پاکستان کا رواں سال 30 لاکھ افغانوں کو نکالنے کا منصوبہ: رپورٹ

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اسلام آباد اور اطراف میں افغان پناہ گزینوں کے رضاکارانہ انخلا کی مہلت آج ختم ہو رہی ہے۔ تاہم عید کی وجہ سے ان کی گرفتاری اور ملک بدری 10 اپریل تک مؤخر ہو گئی۔

نومبر17، 2023 کو کراچی کے مضافات میں ایک سرچ آپریشن کے دوران مبینہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو ایک پولیس وین میں بیٹھا ہوا دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے افغان پناہ گزینوں کے رضاکارانہ انخلا کی مہلت پیر 31 مارچ کو ختم ہو رہی ہے۔ تاہم عیدالفطر کی چھٹیوں کی وجہ سے افغان شہریوں کی گرفتاری اور ملک بدری 10 اپریل تک مؤخر کر دی گئی۔

پاکستان رواں سال ملک سے 30 لاکھ افغانوں کو نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ان غیر ملکیوں کے خلاف اکتوبر 2023 میں شروع کیے گئے ملک گیر آپریشن کا تازہ ترین مرحلہ ہے جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔

ان میں اکثریت افغان شہریوں کی ہے۔ اس مہم پر انسانی حقوق کی تنظیموں، کابل میں طالبان حکومت اور اقوام متحدہ نے شدید تنقید کی گئی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو ملنے والی سرکاری دستاویزات میں بتایا گیا کہ گرفتاریوں اور ملک بدری کا آغاز یکم اپریل سے ہونا ہے لیکن عیدالفطر کی چھٹیوں کی وجہ سے یہ کارروائی 10 اپریل تک مؤخر کر دی گئی۔

پناہ گزینوں کے لیے عالمی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 18 ماہ میں تقریباً آٹھ لاکھ 45 ہزار افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں 30 لاکھ افغان موجود ہیں۔ ان میں سے 13 لاکھ 44 ہزار 584 افراد کے پاس ’رجسٹریشن کا ثبوت‘ کارڈز ہیں جب کہ آٹھ لاکھ سات ہزار 402 کے پاس افغان سٹیزن کارڈز ہیں۔

باقی 10 لاکھ افغان ایسے ہیں جو کسی بھی قسم کی دستاویزات کے بغیر پاکستان میں موجود ہیں اور ان کا قیام مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ایک بار ملک بدر کیے جانے کے بعد یہ افغان دوبارہ واپس نہ آئیں۔

پاکستانی حکام چاہتے ہیں کہ افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افراد 31 مارچ تک دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی شہر چھوڑ کر رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس چلے جائیں، بصورت دیگر انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔

رجسٹریشن کا ثبوت رکھنے والے افغان شہری 30 جون تک پاکستان میں قیام کر سکتے ہیں، جب کہ تیسرے ملک میں دوبارہ آبادکاری کے منتظر افغانوں کو بھی 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی چھوڑنا ہو گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ وہ افغان شہریوں کی دوبارہ آبادکاری کے لیے غیر ملکی سفارتی مشنز کے ساتھ مل کر کام کریں گے، اور اگر یہ کوشش ناکام ہوئیں تو ان افغانوں کو بھی پاکستان سے ملک بدر کر دیا جائے گا۔

2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں افغان شہری ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ ان کی امریکہ میں دوبارہ آبادکاری کی منظوری دی گئی۔

یہ ایسا پروگرام ہے جس کے  تحت ان افراد کی مدد کی جاتی ہے جو ماضی میں امریکی حکومت، میڈیا، امدادی تنظیموں یا انسانی حقوق کے گروپوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔

تاہم، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری میں امریکی پناہ گزین پروگرام معطل کر دیا، جس کے باعث اب 20 ہزار افغان غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔

طالبان چاہتے ہیں کہ افغان پناہ گزین باعزت طریقے سے وطن واپس آئیں۔

ملک بدری کے منصوبے سے متعلق ایک دستاویز میں کہا گیا کہ ’کسی بھی افغان اہلکار کو کسی کمیٹی یا باضابطہ فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔‘

پناہ گزینوں کے لیے افغانستان کی وزارت کے ترجمان عبدالمطلب حقانی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ پاکستان یک طرفہ فیصلے کر رہا ہے، نہ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے لیے ادارے کو شامل کیا جا رہا ہے اور نہ ہی طالبان حکومت کو۔

حقانی نے کہا: ’ہم نے ان کے ساتھ اپنے مسائل شیئر کیے اور واضح کیا کہ پناہ گزینوں کو یک طرفہ طور پر ملک بدر کرنا نہ ان کے مفاد میں ہے اور نہ ہمارے۔‘

’یہ ان کے مفاد میں اس لیے نہیں کہ اس طرح پناہ گزینوں کو نکالنے سے پاکستان کے خلاف نفرت بڑھتی ہے۔‘

’ہمارے لیے یہ بالکل فطری بات ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں افغان شہریوں کی واپسی کا انتظام کرنا ایک چیلنج ہے۔ ہم نے درخواست کی کہ انہیں ایک طریقہ کار اور باہمی مفاہمت کے ساتھ واپس بھیجا جائے تاکہ وہ باعزت طریقے سے وطن لوٹ سکیں۔‘

خیبر پختونخوا میں ملک بدری کے عمل میں معاونت کے لیے دو ٹرانزٹ سٹیشن قائم کیے جائیں گے۔ ایک سٹیشن پشاور کے نواحی علاقے ناصر باغ میں ہوگا جب کہ دوسرا سرحدی قصبے لنڈی کوتل میں، جو طورخم سرحدی گزرگاہ سے تقریباً سات کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

افغان شہری ایک ایسے ملک میں اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں جسے وہ جانتے ہی نہیں۔

یہ واضح نہیں کہ ان افغان بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا جو پاکستان میں پیدا ہوئے، یا ان افغان جوڑوں کا کیا ہوگا جن کے پاس مختلف قسم کی دستاویزات ہیں اور ان خاندانوں کا کیا ہوگا جن میں ایک والدین پاکستانی شہری ہے اور دوسرا افغان۔

تاہم حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ایسے معاملات میں مدد کے لیے سوشل ویلفیئر کا عملہ موقعے پر موجود ہوگا۔

عمید خان، 30 سالہ افغان شہری، کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہے، جب کہ اس کی بیوی کے پاس پروف آف رجسٹریشن موجود ہے۔

پاکستانی حکومت کی پالیسی کے مطابق عمید کو ملک چھوڑنا ہوگا، جب کہ ان کی بیوی 30 جون تک پاکستان میں رہ سکتی ہیں۔ ان کے دو بچوں کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں، نہ پاسپورٹ اور نہ ہی کسی ملک کا شناختی کارڈ۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں پکتیا صوبے سے ہوں، لیکن کبھی وہاں گیا نہیں اور مجھے اپنے مستقبل کا کچھ پتہ نہیں۔‘

نذیر احمد کی پیدائش پاکستان کے شہر کوئٹہ میں ہوئی اور وہ کبھی افغانستان نہیں گئے۔ ان کا افغانستان سے واحد تعلق ان کے والد کے ذریعے تھا جو چار سال پہلے کوئٹہ میں انتقال کر گئے۔

21 سالہ احمد نے کہا کہ ’ہم وہاں کیسے جائیں؟ وہاں تو چند ہی لوگ ہمیں جانتے ہیں۔ ہمارے تمام رشتہ دار کوئٹہ میں رہتے ہیں۔

’اگر ہم وہاں گئے تو کیا کریں گے؟ ہم پاکستانی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں کچھ وقت دیا جائے تاکہ ہم جا کر حالات کا اندازہ لگا سکیں، کم از کم کوئی روزگار ہی ڈھونڈ سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان