گذشتہ ہفتے افغانستان پہنچنے والے ایک امریکی فوجی کارگو طیارے نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے کہ امریکہ شاید بگرام ایئر بیس کا دوبارہ کنٹرول حاصل کر سکتا ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق سی 17 طیارہ دوحہ کے العدید فوجی اڈے سے اڑ کر اتوار کو پاکستان کے راستے افغانستان پہنچا اور بگرام ایئر بیس پر اترا۔
افغان خبر رساں ادارے ’خامہ پریس‘ کے مطابق یہ طیارہ سی آئی اے کے نائب سربراہ مائیکل ایلس سمیت امریکی انٹیلی جنس حکام اور فوجی ساز و سامان لے کر افغانستان پہنچا تھا۔
’خامہ پریس‘ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ طالبان نے بگرام ایئر بیس امریکہ کے حوالے کر دیا ہے جسے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی انتخابی مہم میں واپس لینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
اس دعوے کی طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے فوراً تردید کرتے ہوئے اسے ’پروپیگنڈہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے پاس ایئر بیس کا مکمل کنٹرول ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکیوں کا بیس پر دوبارہ ’قبضہ ناممکن‘ ہے اور ’اس وقت افغانستان میں کسی بھی ملک کی فوجی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے اور اسلامی امارت ایسی کسی کارروائی کی اجازت بھی نہیں دے گی۔‘
افغانستان کے وزیر خارجہ کے نائب ترجمان ضیا احمد تکل نے بھی اس خبر کی تردید کی۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’یہ خبر درست نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پینٹاگون نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم ایک امریکی دفاعی ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’افغانستان میں کوئی امریکی فوجی موجودگی نہیں ہے۔‘
کابل کے شمال میں واقع بگرام ایئر بیس دو دہائیوں تک امریکی اور اتحادی نیٹو افواج کے لیے کمانڈ کا مرکز تھا جب یہ غیر ملکی فورسز طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔
ایک چھوٹے شہر کے رقبے کے برابر اس بیس پر 2021 میں مغربی فوجیوں کے انخلا کے فوراً بعد طالبان نے قبضہ کر لیا۔
بگرام میں دو رن ویز اور سو سے زیادہ طیاروں کی پارکنگ کی جگہیں ہیں جو طیاروں کو دھماکوں سے تحفظ فراہم کرنے والی دیواروں سے گھیرے ہوئی ہیں۔ ایک رن وے، جو 2006 میں بنایا گیا تھا، کی لمبائی 12,000 فٹ ہے۔
یہاں ایک مسافر لاؤنج، 50 بیڈ کا ہسپتال اور ضروری سامان سے بھرے ہوئے ہیگنر سائز کے خیمے بھی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے بگرام ایئر بیس کا دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی بار بار بات کی ہے۔ انہوں نے گذشتہ ماہ دعویٰ کیا تھا کہ واشنگٹن نے بیس واپس لینے کا منصوبہ بنایا ہے کیونکہ اب وہاں مبینہ طور پر چینی فوجی موجود ہیں۔
ٹرمپ نے کہا تھا: ’میں وہ صدر ہوں جس نے ہماری فوجی موجودگی کو پانچ ہزار سے کم کر دیا لیکن ہم بگرام کو رکھنا چاہتے تھے اور ایسا افغانستان کی وجہ سے بلکہ چین کی وجہ سے تھا کیونکہ ایئر بیس چین کے جوہری میزائل بنانے کے مقام سے ایک گھنٹے کی فاصلے پر ہے۔ لہذا، ہم بگرام کو رکھنا چاہتے تھے۔‘
امریکی صدر نے مزید کہا کہ بگرام سب سے بڑے اور طاقتور رن وے کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے فضائی اڈوں میں سے ایک تھا اور ہم نے اسے چھوڑ دیا۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اس وقت اس پر کون قبضہ کر رہا ہے؟ چین۔ کیونکہ بائیڈن نے اسے ترک کر دیا ہے۔ لہذا، ہم اسے دوبارہ رکھنے جا رہے ہیں۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے اس وقت ٹرمپ کے بیانات کو ’جذباتی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی حکام کو ’غلط معلومات پر مبنی بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔‘
© The Independent