افغانستان کے ایک بینک میں اقوام متحدہ کے تقریباً ساڑھے 13 کروڑ ڈالرز موجود ہیں لیکن عالمی ادارہ اس رقم کو استعمال کرنے سے قاصر ہے کیوں کہ طالبان کے زیر انتظام چلنے والا مرکزی بینک انہیں افغان کرنسی میں تبدیل نہیں کر سکتا۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے سربراہ عبداللہ الدرداری نے جمعرات کو بتایا کہ عالمی ادارے نے امریکی ڈالرز افغانستان انٹرنیشنل بینک میں اس وعدے کے ساتھ جمع کروائے تھے کہ یہ رقم خود بخود ملکی کرنسی ’افغانی‘ میں تبدیل ہو جائے گی۔
تاہم انہوں نے اے سی اے ایم ایس گلوبل سینکشنز سپیس سمٹ کو بتایا: ’ایسا نہیں ہوا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این ڈی پی‘ کے بھی افغانستان انٹرنیشنل بینک میں تین کروڑ ڈالر پھنسے ہوئے ہیں جنہیں افغان کرنسی میں تبدیل نہیں کیا جاسکا اور یہ کہ ’مقامی کرنسی کے بغیر ہم اپنے تمام پروگرامز کو نافذ نہیں کرسکتے۔‘
گذشتہ برس اگست میں اقتدار حاصل کرنے والے افغان طالبان نے ایک ایسے ملک میں غیر ملکی کرنسی کے استعمال پر پابندی لگا رکھی ہے جہاں امریکی ڈالر عام تھے۔
یہ جنگجو گروپ طویل عرصے سے بین الاقوامی پابندیوں کی زد ہے، جس کے بارے میں اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ طالبان اب خود امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
افغانستان کی تقریباً چار کروڑ آبادی میں سے نصف سے زائد افراد شدید بھوک کا شکار ہیں جب کہ ملک میں معیشت، تعلیم اور سماجی خدمات کو بھی تباہ کن صورت حال کا سامنا ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کے مرکزی بینک کے اربوں ڈالر کے ذخائر اور غیر ملکی ترقیاتی امداد کو منجمد کر دیا گیا ہے تاکہ اسے طالبان کے ہاتھوں میں جانے سے روکا جاسکے۔
الدارداری نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ عالمی بینکس ان پابندیوں کو ختم کرنے کے حوالے سے فعال ہیں، جس کے باعث اقوام متحدہ اور امدادی گروپوں کو ملک میں کافی رقم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے جب کہ کرنسی کی فرہمی اور ترسیل بھی ایک مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال نومبر میں تقریباً چار ارب ڈالرز مالیت کی مقامی کرنسی زیر گردش تھی، جو اب صرف 50 کروڑ ڈالرز رہ گئی ہے۔
امدادی گروپوں اور اقوام متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی بینک کرنسی کے ممکنہ تبادلے کی سہولت پر مذاکرات کر رہے ہیں۔
الدارداری نے کہا کہ انسانی ہمدردی کے آپریشنز کے لیے نقد رقم بیرون ملک ایک میکانزم کے تحت ادا کی جا سکے گی اور پھر افغانستان کے اندر بڑے تاجروں اور موبائل کمپنیوں سے افغان کرنسی جمع کی جا سکے گی
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے پابندیوں کے شکار ملک میانمار میں جاری ادائیگی کے ایک پروگرام سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ میانمار فوجی بغاوت کے بعد سے امریکہ اور دیگر اقوام کی جانب سے پابندیوں کا شکار ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق افغانستان کے مرکزی بینک کے تقریباً ساڑھے نو ارب ڈالر کے ذخائر، جن میں سے زیادہ تر امریکہ میں موجود ہیں، اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد منجمد کر دیے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ڈیبرا لائنز نے دنیا کو خبردار کیا تھا کہ یہ ملک ’انسانی تباہی کے دہانے پر ہے اور اس کی گرتی ہوئی معیشت انتہا پسندی کے خطرے میں اضافہ کر سکتی ہے۔‘
دوسری جانب گذشتہ ماہ نیو یارک کے مرکزی بینک میں موجود سات ارب ڈالرز کے منجمد افغان فنڈز پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کو عدالت کی جانب سے مزید مہلت مل گئی ہے۔
واضح رہے کہ سات ارب ڈالرز کے اثاثے نیویارک میں فیڈرل ریزرو بینک میں منجمد ہیں جن پر نائن الیون حملوں کے چند متاثرین سمیت طالبان بھی دعویدار ہیں۔
امریکی مجسٹریٹ سارہ نیٹ برن نے وزارت انصاف کو 11 فروری تک منجمد فنڈز سے متعلق مشورہ دینے کے لیے مہلت دی ہے، کہ بتایا جائے کہ ان فنڈز کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیے۔
جنوری میں عدالتی کارروائی میں امریکی وزارت انصاف کی جانب سے یہ کہہ کر مزید وقت کی درخواست کی گئی تھی کہ ’بہت سے الجھے ہوئے اور اہم معاملات بشمول نائن الیون حملوں کے متاثرین کے دعوے، سفارت کاری اور افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال کو جانچنا ہے۔‘