بھارت کے شہر پونا میں رہنے والی رینا چبرورما (توشی آنٹی) اگلے سال 90 برس کی ہوجائیں گی لیکن تقسیم کے74 برس بعد بھی ان کا دل راولپنڈی کی یادوں میں کھویا ہوا ہے۔
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی اس خطے سےلاکھوں لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ اپنے گھر،محلے علاقے کی یادیں آج بھی لاکھوں لوگوں کے دلوں کو بےچین کرتی ہیں۔
جنوری 1932 کو راولپنڈی میں پیدا ہونے والی رینا ورما کا تعلق ایک پڑھے لکھے روشن خیال گھرانے سے ہے۔ ان کے والد برطانوی حکومت میں آفیسر تھے۔
تقسیم سے قبل راولپنڈی میں ان کی رہائش دیو کالج روڈ پر تھی۔ جس کے پاس کمپنی گارڈن اور گورڈن کالج موجود تھے۔ جو اب لیاقت باغ اور لیاقت روڈ کے نام سے جانے جاتے ہیں انہوں نے ماڈرن سکول راولپنڈی سے 14 برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
اپنے زمانے کے پنڈی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، وہاں سب محبت سے رہتے تھے۔ کچھ ملنے والے مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے گھروں میں کھانا پینا درست نہیں سمجھتے تھےان سے اختلاف کے بجائے سوچ کا احترام کیاجاتا تھا۔
لیکن زیادہ تر لوگ ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ بڑی بہن کی سہیلی غلام فاطمہ اور بھائی کے دوست شبیر انہیں آج بھی یاد ہیں جو ایسے ملتے اور گھر میں ایسے کھاتے پیتے تھے جیسے ان کا اپنا گھر ہو۔
ہم نصابی کتابوں میں ہمیشہ پڑھتے رہے کہ فسادات میں مسلم خاندانوں کو کیسے نیزے میں پرویا گیا۔ لیکن یہ فسادات یک طرفہ نہیں تھے۔ ہندو اور سکھوں کو بھی ایسے ہی دنگے فسادات اور حملوں کا سامنا تھا۔
توشی آنٹی بتاتی ہیں کہ 1947 کے فروری مارچ سے راولپنڈی میں بھی فسادات شروع ہوگئے۔ اس وقت گلیوں میں باری باری پہرہ دیاجانے لگا۔
ایک گھر کے بڑے سے حصے میں پورے محلے کے لیے جگہ بنادی گئی تاکہ شرپسندوں کے حملے کے وقت سب ایک جگہ جمع ہوجائیں۔ جن گھروں میں بیٹیاں تھیں وہ لوگ بہت پریشان تھے۔
فوج کے ایک میجر صاحب انہیں اور محلے کی دیگر لڑکیوں کو فوجی کیمپ میں لے گئے چند دن بعد حالات بہتر ہونے پر گھر واپس آگئے۔
کچھ دن بعد توشی آنٹی کی والدہ مارکیٹ گئیں تو حالات پھر کشیدہ ہوگئے۔ دکانیں بند کرادی گئیں۔ وہاں ایک جاننے والے درزی جن کا نام شفیع تھا،انہوں نے رینا کی والدہ کو اپنی دکان مین چھپا لیا۔ کئی گھنٹے بعد صورتحال بہتر ہونے پر وہ ان کی بے جی کو خود گھر چھوڑکرگئے۔
رینا کا خاندان تقسیم کے اعلان سے ایک ماہ مئی 1947میں قبل ہندوستان چلا گیا تھا۔وہ کہتی ہیں ہم ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں مری میں گزارتے تھے اس سال ممی پاپا نے ہمیں شملہ بھیج دیا۔ دو ماہ بعد وہ بھی ضروری سامان سمیٹ کر ہمارے پاس آگئے۔
اس دوران دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ تقسیم ہوگئی لیکن ہم سب کے وہم و گمان میں بھی کہیں یہ نہیں تھا کہ ہم واپس اپنے گھر نہیں جائیں گے۔
ممی نے ہمیں وہاں گھر نہیں لینے دیا کہ ہم واپس پنڈی اپنے گھر جائیں گے۔ ممی تو اپنا گھر چھوڑنے کا سوچ ہی نہیں سکتیں تھیں،کہتی تھیں کہ پہلے برٹش راج تھا اب مسلمانوں کو ہوگا تو کیا ہوا۔تقسیم ہم سے ہمارا گھر تھوڑی چھین سکتی ہے۔ لیکن پھر ماحول ایسا بن گیا کہ ہم کبھی بھی اپنے گھر واپس جا ہی نہیں سکے۔
تقسیم کی لکیر بھی ان کے دل سے اپنے شہر کی محبت نہیں نکال سکی۔ انہوں نے پاکستان آنے کے لیے کئی بار پاسپورٹ بنایا لیکن وہ پنڈی نہیں آسکیں۔
1954میں لاہور میں ہونے والے پاک بھارت میچ میں حکومت پاکستان نے بغیر ویزہ آنے کی سہولت دی جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور کا دورہ کیا لیکن اپنے گھر اور شہر کی یادیں انہیں 90 برس کی عمر میں بھی بے چین کیے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیس بک پر کئی پاکستانی ان کے فرینڈز ہیں جن میں سے ایک پنڈی سے تعلق رکھنے والے سجاد حیدر بھی ہیں جنہوں نے توشی آنٹی کو ان کے گھر کی تصاویر اور ویڈیوز بناکر بھیجیں۔
وہ گھر جو آج بھی ان کے خوابوں میں آتا ہے بالکل ویسا ہی ہے جیسا ان کے بچپن میں تھا، ۔ رینا کہتی ہیں،ٹھیک ہے وہاں کوئی اور رہتا ہے لیکن مجھے تو وہ آج بھی اپنا گھر لگتا ہے۔ عمر کا کوئی بھروسہ نہیں کاش ایک بار اپنا گھر دیکھ سکوں۔
انسانیت کو ترجیح دینے والی رینا کہتی ہیں دو ملک بننے تھے بن گئے لیکن تقسیم کے وقت جو خون خرابہ ہوا،اس سے دل دکھتا ہے، جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہمیں اس سب کو بھول کر انسانیت کے دھرم کو آگے رکھنا چاہیے۔
ہم نے وہ خون خرابہ دنگے فساد اپنی آنکھوں سے دیکھے لیکن ہمارے دلوں میں پھر بھی نفرت نہیں پھر یہ آج کل کے بچے جنہوں نے تقسیم کا زخم براہ راست نہیں سہا ان کے اندر ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیوں ہے؟
اپنے اپنے مذہب پر سختی سے عمل کیجیے لیکن اگر ہم ایک دوسرے کے مذہب کا بھی احترام کرنےلگیں تو سب اچھا ہوجائے گاجو ماضی میں ہوچکا اسے بھول کے آگے بڑھنا چاہیے ۔ دونوں ملک ایک نہیں ہوسکتے لیکن اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا تو سیکھ سکتے ہیں۔