صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں پولیس نے منگل کو بتایا کہ ایک 11 سالہ بچی کے مبینہ ریپ اور قتل کیس میں گرفتار چار ملزمان اس وقت ’نامعلوم افراد‘ کی فائرنگ سے مارے گئے جب انہیں جائے وقوعہ کی نشاندہی کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔
بہاولپور کے علاوہ باقر پور میں 24 مارچ کو 11 سالہ بچی کو مبینہ طور پر ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
ایس ڈی پی او تحصیل صدر بہاولپور آغا فصیح الرحمان نے بتایا کہ ’چاروں ملزمان تھانہ صدر میں پولیس کی زیر حراست تھے جنہیں ریکوری کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ بعض نامعلوم افراد نے پل پر پولیس پر حملہ کر دیا۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ’ریپ کے ملزمان پولیس سٹیشن میں نہیں بلکہ پل پر ہی فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ فائرنگ کرنے والے بھاگ گئے۔ ’ہم نے ریسکیو 1122 والوں کو کال کی جنہوں نے زیر حراست چاروں ملزمان کی موت کی تصدیق کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تھانے پر حملہ کرنے والوں کی تلاش جاری ہے۔
اس سے قبل تھانہ صدر بہالپور کے ایس ایچ او راؤ شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ محض تین دن میں گرفتار کیے گئے ملزمان میں بچی کے دو ماموں بھی شامل تھے۔
راؤ شہزاد کے مطابق ’اس کیس پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور آئی جی پنجاب نے خود ایکشن لیا، جس کے نتیجے میں پولیس ملزمان تک پہنچی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ملزمان کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی کروا لیے گئے ہیں، جو ان چاروں سے میچ کرتے ہیں۔‘
ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ وقوعے کی رات پولیس نے علاقے کے 50 گھروں کو زیر تفتیش کر لیا تھا۔
’ان گھروں میں موجود تمام افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا، وہاں کی تلاشی لی گئی اور 25 افراد کو شارٹ لسٹ کیا گیا، جن پر شک تھا کہ ملزم ان ہی میں سے کوئی ہو سکتا ہے۔‘
راؤ شہزاد نے مزید کہا کہ ’مزید تفتیش میں 15 مشتبہ افراد کو شارٹ لسٹ کیا گیا، جن کے ڈی این اے ٹیسٹ لاہور کی فرانزک سائنس ایجنسی کو جمعرات کو بھجوائے گئے۔
’اس دوران ہم نے ان 15 میں سے بھی مزید چھ کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کی تو چار نے اقبال جرم کر لیا۔ ان میں سے دو بچی کے سگے ماموں ہیں۔‘
راؤ شہزاد نے بتایا کہ ’جائے وقوعہ بچی کے گھر کے بالکل قریب ہے۔ بچی گھر سے پانی لینے نکلی اور ایک گھنٹے تک اس کی کوئی اطلاع نہیں ملی جس پر والدین پریشان ہوئے اور پولیس کو اطلاع کی۔
’ہم نے جب علاقے کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ علاقہ ایسا ہے کہ یہاں باہر سے کوئی نہیں آ سکتا اور بچی کسی اجنبی کے ساتھ اتنی دیر تک غائب نہیں ہو سکتی۔
’اس لیے ہم نے پہلا شک بچی کے رشتے داروں پر کیا اور تحقیق شروع کی کہ قریبی رشتے داروں یا اہل محلہ میں سے کون ہو سکتا ہے اور اس طرح ہم لوگوں کو شارٹ لسٹ کرتے گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے تو 15 افراد کے بھیجے لیکن دوران تفتیش ان میں سے چھ کو ایسوں جو شارٹ لسٹ کیا جن پر شک مضبوط تھا۔‘
ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی ان میں سے چار نے اپنی زبان کھول دی اور سارا وقوعہ بتا دیا۔‘
راؤ شہزاد نے بتایا کہ تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ بچی کا سگا ماموں انس اورانس کا کزن محمود، جو 18 سے 22 سال کے درمیان کی عمروں کے ہیں، کنوارے ہیں۔
’ان دونوں کے فون ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ وہ ایسی پورن ویڈیوز بھی دیکھتے رہے ہیں، جن میں بچوں کے ساتھ نازیبا حرکات کی جاتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ دونوں ملزمان بچی کے گھر کے باہر کھڑے تھے، بچی گھر سے نکل کر گلی میں چل رہی تھی تو انہوں نے اس کا پیچھا کیا اور کچھ آگے جا کر وہ بچی کو بہلا کر قریبی سورج مکھی کے کھیت میں لے گئے۔
’اسی دوران گلی کے کونے پر بچی کا دوسرا ماموں عمر اور عمر کا کزن کامران بھی کھڑے تھے، جنہوں نے انس اور محمود کو بچی کو ساتھ لے جاتے دیکھا، ان کا پیچھا کیا اور دونوں کو کھیت میں بچی کے ساتھ بدفعلی کرتے دیکھا۔
’ان دونوں نے انس اور محمود کو روکنے کے بجائے گٹھ جوڑ کر کے باریاں لگائیں اور چاروں نے یکے بعد دیگرے بچی کے ساتھ بد فعلی کی۔‘
راؤ شہزاد نے مزید بتایا کہ ’چاروں نے بھانڈا پھوٹ جانے کے ڈر سے بچی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور میں سے تین ملزمان بچی کو کھیت میں پکڑ کر بیٹھے جبکہ چوتھا اپنے گھر سے چھری لایا اور معصوم کا گلا کاٹ دیا اور اسے وہیں چھوڑ دیا۔
’قتل کے بعد چاروں ملزمان اپنے اپنے گھروں کو واپس گئے اور بعد ازاں بچی کو تلاش کرنے والے میں شامل ہو گئے۔‘
ایس ایچ او کے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ملزمان نے سورج مکھی کے کھیت کے قریب ایک ٹیوب ویل پر اپنے کپڑوں پر لگا خون دھویا۔
انہوں نے کہا کہ ’بچی کی موت اسی وقت واقع نہیں ہوئی تھی بلکہ کچھ لوگوں کے کھیت تک پہنچنے پر وہ خون میں لت پت اٹھ کر بھاگی اور اس کی ماں اور ماموں نے اسے ہسپتال پہنچایا لیکن بچی راستے میں ہی دم توڑ گئی۔‘
راؤ شہزاد نے بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی کے تعاون کی وجہ سے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ دینے کے لیے ہفتے والے دن فرانزک لیب کو کھولا گیا۔‘