محمد اشرف* بھی ان نو ہزار سے زائد مزدوروں میں شامل ہیں جو سردیوں کی ایک یخ بستہ شام دہلی کے وسط میں ہندوستان کے ایوان اقتدار کو ازسرنو تشکیل دینے کے لیے خون پسینہ ایک کر رہے ہیں، اگرچہ اس دوران اپنے خاندان کا معیار زندگی بدلنے میں انہیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
اشرف ملک کے سب سے باوقار اور شدید بحث کا موضوع بننے والے 134 ارب بھارتی روپے (1.7 ارب ڈالر) کے تعمیراتی منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس میں دارالحکومت کے سینٹرل وسٹا کو دوبارہ تیار کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کے لیے عالی شان نئے دفاتر، وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک نئی رہائش گاہ اور پارلیمان کی جدید ترین عمارت کا قیام شامل ہے۔
مشکل حالات اور رازداری کے ساتھ رو بہ عمل آنے والے اس انتہائی مشقت طلب کام کے باوجود اشرف اور اس کے کارکن ساتھی محض 400 روپے یومیہ اجرت کے ساتھ گھر لوٹتے ہیں، نوآبادیاتی عہد کی یادگار کنگزوے سمیت پورے تعمیراتی مقام کو دھات کی ایک بلند دیوار سے اوجھل رکھا ہوا ہے۔ کام کا ایک دن اوسطاً 10 گھنٹے سے لے کر زیادہ سے زیادہ 12 گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے جس حساب سے وہ فی گھنٹہ تقریباً 40 روپے وصول کرتے ہیں۔
روزمرہ کی بنیادی ترین ضروریات پوری کرنے کے بعد اپنے بچوں کی سالانہ فیس کے لیے درکار محض تین ہزار روپے کی معمولی رقم بچانا بھی اشرف کے لیے درد سر بن جاتا ہے اور نتیجتاً ان کے روشن مستقبل کے سپنے دھندلانے لگتے ہیں۔ اپنی مالی مشکلات کے ساتھ وہ ان ہزاروں ناقدین کی صف میں شامل ہیں جن کے خیال میں یہ فنڈز کسی اور بہتر جگہ استعمال کیے جا سکتے تھے۔
وہ کہتے ہیں ’ہمارے پاس پہلے سے پارلیمنٹ ہاؤس موجود ہے۔ ایک نیا بنانے کے بجائے اگر پردھان منتری مودی نے یہ (بجٹ) غریب خاندانوں کو دیا ہوتا تو بہت سارے لوگ رات بھوکے سونے سے بچ جاتے۔‘
37 سالہ اشرف ان چار ہزار کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں پارلیمنٹ کی دوبارہ تعمیر کی ذمہ داری سونپی گئی اور یہ ایسا حصہ ہے جسے مودی دسمبر 2022 تک تیار دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر مغربی بنگال ریاست کے مشرقی حصے کے باشندے اور اپنے ماتحت 13 مزدوروں سے کام لینے والے اشرف مقررہ تاریخ تک اس کی تکمیل پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔
وہ تعمیراتی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں چند سو میٹر کی دوری پر دو ٹاور کرینیں گھونگھے کی رفتار سے چل رہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’نہیں، نہیں، ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔‘ اپنی حتمی رائے دینے سے پہلے کہ یہ منصوبہ یقیناً 2023 تک طول کھینچے گا، وہ کہتے ہیں ’اندر بہت سا کام ابھی تک رہتا ہے۔ ابھی تمام دیواریں تکمیل تک نہیں پہنچی، پلستر ہونا باقی ہے، ماربل کے فرش تیار کرنے ہیں، چھتیں ابھی تک بنی نہیں۔۔۔۔۔۔ناممکن ہے۔‘
