امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو سوشل میڈیا پر جاری بیان میں اعلان کیا کہ چین پر مزید ٹیرف عائد کیے جا رہے ہیں جب کہ باقی ممالک پر لگائے گئے اضافی محصولات کو 90 دن کے لیے معطل کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں چین نے امریکہ پر بھی ٹیرف عائد کیے ہیں جس کے باعث اس پر مزید محصولات عائد کی جا رہی ہیں مگر دیگر ممالک نے امریکہ کے ساتھ معاملات حل کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے جس کے باعث 90 دن کے لیے ان پر ٹیرف معطل کیے جا رہے ہیں۔
اس سے قبل بدھ کو چین اور یورپی یونین نے امریکہ پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یورپی بلاک نے جن امریکی مصنوعات پر اضافی محصولات کا اعلان کیا ہے ان میں سویابین، موٹر سائیکل اور بیوٹی پروڈکٹ شامل ہیں۔
یہ محصولات 15 اپریل سے نافذ ہوں گے۔ یورپی یونین نے یہ اقدامات امریکہ کی طرف سے عالمی سطح پر سٹیل اور ایلومینیم کی برآمدات پر عائد کردہ محصولات کے بدلے میں لیے ہیں۔
یورپی کمیشن نے کہا کہ ’یہ جوابی اقدامات کسی بھی وقت معطل کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ امریکہ ایک منصفانہ اور متوازن مذاکراتی تصفیے پر رضا مند ہو جائے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یورپی یونین امریکہ کی محصولات کی پالیسی کو بلا جواز اور نقصان دہ سمجھتی ہے جو دونوں طرف اور عالمی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔‘
یورپی یونین اب بھی اس 20 فیصد امریکی ٹیرف کا جواب دینے کے لیے کام کر رہی ہے جو بدھ کو نافذ ہو گیا تھا۔
اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چینی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے جواب میں چین نے آج امریکہ کی درآمدات پر ٹیرف 34 فیصد سے بڑھا کر 84 فیصد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
چینی وزارت خزانہ کا یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب بدھ کو امریکہ نے اسی نوعیت کے محصولات نافذ کیے۔
صدر ٹرمپ نے بدھ کو کئی تجارتی شراکت داروں پر نئے محصولات نافذ کیے، جن میں چین کی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیرف بھی شامل ہیں۔
بیجنگ نے مسلسل محصولات میں اضافے کی مخالفت کرتے ہوئے بدھ کو کہا کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ’مستحکم اور مضبوط‘ اقدامات کرے گا۔
چینی وزارت خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ سے درآمدات پر ’اضافی محصولات‘ کی شرح 34 فیصد سے بڑھا کر 84 فیصد کر دی جائے گی اور اس کا نفاذ کل (جمعرات کو) دوپہر 12:01 سے ہو گا۔
چینی وزارت نے مزید کہا: ’امریکہ کا چین کے خلاف محصولات کا اضافہ بیجنگ کے جائز حقوق اور مفادات کی سنگین خلاف ورزی اور محض غلطیوں کو مزید بڑھانا ہے۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ واشنگٹن کی یہ کارروائیاں بین الاقوامی تجارتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔
پِن پوائنٹ ایسٹ مینیجمنٹ نامی تنظیم کے صدر اور چیف اکانومسٹ دان ژی وی ژانگ نے کہا کہ چین نے آج واضح پیغام دیا کہ حکومت تجارتی پالیسیوں پر اپنے موقف پر ڈٹی رہے گی۔
انہوں نے کہا: ’میں موجودہ تجارتی تنازعے کے خاتمے کے جلد اور آسان راستے کی توقع نہیں کر رہا۔ دونوں معیشتوں (امریکہ اور چین) کو پہنچنے والا نقصان جلد ظاہر ہو جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بین الاقوامی تجارت اور عالمی اقتصادی ترقی کے بارے میں منظرنامہ انتہائی غیر یقینی بن چکا ہے۔‘
چین کی وزارت تجارت نے بدھ کو ایک علیحدہ بیان میں کہا کہ وہ چھ امریکی مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرے گی جن میں شیلڈ اے آئی انکارپوریٹڈ اور سیرا نیواڈا کارپوریشن شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ان کمپنیوں نے تائیوان کو ہتھیار فروخت کیے اور فوجی ٹیکنالوجی پر تائی پے سے تعاون کیا تھا۔
امریکہ کی تقریباً 60 معیشتوں کے خلاف نئی محصولات بدھ سے عمل میں آ گئیں، جن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے زیادہ ہدف چین کو بنایا، جس سے جاری عالمی تجارتی جنگ میں مزید شدت آ گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر ٹرمپ نے اس اقدام کا اعلان ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا، جہاں انہوں نے کہا کہ امریکہ میں نہ بننے والی تمام گاڑیوں پر اب 25 فیصد محصول عائد کیا جائے گا۔
