گلگت کے نواح میں تین ایسی جھیلیں واقع ہیں جن میں سات رنگ جھلماتے ہیں اور ان میں برف کے راج ہنس تیرتے ہیں اور ان کے ٹھنڈے ٹھار پانیوں کو چھونے سے رگوں میں دوڑتا ہوا خون جم جاتا ہے۔
نلتر کے مقام پر واقع بلیو جھیل کا نیلا جہاں بھی عجب ہے۔ پانی زندہ ہے اور پانی میں کھڑا درخت سوکھ کر مردہ ہو چکا ہے۔ زندگی اور موت جھیل میں یکجا ہیں۔
پری جھیل کے برف پانی سبز ہیں اور ایک طرف بادل کا سفید عکس ہے۔ پاکستانی جھنڈا لیے پری جھیل اسی طرح پراسرار ہے جیسے اسے ہونا چاہیے۔ بلند پہاڑی حصار میں بند یہ دنیا نلتر جھیلوں کی دنیا ہے۔ ان جھیلوں کے کنارے جو پگڈنڈیاں ہیں وہ ان کناروں پر لے جاتی ہیں جہاں فطرت سرگوشیاں کرتی ہے۔ جا بہ جا نم دیدہ پتھر ہیں جن پر نیلے اور سبز رنگ چڑھے ہیں۔
یوں لگتا ہے جیسے ان جھیلوں کے سکوت کو توڑنا گناہ ہو، وادیِ پر کیف کے سبھی رنگ نرالے ہیں۔ کناروں پر کوئی ہوٹل اور ٹک شاپ ہے نہ ہی کوئی خیمہ نصب ہے، اسی وجہ سے غلاظت نے جھیل کو معاف کر رکھا ہے۔
اگر یہ پڑھ کر آپ کے دل میں اشتیاق پیدا ہو گیا ہے کہ یہ کس جگہ کی بات ہو رہی ہے ہم آپ کو وہاں پہنچنے کی تفصیل بتائے دیتے ہیں۔ گلگت سے خنجراب روڈ پر نصف گھنٹہ کی مسافت کے بعد قراقرم ہائی وے سے نیچے بائیں جانب مڑیں تو نومل کی بستی اپنے دروازے وادیِ نلتر کی طرف کھولتی ہے۔
قراقرم پر جوتل اور نومل دو مقامات ایسے ہیں جہاں جیپیں کھڑی ہوتی ہیں جو نلتر کی جھیلوں تک لے جاتی ہیں۔ دریائے ہنزہ پر بنا ہوا پل عبور کیا تو سنیل جیپ سٹینڈ کھڑا حیدر عباس ہمارا منتظر تھا۔ جیپ پر سوار ہوئے اور نومل بستی کی طرف چل پڑے۔
نومل بازار سے ضرورت کی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔ ہم نے بھی نومل سے ایس کام نیٹ ورک کی سم خریدی اور ایک پختہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے نلتر ندی کے کنارے آ گئے۔ تین کلومیٹر کے بعد پہاڑی راستہ شروع ہوا اور جیپ پتھروں سے لڑتے ہوئے آگے بڑھنے لگی۔ سڑک پر تعمیراتی کام جاری تھا اور یوں لگتا تھا کہ جون کے آخر تک سڑک بن جائے گی۔ پاکستانی فضائیہ کے نلتر کیمپ کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی تو سنی جا رہی تھی مگر جیپ والوں کی روزی کے رستے میں روڑے اٹکائے جا رہے تھے۔
حیدر عباس نے بتایا کہ نلتر زیرو پوائنٹ تک تو پکی سڑک بن جائے گی مگر نلتر بالا، ست رنگی جھیل، پری جھیل اور بلیو لیک تک جیپوں کے بغیر نہیں جایا جا سکے گا۔
