1973 کے آئین میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے کوئی آئینی شق موجود نہ تھی اور آئین سازی کے بعد تقریباً دو عشروں سے زیادہ ایسی کسی ترمیم کی ضرورت بھی محسوس نہ کی گئی۔ یہاں تک 1997 میں اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے، جسے پارلیمان میں دستور میں ترمیم کے لیے درکار دو تہائی عددی اکثریت حاصل تھی، ہارس ٹریڈنگ کی سیاست کو روکنے کے لیے آئین میں آرٹیکل 63 اے کی شکل میں چودھویں ترمیم کے ذریعے ایک آئینی شق کا اضافہ کرنے کا بل پیش کیا۔
پیر کے دن وفاقی دارالحکومت میں عدالت عظمیٰ کی عمارت میں اسی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے پر ججوں اور وکلا کے تبصرے اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے سندھ ہاؤس کی عمارت پر حملے کی گونج سنائی دے رہی تھی، مگر اسی سے ملتے جلتے کچھ واقعات آئین کے آرٹیکل 63 اے ہی کے ضمن میں اس سے پہلے بھی پیش آ چکے ہیں۔
متذکرہ آئینی ترمیم موجودہ آئین میں موجودہ آرٹیکل 63 اے سے کہیں زیادہ وسعت کی حامل تھی۔ چودھویں آئینی ترمیم کے ذریعے متعارف کروائے گئے آرٹیکل 63 اے کے مطابق رکن اسمبلی نہ صرف یہ کہ پارٹی کے سربراہ کی ہدایات کے برخلاف ووٹ دینے یا نہ دینے پر نا اہل کیا جا سکتا تھا بلکہ سیاسی جماعت کا سربراہ چاہے تو کسی بھی رکن قومی اسمبلی یا رکن ایوان بالا کو محض پارٹی ڈسپلن، منشور یا صرف سیاسی حکمت عملی ہی سے منحرف ہونے پر بھی قانون ساز ادارے کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دے سکتا تھا۔
اس سلسلے میں سیاسی جماعت کے سربراہ کا فیصلہ حتمی تھا اور قانون ساز ادارے کے سربراہ یا الیکشن کمیشن کو اس فیصلے پر عمل درآمد کا پابند بھی بنایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ نااہلی کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ملک کی دستوری تاریخ میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے پہلی بار آرٹیکل 63 اے کی شکل میں انسدادی قانون کے اضافے کے ساتھ ہماری سیاسی اور آئینی تاریخ کے کچھ سیاہ باب بھی وابستہ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک دستوری ترمیم کو آئین میں واشگاف الفاظ میں مقننہ کے دستور سازی کے مطلق اختیار کے ہوتے ہوئے بھی قانون سازی کا عمل مکمل ہونے سے بھی پہلے جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی طرف مزید کارروائی سے روک دیا گیا۔
حکومتی جماعت اور اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے سپریم کورٹ کی طرف سے اس مداخلت پر شدید ردعمل دیا اور ملک کے چیف جسٹس پر ہارس ٹریڈنگ کے فروغ کے الزامات عائد کیے۔
اس کے بعد ملک کی تاریخ میں پہلی بار یہ بھی ہوا کہ پارلیمان میں عدلیہ مخالف گفتگو کرنے پر اراکین اسمبلی کے ساتھ ساتھ ملک کے منتخب وزیراعظم کو بھی ذاتی حیثیت میں سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی کارروائی میں طلب کیا گیا (اس سے پہلے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو توہین عدالت کی کارروائی میں استثنا طلب کرنے پر سپریم کورٹ کی طرف سے ان کی ذاتی حاضری پر اصرار نہ کیا گیا تھا)۔
اس کے بعد ایک ایسا واقعہ ہوا جس کا کسی بھی مہذب ملک اور کسی بھی دستوری مملکت میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا اور وہ واقعہ یہ تھا کہ 28 نومبر 1997 کے دن حکمران جماعت کے سیاسی کارکن درجن بھر ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کی قیادت میں سپریم کورٹ پہنچے (جن میں احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمٰن اور نیلام گھر سے شہرت پانے والے مسلم لیگی ایم این اے طارق عزیز بھی شامل تھے) اور وزیراعظم نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے دوران سپریم کورٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا اور وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی سماعت کرنے والے بینچ کو کارروائی چھوڑ کر کے اپنے چیمبروں میں پناہ لینا پڑی۔
