریکہ کی معاشی منڈی کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ آغا حسن عابدی کے ایک دوست کے مطابق وہ امریکہ میں کم از کم ’پانچ سو‘ شاخیں قائم کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ معاملہ ذرا ٹیڑھی کھیر تھا۔
امریکہ میں پنجے جمانے کی کوشش
امریکہ کی مختلف ریاستوں میں بی سی سی آئی کے لیے اپنے مراکز کھولنا تقریباً ناممکن تھا۔ وہاں رائج میک فیڈن ایکٹ (McFadden Act) کی موجودگی میں بین الریاستی بینکنگ ممنوع تھی۔ البتہ اس معاملے میں فنانشل جنرل بینک شیئرز کو خصوصی استثنیٰ حاصل تھا اور اس کی کئی ریاستوں میں شاخیں کام کر رہی تھیں۔
چونکہ بی سی سی آئی کا ایک حصہ دار بینک آف امریکہ تھا، اس لیے بی سی سی آئی جہاں بھی بینک خریدنے کی کوشش کرتا، نگران ادارے بینک آف امریکہ سے اس کے تعلق کی وجہ سے کبھی بھی اجازت نہ دیتے۔
اس کا ایک طریقہ یہ تھا کہ بی سی سی آئی کا کوئی نمائندہ ’ذاتی‘ حیثیت سے امریکی بینک خرید لیتا۔ پہلی ایسی کوشش 1975 میں عباس گوکل کے ذریعے کی گئی تھی۔ عباس گوکل آغا صاحب کے قریبی دوست اور گلف شپنگ گروپ کے سربراہ تھے۔
اسی دوران عابدی کا رابطہ جمی کارٹر کے بجٹ ڈائریکٹر اور انتہائی قریبی ساتھی برٹ لینس سے ہو گیا۔ لینس نیشنل بینک آف جارجیا میں اپنے حصص بیچ کر بھاری قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔ دوسری طرف عابدی صاحب امریکہ کے بینکنگ سسٹم میں کسی بھی طرح داخل ہونا چاہتے تھے۔ لینس کی مشکل آسان کرنے میں ایک اور بھی فائدہ تھا کہ عابدی صاحب جمی کارٹر اور امریکہ کے طاقتور ترین لوگوں تک اپنی رسائی کے لیے لینس کو بطور پل استعمال کر سکتے تھے۔
آغا حسن عابدی نے دنیا کے مالدار ترین سعودی شہریوں میں سے ایک غیث فرعون (جی ہاں، یہ اصل نام ہے) سے رابطہ کیا۔ آغا صاحب کے کہنے پر فرعون نے نیشنل بینک آف جارجیا کے 60 فیصد حصص 24 لاکھ ڈالر میں خرید لیے۔ اگرچہ اس ڈیل میں بی سی سی آئی کسی بھی طرح شریک نہیں تھی لیکن بعد میں اسی طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے بی سی سی آئی امریکہ کے بینکنگ سسٹم میں چور دروازے سے داخل گیا۔
امریکہ میں پہلی خفیہ ڈیل
25 نومبر 1976 کو فیڈرل ریزرو سسٹم نے اولمسٹیڈ انٹرنیشنل بینک کو سال کے آخر تک فنانشل جنرل بینک شیئرز کے تمام حصے بیچنے کا حکم دے دیا۔ راتوں رات مارکیٹ میں سٹاک کی بڑی تعداد آ گئی تھی۔
اس کے بعد عابدی کے امریکی پارٹنرز نے چار عربوں کے نام سے بینک کے شیئرز خریدے۔ یہ عرب مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ملکوں کے طاقتور شیوخ تھے۔
اس کے بعد مالیاتی دنیا کے پیچیدہ ترین ہتھکنڈوں، بینک کے اندر بینک، بےنامی شیل کمپنیوں کے سر کو چکرا دینے والا جال استعمال کر بی سی سی آئی نے امریکہ میں قدم جما لیے۔
کتاب ’دی ان سائیڈ سٹوری آف بی سی سی آئی‘ کے مطابق اس دوران یہ بینک دنیا بھر کے ڈکٹیٹروں، منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کا کالا دھن سفید کرنے کا گڑھ بن گیا۔ اس بینک کے صارفین میں عراق کے صدر صدام حسین، فلپائن کے ڈکٹیٹر مارکوس، پاناما کے ڈکٹیٹر مینوئل نوری ایگا اور فلسطین سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ابو ندال سے تھے۔