ایک گھنٹے کے بعد ہماری جیپ نلتر زیرو پوائنٹ پہنچی تو شام ہو چکی تھی۔ نلتر کا بازار دس بارہ دکانوں پر مشتمل تھا اور لوگ خاموش طبع تھے۔ نجیب نے بتایا کہ یہاں پر جب برف پڑتی ہے تو پاکستان ایئر فورس کے زیر اہتمام سکیٹنگ کے مقابلے ہوتے ہیں، اس وجہ سے سال بھر کی روزی مل جاتی ہے۔ نلتر کانٹینینٹل ہوٹل کے خوبصورت لان میں نلتر ندی کا شور بھلا لگتا ہے۔ جون کے دوسرے عشرے کے دن بھی چھ درجہ حرارت لیے ہوئے تھے اور راتیں اس سے بھی سرد۔
صبح ہوتے ہی ہم سب جیپوں پر سوار ہوئے اور نلتر بالا کی طرف چل پڑے۔ آلو کی فصل تیار تھی اور یہی وہاں کے لوگوں کا ذریعہ آمدنی تھا۔ چیڑ کے جنگل کسی فلم کا منظر پیش کرتے تھے۔
انہی جنگلوں میں بشیکری کی چھوٹی سی آبادی تھی اور جنگلوں میں ایسی آبشار تھی جو درختوں کو اکھاڑنے پر تلی ہوئی تھی۔ آسمان سے باتیں کرتے درختوں کی جڑیں انسانی آنتوں کی طرح سطح زمین پر جال بنائے ہوئے تھیں۔
قراقرم کے دل میں واقع تین جھیلیں گلگت کی دو ہزار جھیلوں میں نمایاں تھیں۔ نلتر بالا سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر ہم ست رنگی جھیل کے کنارے پر کھڑے تھے اور اس جھیل کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ 3050 میٹر میں پھیلی یہ گول جھیل اپنی تہہ تک عیاں تھی اور اس پر بادلوں کا دودھیا رنگ نمایاں تھا۔
برف کے ٹکڑے پانی میں راج ہنسوں کی طرح تیرتے تھے۔ درختوں میں ڈھکی اس جھیل پر ٹہنیاں یوں جھکی تھیں جیسے پانی پر سجدہ ریز ہوں۔ ست رنگی جھیل میں سبز رنگ اس کی تہہ کا تھا اور پانی نیلا تھا۔ اطراف میں پہاڑوں کا چٹیل وجود بھی جھیل میں رقص کرتا تھا تو رنگ بدل بدل کر منظر تخلیق ہوتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ست رنگی جھیل کے کنارے سرکاری ریسٹ ہاؤس کی عمارت پرشکوہ ہونے کے باوجود ویران تھی اور اس کی پشت پر گوجروں کی جھونپڑیاں تھیں۔ ہم انہی جھونپڑیوں کے قریب سے گزر کر بلیو جھیل تک پہنچے تو حیران رہ گئے کہ نیلا رنگ ایسا پرکشش بھی ہو سکتا ہے کہ ایک رواں اور زندہ جھیل میں بغیر عکس بدلے نیلگوں لیپ چڑھا تھا۔
بلیو لیک کی لمبائی بھی 3150 میٹر تھی اور وہ ایک اور جھیل کے ساتھ جا ملتی تھی۔ ایک اور دل کش جھیل، پری لیک جو چھوٹے پہاڑوں میں تکون صورت تھی اور بہت پراسرار تھی، بالکل پریوں کی طرح، جن پر اعتبار بھی نہیں آتا اور ان کا تصور بھلا بھی لگتا ہے۔ نلتر بالا سے جھیلوں تک جو سفر کی تھکن تھی، یہ جھیلیں ان کا کفارہ تھیں۔
بلیو لیک کے کنارے پر گھنا جنگل اسے مزید خوبصورت بناتا تھا اور جھیل کے پانی کسی بھی طرح کی ملاوٹ سے پاک تھے۔ آلودگی پھیلانے والے اور گندگی پھینکنے والے یہاں تک نہیں پہنچے تھے۔
نلتر کی یہ جھیلیں سیاحوں کو اپنی طرف بلاتی تھیں اور وہاں کے باسیوں کی سال بھر کی روزی کا سبب بنتی تھیں۔ فطرت کا یہ شاہکار بھی بہت سے لوگوں کے لیے رزق کا وسیلہ ہیں۔