پشاور کے اس علاقے سے گزرنے والی ریل کی یہ پٹڑی عرصہ دراز سے ٹرین کے گزرنے کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔
تاہم ریلوے ٹریک کے دونوں جانب گذشتہ تقریباً نصف صدی سے پھاٹک بازار قائم ہے، جو عید سے قبل معاشی طور پر کمزور خاندانوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
عید سے کچھ دن پہلے اس بازار میں لوگوں کا رش لگ جاتا ہے جہاں مردوں کے کپڑے 150 سے 800 روپے فی جوڑا تک ملتے ہیں۔
عزیز اللہ گذشتہ دو دہائیوں سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں اور ان کے مطابق اس مارکیٹ میں عید کے دنوں میں گاہک کا رش لگ جاتا ہے کیونکہ اس مہنگائی میں باہر سے نئے کپڑے خریدنا ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ یہ کپڑے کہاں سے آتے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ گلی محلوں میں لوگ گھومتے ہیں اور مختلف گھروں سے استعمال شدہ کپڑے خریدے جاتے ہیں۔
عزیز اللہ نے بتایا، ’کپڑے خریدنے کے عوض گھروں کو مختلف نئے برتن، پیالے، یا دیگر سامان دیا جاتا ہے اور پھر ہول سیلر ڈیلرز کپڑوں کو ایک جگہ پر جمع کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد عزیز اللہ کے مطابق: ’یہ کپڑے ہم ان سے خریدتے، یہاں اس مارکیٹ میں بیچتے ہیں اور یہ پشاور میں استعمال شدہ شلوار قمیص کی بڑی مارکیٹ ہے۔‘
اشرف خان مارکیٹ میں اپنے اور بچوں کے لیے عید کے کپڑے خرید رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مہنگائی کے اس دور میں یہ مارکیٹ کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ یہاں ہمیں 300 سے 5000 روپے تک بالکل نئے جیسے کپڑے ملتے ہیں۔
اشرف خان نے بتایا کہ باہر سے تو 1000 روپے تک کپڑا خریدنا ہوتا اور پھر سلائی کا خرچہ بھی آتا ہے۔ تو وہ غریب طبقہ کدھر سے برداشت کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا، ’کسی کے گھر چار پانچ بچے ہیں تو یہاں سے سب کے لیے کپڑے خریدنے پر 4000 روپے تک خرچہ آتا ہے لیکن باہر سے وہی کپڑے کم از کم 15000 روپے میں آئیں گے۔‘