’فارن پالیسی‘ میگزین کی ایک تحریر کے مطابق پاکستانی آمر جنرل ضیا الحق بھی حسن عابدی کے بہت قریب تھے اور ان کے بیٹے اعجاز الحق کو 1978 میں بی سی سی آئی کے پارٹنر بینک آف امریکہ میں ایک اہم عہدے پر فائز کر دیا گیا۔
بعد ازاں وہ ترقی کرکے بحرین میں بینک آف امریکہ کے ریجنل مینیجر بن گئے۔
حتیٰ کہ امریکہ کا خفیہ ادارہ سی آئی اے بھی بی سی سی آئی کے ساتھ ملوث تھا اور وہ اسی زمانے میں شروع ہونے والے افغان ’جہاد‘ کے لیے رقوم اور اسلحہ بھیجنے کے لیے بی سی سی آئی کو استعمال کر رہا تھا۔
کتاب کے مطابق عابدی کے اس زمانے کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور وہ خفیہ طور پر ہوٹلوں میں ملتے تھے۔ البتہ سی آئی اے نے ایسی ملاقاتوں سے انکار کیا ہے۔
جب ایک خفیہ ایجنٹ نے بھانڈا پھوڑ ڈالا
1987 کے اوئل میں فلوریڈا کے شہر ٹیمپا میں ایک نہایت مالدار بزنس مین رابرٹ میوسیلا بی سی سی آئی کے مقامی دفتر پہنچے اور اکاؤنٹ کھولنے کی درخواست کی۔ تقریباً چار ماہ بعد انہوں نے بی سی سی آئی کی پاناما میں واقع شاخ میں بھی اکاؤنٹ کھلوا لیا اور چیک جمع کروانے لگ گئے۔
ایک دن کسی چیک میں درج رقم کے ہندسے اور الفاظ آپس میں مختلف تھے۔ وضاحت کے لیے نومبر 87 میں پاناما برانچ کے افسر سید آفتاب حسین نے انہیں فون کیا اور دوران گفتگو ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ وہ میوسیلا کے کاروبار کے بارے میں جانکاری اور بی سی سی آئی کی ممکنہ معاون سہولیات بتانا چاہتے تھے۔
دونوں ملے، حسین نے میوسیلا کو بتایا کہ خفیہ طریقے سے رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے ممکنہ طریقے کون کون سے ہو سکتے ہیں۔ ایک ہفتے بعد دونوں کی پھر ملاقات ہوئی۔ میوسیلا نے بتایا کہ وہ منشیات کے دھندے میں ملوث ہیں اور یہ پیسہ بھی اسی سلسلے میں استعمال ہوتا ہے۔
حسین نے بی سی سی آئی کے اپنے چند کولیگز سے ملاقات کروائی جن میں امجد اعوان بھی شامل تھے۔ اگلے چند مہینوں میں حسین، اعوان اور دیگر افسران کی ملی بھگت سے میوسیلا نے 1.4 کروڑ کی منی لانڈرنگ کی۔ منشیات کے دھندے سے حاصل ہونے والی 1.4 کروڑ کی رقم میں سے تقریباً آدھی فرسٹ امریکن بینک کے ذریعے کی گئی تھی۔ 26 جون 1988 میں نیویارک کے فرسٹ امریکن بینک سے ٹرانزیکشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ کل سات بار ہونے والی ٹرانزیکشنز میں ٹوٹل 68 لاکھ ڈالر منتقل ہوئے۔
میوسیلا بہت خوش تھے کیونکہ انہیں اپنے مقاصد میں واضح کامیابی دکھائی دے رہی تھی۔ مگر ان کے مقاصد تھے کیا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دراصل میوسیلا کا اصل نام رابرٹ میزر تھا جو امریکہ کے کسٹمز ڈیپارٹمنٹ کے ایک خفیہ ایجنٹ تھے۔ منشیات فروشوں کے نیٹ ورکس اور خفیہ اکاؤنٹس کا پتہ لگانے کے لیے ایک بڑی سطح کا خفیہ آپریشن چل رہا تھا جس میں وہ بھی شامل تھے۔ یہ خفیہ کارروائی ’آپریشن سی چیز‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
