ریما ورما کی عمر 90 سال ہے۔ وہ بھارت کے شہر پونے میں رہتی ہیں۔ ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور تقسیم کے وقت میٹرک کی تعلیم حاصل کرنے تک وہ اپنے خاندان کے ساتھ راولپنڈی میں مقیم تھیں۔
مارچ اپریل 1947 میں شہر میں فسادات شروع ہوئے تو وہ گرمیوں کی چھٹیوں منانے شملہ چلی گئیں حالانکہ ا س سے پہلے وہ اپنے خاندان کے ساتھ گرمیاں مری میں گزارتی تھیں۔ جولائی میں ان کے والدین بھی اپنی جانیں بچا کر وہاں پہنچ گئے۔ خاندان کا خیال تھا کہ جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو وہ واپس اپنے گھر راولپنڈی لوٹ جائیں گے۔
مگر یہ کہانی صرف ریما ورما اور اس کے خاندان کی نہیں ہے جو بھی اُدھر گیا یا اِدھر آیا وہ پھر اپنے گھر وں کو لوٹ نہیں سکا۔ یہ مستقل ہجرت بن گئی۔ ریما خوش قسمت تھیں کہ ایک سال پہلے انڈپینڈنٹ اردو کے ذریعے انہوں نے اپنا گھر دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو ان کا ویزہ رد ہونے کے باوجود پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر کی مداخلت پر انہیں ویزا مل گیا۔
ایک بار اپنا گھر دیکھنے کی خواہش لیے دونوں طرف کے لاکھوں لوگ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور اب ان کی تعداد نہایت قلیل ہے جو ابھی تک زندہ ہیں۔
تقسیم کے وقت تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے جس کی وجہ وہ خونی فسادات تھے جن میں 20 لاکھ لوگ اپنی جانوں سے گئے تھے۔ عالمی تنظیم ہلال احمر بھی مرنے والوں کی تعداد 10 لاکھ بیان کرتی ہے۔ صرف چند ماہ کے اندر اتنی بڑی ہجرت اور ہلاکتیں اس سے پہلے دنیا نے کسی سانحے میں نہیں دیکھی تھیں۔
مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شاید کبھی نہ رکتا اگر دونوں ممالک مزید مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے پرمٹ سسٹم کا اجرا نہ کرتے۔ یہ سسٹم سب سے پہلے انڈیا نے 1948 میں شروع کیا جس کا مقصد منقسم خاندانوں کے باہمی رابطے بحال کرنا تھا۔ پرمٹ ہولڈرز شہری جب واپس جاتے اور انہیں اپنی جائیداد یا اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے میں مدد کی ضرورت ہوتی تو پولیس ان کی ہر ممکن مدد کی پابند تھی۔
تاہم یہ سسٹم بھی آسان ہر گز نہ تھا۔ پہلے اس کے حصول کے لیے ایک شخص مجسٹریٹ کو درخواست دیتا تھا اور جب ا س کی درخواست منظور ہو جاتی تو وہ اپنے خاندان کے افراد جو ا س کے ساتھ سفر کر رہے ہوتے ان کے لیے دوبارہ ایک درخواست دیتا۔
شروع میں پرمٹ صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوتا تھا تاہم بعد میں اس میں تصویروں کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ اسی طرح اگر اسے واپس جانا ہوتا تو وہ پھر این او سی پیش کرتا تو اسے واپس جانے کی اجازت ملتی۔ یہ سارا عمل تھانوں اور کچہریوں کے کئی چکر لگانے سے مکمل ہوتا تھا۔
اس سسٹم سے کچھ لوگوں نے استفادہ کیا مگر پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود تھا کہ اب مہاجرین اپنے گھروں کو کبھی لوٹ نہیں سکتے۔ پنجاب اور سندھ مہاجرین سے بری طرح متاثر ہوئے تھے اور کراچی والوں نے تو کہنا شروع کر دیا تھا کہ ’کراچی بھر گیا ہے‘ یعنی اب وہاں کسی ایک مہاجر کی بھی گنجائش نہیں رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پرمٹوں کا اجرا بھی اب محدود کر دیا گیا جس کی بعد بھی مہاجرین کی آمد رک نہیں رہی تھی۔ ’طویل بٹوارہ‘ نامی کتاب میں وزیرہ فضیلہ اور یعقوب علی زمیندار لکھتے ہیں کہ ’بنگال میں صورتحال مزید گمبھیر تھی۔ بنگال کے خصوصی پس منظر میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم ملے اور دہلی میں آٹھ اپریل 1950 کو ایک معاہدہ کیا جسے تاریخ میں نہرو لیاقت معاہدہ کہتے ہیں۔ اس کا مقصد بنگال میں اقلیتی آبادی کا انخلا روکنا تھا۔