چین، جو کہ امریکہ کا بڑا معاشی حریف اور تجارتی شراکت دار بھی ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ رواں سال چینی اشیا پر امریکی محصولات کی مجموعی شرح 104 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
نئی امریکی پالیسی ملکی صنعت کو دوبارہ فروغ دینے کے لیے متعارف کروائی گئی ہے، تاہم اس سے مہنگائی اور عالمی اقتصادی استحکام کے حوالے سے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
بدھ کی صبح 12:01 بجے (0401 جی ایم ٹی) سے یورپی یونین اور جاپان جیسے بڑے برآمد کنندگان سے امریکہ آنے والی درآمدات پر محصولات کی شرح مزید بڑھ گئی۔
ٹرمپ نے منگل کو کہا کہ ان کی حکومت مختلف شراکت داروں کے ساتھ ’حسبِ ضرورت تیار کردہ معاہدوں‘ پر کام کر رہی ہے، اور جاپان اور جنوبی کوریا جیسے اتحادیوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر کے مطابق، ارجنٹائن، ویتنام، اور اسرائیل اپنی محصولات کم کرنے پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔
ٹرمپ نے منگل کی رات رپبلکن رہنماؤں کے عشائیے میں کہا کہ ممالک ’معاہدہ کرنے کے لیے مرے جا رہے ہیں‘۔ انہوں نے کہا: ’یہ ممالک ہمیں فون کر کے میری خوشامد کر رہے ہیں۔‘
بیجنگ نے پیچھے ہٹنے کے کوئی آثار نہیں دکھائے اور تجارتی جنگ کو ’آخری حد تک‘ لڑنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ چین نے امریکی اشیا پر 34 فیصد جوابی محصولات کا اعلان کیا ہے، جو جمعرات سے نافذ ہو جائیں گے۔
ابتدائی طور پر ٹرمپ نے چینی اشیا پر 34 فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کی تھی، جس کے جواب میں چین کی جوابی کارروائی کے بعد ٹرمپ نے مزید 50 فیصد محصول لگا دیا، جس سے مجموعی شرح 104 فیصد تک جا پہنچی۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو دعویٰ کیا کہ امریکہ ’روزانہ تقریباً دو ارب ڈالر محصولات‘ لے رہا ہے اور جلد ہی دواسازی کی مصنوعات پر بھی ایک بڑی ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔
ادھر کینیڈا نے بھی تصدیق کی ہے کہ اس کی طرف سے کچھ امریکی گاڑیوں پر محصولات بدھ سے نافذ العمل ہو جائیں گے۔
فوری اقتصادی اثرات
بدھ کو ایشیائی مارکیٹس گراوٹ کا شکار رہیں، ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ انڈیکس تین فیصد سے زیادہ گر گیا، اور جاپان کا نکی 2.7 فیصد نیچے آ یا۔
جنوبی کوریا کی کرنسی وون، ڈالر کے مقابلے میں 2009 کے بعد کم ترین سطح پر آ گئی، اور چین کی یوآن بھی اپنی تاریخی کم ترین سطح پر آ گئی۔
تیل کی قیمتوں میں بھی کمی آئی، ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کی قیمت اپریل 2021 کے بعد پہلی بار 60 ڈالر فی بیرل سے نیچے آ گئی۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے چینی وزیراعظم لی چیانگ سے رابطہ کر کے تجارتی کشیدگی میں مزید اضافے سے گریز کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے عالمی معیشت کے استحکام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’مزید شدت سے اجتناب ضروری ہے۔‘
اس پر چینی وزیراعظم نے کہا کہ چین کو اپنی پائیدار اور صحت مند اقتصادی ترقی برقرار رکھنے پر مکمل اعتماد ہے۔
یورپی یونین، جو اب امریکہ کی نئی 20 فیصد ڈیوٹیوں کا سامنا کر رہی ہے، اگلے ہفتے اس کا جواب دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایک دستاویز کے مطابق، یورپی یونین کی جانب سے جوابی طور پر سویابین اور موٹر سائیکلوں سمیت امریکی مصنوعات پر 25 فیصد تک محصولات عائد کیے جا سکتے ہیں۔
منگل کو امریکی سٹاک مارکیٹس میں بھی مزید گراوٹ آئی، ایس اینڈ پی 500 انڈیکس میں 1.6 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
صدر ٹرمپ کی تجارتی پالیسی پر ایک نمایاں تنقید میں، ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر نوارو کو ’ انتہائی بے وقوف‘ قرار دیا، جب کہ نوارو نے ٹیسلا کو صرف ’کار اسمبلر‘ قرار دیا جو سستے غیر ملکی پرزے چاہتا ہے۔