لیکن معاملات یہیں پر ختم نہیں ہوئے۔ اسی تناؤ کے دوران سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے تیرھویں آئینی ترمیم، جس کے تحت پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر صدر کو حاصل بدنام زمانہ اس اختیار کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع کر دی جس کے تحت وہ بیک جنبش قلم منتخب اسمبلیوں کو گھر بھیج سکتا تھا ختم کر دیا تھا۔
اس سے حکومت اور عدالت عظمیٰ کے درمیان کشیدگی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ حکومت بھی کھل کر میدان میں آ گئی اور خود سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر دی۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کے ہی ایک بینچ کے فیصلے کے نتیجے میں اپنے عہدے سے رخصت ہونا پڑا اور جسٹس اجمل میاں نئے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔
جسٹس اجمل میاں کے چیف جسٹس بنتے ہی آئین کے آرٹیکل 63 اے کے خلاف دائر شدہ درخواستوں کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی اور بالآخر سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں چھ کے مقابلے میں ایک رائے کی اکثریت سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے خلاف آئینی درخواستوں کو خارج کر دیا۔
سپریم کورٹ کے چار ججوں کی طرف سے فیصلہ چیف جسٹس اجمل میاں نے تحریر کیا جس میں انہوں نے اس آرٹیکل کی تشریح کرتے ہوئے ارکان اسمبلی کی طرف سے صرف اور صرف قانون ساز ادارے میں کی گئی پارٹی کی ہدایات کی خلاف ورزیوں کو اس آرٹیکل کے تحت قابل گرفت قرار دیا۔
البتہ دو ججوں، جناب جسٹس سعید الزمان صدیقی اور جناب جسٹس ارشاد حسن خان، نے اس فیصلے سے اتفاق کرتے اپنا اضافی نوٹ بھی تحریر کیا جس میں انہوں نے اپنا جو موقف دیا وہ ملک کی موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے آج کے موقف سے مطابقت رکھتا ہے۔
ان دونوں ججوں نے یہ قرار دیا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے رکن قانون ساز ادارہ کی طرف سے پارلیمنٹ کی حدود سے باہر بھی کسی قسم کی ڈسپلن، حکمت عملی یا موقف کی خلاف ورزی (یعنی پارلیمان میں ووٹ ڈالنے یا ووٹ سے باز رہنے کے علاوہ بھی) اس سیاسی جماعت کے ووٹروں میں ناپسندیدگی کی موجب ہے، لہٰذا محض یہ عمل بھی اس رکن قانون ساز ادارہ کو اخلاقی، قانونی اور آئینی بنیادوں پر اس جماعت کی نمائندگی کا حق سے محروم رکھنے کے لیے کافی ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس سعید الزمان صدیقی کو بعد ازاں مسلم لیگ ن کی جانب سے پہلے آصف علی زرداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار مقرر کیا گیا تھا جبکہ بعد میں انہیں مسلم لیگ ن کی حکومت میں عشرت العباد کی جگہ سندھ کا گورنر لگا دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آرٹیکل 63 اے سے جڑے توہین عدالت کے مقدمے میں نواز شریف کی نمائندگی پیر کو سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے ہی کے ضمن میں ہونے والی سماعت میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے بیرسٹر علی ظفر کے والد اور سینئیر قانون دان ایس ایم ظفر نے کی تھی۔
اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور ان کے ہمراہی اراکین قومی اسمبلی تو بعد ازاں سپریم کورٹ سے توہین عدالت کے مقدمے میں بری ہو گئے تھے البتہ سپریم کورٹ پر حملے کے الزام میں طارق عزیز سمت سات رہنماؤں اور کارکنوں کو ایک ماہ قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