دوبارہ سے لش پش کیے جانے والا یہ علاقہ اپنے برطانوی ماہر تعمیرات ڈیزائنر کی نسبت سے لیوٹنز دہلی کے نام سے بھی معروف ہے جو برطانیہ کے تاریک نوآبادیاتی عہد کی آخری یادگاروں میں سے ایک ہے۔ دنیا کی مجموعی آبادی کا 17 فیصد سے زائد حصہ ان سرخ پتھروں والی نوآبادیاتی دور کی عمارتوں اور صاف ستھرے لانوں والی راہداریوں سے چلایا جاتا ہے۔
یہ علاقہ اور اسے صدراتی محل، جو کبھی وائسرائے ہاؤس ہوا کرتا تھا، سے جوڑنے والی سڑکیں اور انڈین پارلیمنٹ ہاؤس مودی کے نئے منصوبے کے بعد اب شکستہ اور گردوغبار کی زد میں ہیں۔
پیلے اور نارنجی رنگ کے ہیلمٹ اور چمکیلی پٹیوں والی سبز تعمیراتی واسکٹیں پہنے ہزاروں کارکن اپنے سروں پر تعمیراتی سامان اٹھائے پیدل گھومتے پھرتے ہیں جبکہ کچھ مشینوں پر کام کرتے ہیں۔
دو میل سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا تعمیراتی مقام اچھی طرح سے بند اور سٹیل کی سبز چادروں سے چھپا ہوا ہے۔ حکومتی توقعات کے مطابق 2024 تک یہ کھل جائے گا اور دہلی ایک نئے پارلیمان، وزیراعظم اور نائب صدر کی نئی رہائش گاہوں، ان کے تمام وزراء کے لیے نئے دفاتر اور آزاد ہندوستان کی تاریخ کی نمائندگی کرنے والے عجائب گھروں کو فخریہ انداز میں پیش کرے گا۔
2024 میں دوبارہ منتخب ہونے کے خواہشمند مودی کی ہندوستانی سیاست اور طاقت کے اشرافیائی دائرے میں ایک تازہ باب رقم کرنے کی خواہش کے پیش نظر جگہ خالی کروانے کے لیے انتہائی اہم وزارتوں پر مشتمل ایک درجن کے قریب دفاتر اور رہائش گاہیں زمین دوز کر دی جائیں گی۔
تب تک وہ ملک کے بہترین مکانات میں سے ایک میں رہائش پذیر رہیں گے لیکن اشرف جیسے گھروں سے دور مزدوروں کے لیے دھات کے ڈبے ہیں، ایلومینیم ذخیرہ کرنے والے کنٹینرز کی ایک کے بعد ایک قطار جہاں ہر ایک کنٹینر میں سونے کے لیے چودہ آدمی گھسیرٹے ہوتے ہیں۔
کرشنا شرما اور دلیپ راج تعمیراتی سلسلہ شروع ہونے کے سبب اپنی قسمت پر نازاں ہیں کیونکہ اس سے انہیں اپنے گاؤں سے باہر نکلنے اور راج پاتھ کے آخری سرے پر موجود تاریخی مقام انڈین گیٹ دیکھنے کا موقع ملا جو ان کا بچپن سے خواب تھا۔
اب وہ محض باب ہند دیکھ نہیں رہے بلکہ وہاں کام کر رہے ہیں۔
ابھی پچھلے مہینے شہر میں وارد ہونے والے 24 سالہ راج کہتے ہیں: ’بالکل ایسا ہی ہے کہ ہمارے لیے انڈین گیٹ (کے ارد گرد کے علاقہ) کی تزئین و آرائش کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا باعث فخر ہے۔ ہم بچپن میں یہ خواب دیکھتے تھے کہ ایک دن دہلی جائیں گے اور اسے دیکھیں گے۔‘
وہ شرماتے ہوئے مسکرا کر کہتے ہیں ’اب ہمیں دیکھیں، ہم اسے روزانہ کی بنیادوں پر دیکھ رہے اور تعمیر کر رہے ہیں۔‘
لیکن کیا وہ جانتے ہیں کہ یہ منصوبہ یا اس کا شکوہ دراصل ہے کیا؟