میوسیلا کے پاس ہر وقت ایک خفیہ ٹیپ ریکارڈر ہوا کرتا تھا۔ جون 1988 کی ایک ریکارڈنگ کے مطابق امجد اعوان رابرٹ میزر سے کہتے ہیں کہ وہ ہر مہینے بآسانی ایک کروڑ ڈالر کی منی لانڈرنگ کر سکتے ہیں۔
جنوری 1988 میں گپ شپ کے دوران امجد اعوان بی سی سی آئی کے مستقبل میں بڑے بڑے ارادے بتا رہے تھے۔ برسبیل تذکرہ وہ یہ بھی کہہ گئے کہ فرسٹ امریکن ’غیر اعلانیہ طور پر ہمارا اپنا‘ ہے۔ ستمبر میں ایک ملاقات کے دوران امجد اعوان نے فرسٹ امریکن سے اپنے تعلق کی پوری تفصیلات فراہم کر دیں۔ میزر کا ٹیپ ریکارڈر ہر وقت چلتا رہتا تھا۔ ہر چیز ریکارڈ ہوتی چلی گئی۔
چار اکتوبر کو کسٹمز ڈیپارٹمنٹ نے فیصلہ کیا کہ کافی شواہد اکٹھے ہو چکے، اب ملزموں پر ہاتھ ڈالنے کا وقت آ گیا ہے۔ لیکن ایک مشکل یہ تھی کہ دور دراز مقامات پر پھیلے ہوئے کم و بیش دس متعلقہ افراد کو ایک ساتھ کیسے گرفتار کیا جائے۔ یہاں پھر رابرٹ میزر کا ڈراما کام آیا۔ انہوں نے اپنی شادی کا اعلان کرتے ہوئے نو اکتوبر کو بی سی سی آئی سے وابستہ تمام مطلوبہ افراد کو فلوریڈا میں ایک مقام پر پہنچنے کی دعوت دی۔ اسی شام اعوان، بلگرامی، حسن، ہاورڈ اور حسین دھر لیے گئے۔
بالعموم کہا جاتا ہے کہ کسٹمز ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کیے گئے خفیہ آپریشنز میں یہ اہم ترین آپریشن تھا۔
16 جنوری 1990 ریاست فلوریڈا کے شہر ٹیمپا میں ڈسٹرکٹ کورٹ نے باقاعدہ سماعت شروع کی۔ رابرٹ میزر کی ٹیپ ریکارڈنگز اور ملزموں کی گرفتاری کے باوجود ایک بار پھر معاملہ ’خوش اسلوبی‘ سے طے ہو گیا۔
بی سی سی آئی نے پانچ سال کی مدت میں فیڈرل ریزرو سسٹم کے تمام قوانین کی پیروی کرنے اور ڈیڑھ کروڑ ڈالر جرمانہ ادا کرنے کی پیشکش کی۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے اتفاق کیا اور جج نے توثیق کر دی۔ اگرچہ ملزمان کو انفرادی طور پر سزائیں سنائی گئیں لیکن تصفیے کے بعد بی سی سی آئی کو بطور ادارہ کچھ نہیں کہا گیا۔ بی سی سی آئی نے ایک کروڑ 87 لاکھ ڈالر فیسوں کی مد میں خرچ کیے۔
سینیٹر جان کیری کی کمیٹی کے لیے بی سی سی آئی سے تفتیش کرنے والے قانون دان جیک اے بلم نے اس ساری صورت حال پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’میں غصے سے پاگل ہو رہا ہوں۔ جو کچھ ٹیمپا میں ہوا اس سے بی سی سی آئی کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیسے بچ نکلتے ہیں۔ حکومت نے جو اس تصفیے میں کردار ادا کیا اس پر خون کھول رہا ہے۔‘
یہ تصفیہ کروانے میں بھی مرکزی کردار کلفرڈ کا تھا۔
اور بی سی سی آئی منطقی انجام کو پہنچا
امریکہ میں تو معاملہ رفع دفع ہو گیا مگر اس سے جو شور اٹھا، وہ پوری دنیا میں گونجنے لگا۔ بینک آف انگلینڈ کے کہنے پر مالیاتی امور کے ماہر ایک آزاد اور معتبر ادارے پرائس واٹر ہاؤس نے 24 جون 1991 کو اپنی تحقیقات ’سینڈ سٹارم رپورٹ‘ کا خفیہ نام استعمال کرتے ہوئے پیش کیں۔ یہ رپورٹ برٹش بینکنگ ایکٹ 1987 کے سیکشن 41 کے تحت بی سی سی آئی کے مالیاتی امور کا جائزہ تھی۔ اس میں کہا گیا کہ بی سی سی آئی ’وسیع پیمانے پر فراڈ اور استحصال‘ میں ملوث ہے۔
رپورٹ میں وضاحت سے بتایا گیا کہ نقوی اور ان کی ٹیم نے ’مالیاتی ضابطوں سے بچ نکلنے‘ کی خاطر کیسے ’بی سی سی آئی کے علاوہ دیگر جگہوں پر اکاؤنٹ استعمال کیے‘ اور کس طرح ’بہت سی کمپنیوں کا جال‘ بچھا رکھا ہے۔
ادھر امریکہ میں بھی بی سی سی آئی کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں اور نیویارک میں بھی تحقیقات شروع ہو گئیں۔
پانچ جولائی 1991 بروز جمعہ دوپہر ایک بجے 25 برطانوی افسران نے بی سی سی آئی کے مرکزی دفتر لندن کو گھیرے میں لے لیا۔ کچھ دیر بعد بینک کے دروازوں پر پوسٹر چپکا دیے گئے کہ بینک آف انگلینڈ کے حکم سے بی سی سی آئی کی تمام سرگرمیاں روک دی گئی ہیں۔ بینک آف انگلینڈ کے گورنر نے ان آٹھ کمپنیوں کے اثاثہ جات بھی منجمد کر دیے جو بی سی سی آئی گروپ کا حصہ سمجھی جاتی تھیں۔
بینک آف انگلینڈ نے تقریباً 60 دیگر ممالک سے رابطہ کرتے ہوئی اپنی کارروائی سے مطلع کیا اور بی سی سی آئی کی بندش میں معاونت کی درخواست کی۔ امریکہ، فرانس، لکسمبرگ، سپین اور سوئٹزرلینڈ میں بھی یہی کیا گیا۔
بی سی سی آئی کی بندش سے برطانیہ سے لے کر ہانگ کانگ تک مظاہرے پھوٹ پڑے۔ تقریباً دس لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ آغا حسن عابدی، صالح نقوی اور عباس گوکل سمیت کئی افراد پر مقدمے قائم ہوئے۔ صالح نقوی کو آٹھ جبکہ عباس گوکل کو 14 سال کی سزا سنائی گئی۔ عابدی صاحب تب پاکستان میں تھے، جنہیں حکومت نے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔
یہ خبر دنیا بھر کے اخباروں کی شہ سرخی بنی۔ ’ٹائم‘ میگزین نے اسے سرورق کا زینت بنایا۔
بی سی سی آئی کا یہ انجام قابل فہم ہے، البتہ اس بات پر ضرور حیرت ہوتی ہے کہ اس انجام تک پہنچنے میں اتنی دیر کیوں لگی۔
بی سی سی آئی اتنے واضح شواہد کے باوجود کیسے بچ نکلتا تھا؟
بی سی سی آئی کے معاملے پر تحقیقات کے لیے امریکی پارلیمان کی ایک ذیلی کمیٹی نے دسمبر 1992 میں ایک رپورٹThe BCCI Affair: A Report to the Committee on Foreign Relations کے نام سے جاری کی، جسے پڑھ کر گمان گزرتا ہے کہ جیسے یہ کوئی بینک نہیں انڈرورلڈ کا بچھایا ہوا خفیہ جال تھا۔ دولت بھلے عرب شیوخ کی ہو لیکن اس انڈر ورلڈ کے ڈان عابدی صاحب ہی تھے۔ بی سی سی آئی محض ایک سکرین تھی جس کے پیچھے مانیٹر عابدی صاحب کا ذہن تھا۔ اگر عابدی صاحب کی شخصیت کا مطالعہ کیا جائے تو وہ بینکار سے زیادہ پاور پالیٹکس کے آدمی لگتے ہیں۔
راجہ صاحب محمود آباد کے سفارشی رقعے پر حبیب بینک میں پہلی ملازمت ملی۔ موقع ملتے ہی سہگلوں سے ناطہ جوڑ لیا۔ یونائیٹڈ بینک کی بنیاد رکھنے کے بعد اس کے پہلے چیئرمین سابق وزیراعظم آئی آئی چندریگر کو بنایا۔ بھٹو انہیں فوجی حکمرانوں کا بہت خاص بندہ سمجھتے تھے اور نیشنلائیزیشن کے دوران انہیں گھر پر نظر بند بھی کیا گیا، لیکن وہ بہت جلد بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے اور یہاں تک کہ اپوزیشن نے 1977 میں اپنے وائٹ پیپر کے اندر ان کا نام بھی شامل کیا۔ ان پر الزام تھا کہ بھٹو کو انتخابات میں فنڈز فراہم کرنے کے لیے انہوں نے دو سے تین کروڑ روپے دیے ہیں۔ بھٹو کے بعد جیسے ہی ضیا الحق کی حکومت آئی، عابدی صاحب ضیائی ہوگئے۔