اس معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے لیاقت علی خان نے 10 اپریل 1950 کو آئین ساز اسمبلی کو بتایا کہ ’وہ لوگ جو 31 دسمبر سے پہلے اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے نہ صرف ان کی جائیدادیں بحال کر دی جائیں گی بلکہ دونو ں ریاستیں اس سلسلے میں تعاون کریں گی۔‘ اس معاہدے کا اطلاق مغرب کے مہاجرین کے بجائے مشرق کے مہاجرین کو ہوا اور زیادہ تر بے دخل افراد اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔‘
نہرو لیاقت معاہدے کے بعد امید تھی کہ مہاجرین اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے لیاقت علی خان نے مہاجروں کی ایک ٹرین کو خود کراچی سے رخصت بھی کیا لیکن جب یہ لوگ وہاں گئے تو ان کے ساتھ اتنا برا سلوک ہوا کہ یہ لوگ بمشکل اپنی جانیں بچا کر واپس آئے۔
اس کے بعد یہ طے ہو گیا کہ اب جو جہاں ہے اس کی آبادکاری کی جائے۔ مئی 1952 میں پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان سفر کے لیے پرمٹ کی بجائے پاسپورٹ کی تجویز پیش کی جس کی انڈیا کی جانب سے مخالفت کی گئی، کیونکہ ہندوستان مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کی نقل و حرکت کو اہم سمجھتا تھا جس کے لیے اس سے پہلے نہرو لیاقت معاہدہ بھی کیا گیا تھا۔
لیکن جب ہندوستان کی مخالفت کے باوجود پاکستان نے یک طرف طور پر پاسپورٹ سسٹم نافذ کرنے کی دھمکی دی تو 17سے 21 مئی کو کراچی میں دونوں ممالک کے درمیان پاسپورٹ سسٹم کے اجرا کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس کی روشنی میں جون 1952 میں معاہدہ ہو گیا جس کے بعد دونوں ممالک کے شہر ی بغیر پاسپورٹ کے سرحد کے آر پار نہیں جا سکتے تھے۔
پرمٹ کی زیادہ تر پابندیاں جیسے کہ عدم اعتراض کا سرٹیفیکیٹ، پولیس رپورٹ کی شرائط وغیرہ پاسپورٹ سسٹم کا بھی حصہ بنا دی گئیں اور جس طرح پرمٹ صرف مخصوص منزل کا دیا جاتا تھا وہی شرط پاسپورٹ کے ساتھ بھی نتھی کر دی گئی جو آج بھی دونوں ممالک کے درمیان ویزوں کے اجرا میں موجود ہے۔
پھر بھی دونوں ممالک کے درمیان 1947سے 1965 تک نسبتاً خوشگوار تعلقات رہے جس کی ایک مثال یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ 1949 تک انڈیا کی 20 فیصد برآمدات اور 50 فیصد درآمدات پاکستان سے ہو رہی تھیں۔
1965 کی جنگ سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان 14 معاہدے بھی ہوئے۔ 1957 میں صدر ایوب نے انڈیا کو سب سے پسندیدہ ملک قرار دیا تھا۔ دونوں ممالک کے بنک سرحد کے آر پار کام کر رہے تھے۔ تاہم یہ 1965 کی جنگ تھی جس نے سب کچھ بدل دیا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے دوست کی بجائے دشمن بن گئے۔
اس کے بعد کئی بار دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ روابط بڑھانے کے لیے کئی بار کوششیں شروع کی گئیں۔ دوستی بس سروس سمیت دو طرفہ وفود کے تبادلوں سمیت لوگوں کا لوگوں سے رابطہ بڑھانے کی سنجیدہ کوششیں بھی ہوئیں مگر کارگل کی جنگ، بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ اور بمبئی حملوں سے لے کر بھارت کی جانب سے بالاکوٹ پر فضائی حملوں تک اور اب کشمیر کو متنازعہ علاقے کی بجائے انڈیا کا حصہ قرار دینے تک بد اعتمادی کی ایک ایسی فضا جنم لے چکی ہے جس کی برف پگھلنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