2018 سے دہلی کے ارد گرد کئی منصوبوں میں کام کرنے والے 22 سالہ شرما دی انڈپینڈنٹ کو بتاتے ہیں ’انڈیا گیٹ کی مرمت کی جا رہی ہے، اس کے سوا ہمیں کچھ نہیں پتہ۔ مجھے کہا گیا تھا کہ یہاں آ کر اپنی دستیابی سے آگاہ کرو چند اناڑی مزدوروں کی ضرورت ہے۔ سو ہم آ گئے اور میں اپنے دوستوں کو ساتھ لیتا آیا۔‘
اب اس کے آبائی گاؤں سے تعلق رکھنے والے چودہ مزدور یہاں کام کرتے ہیں اور اشرف کی طرح 400 دیہاڑی بناتے ہیں۔ یہاں ہیلتھ انشورنس فراہم کی گئی ہے نہ چھٹی کا کوئی مقررہ دن ہے۔ کئی مزدور لگاتار پورا ہفتہ کام کرتے ہیں تاکہ جس قدر ممکن ہو زیادہ پیسہ گھر لے جائیں۔
راج کہتے ہیں: ’ہم جو بھی کریں ہم جانتے کہ خطرہ مول لے رہے ہیں۔‘ وہ بات ان کے ذہن سے محو نہیں ہوئی جب گذشتہ تعمیراتی مقام پر ایک شخص اونچی منزل سے گر کر موت کی آغوش میں جا پہنچا تھا۔
ان مراعات کا ذکر کرتے ہوئے جو کام کے دوران کسی ناگہانی حادثے کی صورت میں اسے ملیں گی، وہ کہتا ہے ’میرے باس نے اس کے خاندان کو پانچ لاکھ بطور مالی امداد پیش کیے تھے۔‘
یہ دونوں دوست ہر ہفتے اپنے سپروائزر سے خرچے کے نام پر ہزار روپیہ مانگ لیتے ہیں جو بالآخر ان کی حتمی حساب سے کاٹ لیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہرحال اپنے سپروائزر کا اچھے لفظوں میں ذکر کرتے ہوئے راج کہتے ہیں، ’اگر مجھے کسی طبی ایمرجنسی، کھانا بنانے کے لیے درکار گیس کی قلت یا خوراک کی کمی کا سامنا ہو تو میں ان سے رقم طلب کر سکتا ہوں۔ بالآخر وہ میرے حتمی حساب سے یہ رقم کاٹ لیں گے لیکن وہ اچھے انسان ہیں۔‘
وہ صبح آٹھ بجے کام کے لیے نکلتے ہیں، انڈیا گیٹ کے سامنے اپنی آمد کی اطلاع کرتے ہیں اور شام چھ، سات بجے تک کام کرتے ہیں، لوہے کی سلاخیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا اور نئے ڈھانچے کی دیواروں کے لیے پتھر اور دیگر مواد تیار کرنا۔
اگرچہ راج اور شرما کے کارگو کنٹینر والے رہائشی ڈبوں میں اشرف کے ڈبوں سے بھی زیادہ رش ہے لیکن ان کے بقول ماہانہ تنخواہ کا تین ماہ مسلسل تاخیر کا شکار ہونا ان کی اصل پریشانی ہے۔
شرما کہتے ہیں ’ہمیں کہا گیا تھا کہ ہر مہینے کی 12 تاریخ کو پیسے ملیں گے لیکن ملے 22 نومبر کو۔ یہاں تک کہ دسمبر کی تنخواہ بھی 15 کو آئی۔‘
اگرچہ مودی کے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تقریباً 30 فیصد اضافے کے ساتھ گذشتہ دہائی کے دوران یومیہ اجرت میں کل 55 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن افراط زر بھی 2017 میں 3.33 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 6.62 فیصد تک پہنچ کر محض تین برسوں کے دوران دوگنی ہو گئی۔
ایک دبلا پتلا نوجوان ایک سادہ سے بوڑھے آدمی کے ساتھ تعمیراتی مقام سے چند میٹر دور آن نکلتا ہے، ٹریفک کی ایوننگ لائٹ ان کی واسکٹس سے منعکس ہو کر پلٹتی ہے۔