یہ رویہ اگر صرف ان کی ذات تک محدود رہتا تو شاید نظر انداز کیا جا سکتا تھا لیکن بی سی سی آئی کی مرکزی پالیسی بھی یہی رہی۔ بی سی سی آئی نے کاروباری ترقی کو سیاسی روابط سے لازم و ملزوم کر دیا اور بعد میں اس کی قیمت چکائی۔
ڈکٹیٹروں کا آلۂ کار
بی سی سی آئی سیاسی مقاصد کے لیے کیسے استعمال ہوتا رہا اس کی ایک مثال دیکھتے ہیں۔
دسمبر 1989 کو امریکہ نے وسطی امریکی ملک پاناما میں اپنی فوجیں اتار دیں جس کے نتیجے میں 16.4 کروڑ ڈالر کا نقصان، 23 امریکی سپاہیوں اور پاناما کے سینکڑوں شہریوں کی موت کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔
امریکی حملے کا سب سے بڑا مقصد پانامہ کے ڈکٹیٹر اور مشہور منشیات فروش نوری ایگا کو سبق سکھانا تھا۔ نوری ایگا کا بیشتر غیر قانونی پیسہ بی سی سی آئی کے اکاؤنٹس سے منتقل ہوتا تھا۔ اس لیے ڈیل یہ ہوئی کہ بی سی سی آئی پر ہاتھ ہولا رکھتے ہوئے بارگین کرلی جائے گی اور بدلے میں بی سی سی آئی نوری ایگا کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرے گا۔
ایسا نہیں کہ حکومت عدالتوں پر اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مرضی کے فیصلے کروا رہی تھی بلکہ قانون میں موجود پلی بارگین کا سہارا بی سی سی آئی کو محفوظ راستہ فراہم کر دیتا تھا۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے نہ صرف پلی بارگین کی تائید کی بلکہ جب فلوریڈا کے سٹیٹ بینک ریگولیٹر جیرلڈ لیوس نے بی سی سی آئی کا لائسنس رینیو کرنے سے انکار کیا تو انہیں خط لکھ کر ایسا کرنے سے باز رکھنے کی بھی کوشش کی۔
سینیٹ کی ذیلی کمیٹی بار بار سی آئی اے کے خفیہ اکاؤنٹس کا ذکر کرتی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عابدی صاحب کے ایک قریبی ساتھی اور ماضی میں سی سی آئی سے وابستہ ایک اہم شخصیت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس بات سے اتفاق کیا۔ ان کے بقول ’اس وقت افغان جنگ کے علاوہ بہت سے خفیہ آپریشنز بھی جاری تھے جس کے لیے پیسے کی ترسیل بی سی سی آئی کے ذریعے ہوتی تھی۔ یہ پروفیشنل رویہ نہیں تھا اور بالآخر اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے پوچھا کہ بی سی سی آئی کی بندش میں سازش کا عنصر کس قدر تھا تو وہ کہنے لگے: ’جب آپ کسی کھیل کا حصہ بنتے ہیں تو اس کے نقصان اور فائدے کے ذمہ دار آپ خود ہوتے ہیں۔ بی سی سی آئی کو یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ وہ پروفیشنل انداز میں آگے بڑھنے کے بجائے غیر قانونی پیچیدہ راستے پر کیوں چل رہا ہے۔‘
ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا بی سی سی آئی کے ذمہ داروں میں سے کسی کو اس افتاد کا اندازہ نہیں تھا؟
جواب ملا: ’تھا۔ لیکن آغا صاحب ہر قیمت پر نمبر ون بننا چاہتے تھے۔ بعد میں جب بہت ساری چیزیں سامنے آئیں تو وہ پریشان نہیں تھے۔ انہیں ہمیشہ اپنے تعلقات پر اعتماد رہا لیکن بینک کی بندش کے وقت سے کئی سال پہلے وہ عملی طور پر الگ ہو چکے تھے۔ اپنی بیماری کے سبب وہ پہلے کی طرح متحرک نہیں تھے۔‘
جب بھی بینکنگ کے شعبے میں فراڈ اور کالے دھندے کا ذکر آئے گا عابدی صاحب اور بی سی سی آئی کا نام ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