یہ 19 سالہ جمال خان ہیں جنہیں اس تعمیراتی منصوبے میں کام کرنے پر فخر ہے نہ مناسب تجربہ۔ تاہم وہ سپروائزر کے لیے نہایت موزوں امیدوار ہیں جنہیں اومیکرون لہر، دہلی کی کئی ماہ طویل فضائی آلودگی سے جنگ، اس وجہ سے تعمیراتی سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے والی گاڑیوں پر پابندی اور جنوری کے اوائل میں ہونے والی بارشوں جیسی مشکلات اور مقررہ تاریخ تک کام ختم کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔
16 برس کی عمر سے خاندان کا پیٹ پالنے کی خاطر بطور مزدور کام کرنے والے جمال خان کا تعلق ہندوستان کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک بہار سے ہے۔
ہائی سکول میں داخلے اور تعلیم مکمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ انہیں والد، والدہ، چار بہنوں اور دو بھائیوں کی صورت میں نو افراد پر مشتمل کنبے کی بنیادی خوراک پوری کرنا تھی۔ معمولی سے معمولی ملازمت کے حصول کے لیے اسے چھٹی جماعت کے بعد ہی (گیارہ یا بارہ سال کے آس پاس کی عمر میں) زبردستی سکول سے نکلوا لیا گیا تھا۔
جمال خان کے بقول انہوں نے بالآخر ایک رشتہ دار سے یہ سن کر بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا کہ پڑوسی ملک نیپال میں بہتر پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ اسے وہاں ایسی ملازمین مل گئیں جہاں یومیہ کم سے کم 600 روپے اجرت دی جاتی تھی جو یہاں تک کہ سینٹرل وسٹا پر سینئیر مزدوروں کو بھی نہیں ملتی۔
وہ کہتے ہیں، ’میں ہندوستان واپس نہ آیا ہوتا۔ یہاں کوئی بھی مجھے مناسب اجرت نہیں دیتا۔‘ افسوس کہ کویڈ کی وبائی مرض آن پہنچی اور جمال خان کے بقول انہیں اپنے خاندان کی دیکھ بھال کے لیے واپس آنا پڑا۔ سینٹرل وسٹا منصوبے پر اسے یومیہ اجرت کے علاؤہ کوئی سہولت نہیں ملتی، یہاں تک کہ سر چھپانے کے لیے کارگو کنٹینر میں جگہ بھی نہیں۔ وہ تعمیراتی مقام سے ہٹ کر ایک جگہ بنیادی رہائش رکھے ہوئے ہیں جس سے ان کے معاوضے کی رقم مزید کم ہو جاتی ہے۔
دی انڈپینڈنٹ نے سینٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینیئر اہلکار اور ٹھیکیدار سے کارکنان کی تنخواہوں اور شکایات کے حوالے سے رابطہ کیا لیکن ان دونوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
جب رات کو سونے کے لیے لیٹتے ہیں تو اشرف کے بقول وہ اس سوچ میں کھو جاتے ہیں کہ بچوں کی سکول فیس کے لیے کس سے جذبہ خیر سگالی کے تحت قرض مانگ سکتا ہوں، جبکہ راج کے تصور میں کپڑوں کا وہ جوڑا لہرانے لگتا ہے جو انہیں ہمیشہ کے لیے دہلی چھوڑنے سے پہلے خریدنا ہے۔
شرما اور جمال خان کے بقول انہیں پیشگی فکرمندی نہیں بلکہ ہر دن سے اس کی صورت حال کے مطابق نبٹیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ امید رکھیں گے کہ کوئی لاک ڈاؤن دوبارہ سے یہ منصوبہ تعطل میں نہ ڈال دے کیونکہ سینٹرل وسٹا کی صورت حال اور تنخواہوں سے کہیں زیادہ بدتر چیز کام پر نہ ہونے کا جان لیوا خوف ہو گا۔
*نام ان کی درخواست سے بدلے گئے ہیں
© The Independent