یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کریں:
پاکستان میں ووٹ ڈالنے والوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان نوجوانوں میں سے اکثریت کو 15 سیکنڈ کی ویڈیوز دیکھنے کا شوق ہے۔
اسی شوق کی آبیاری کے لیے آڈیو ویڈیو پروڈیوسر دن رات جُتے رہتے ہیں۔
یوں تو آئے روز ہی کوئی نہ کوئی ویڈیو کلپ قہر بن کے ٹوٹتا ہے جس میں ہم عوامی یا حکومتی شخصیات کو پیسوں کے لین دین، خفیہ ملاقاتوں یا معیوب حرکتوں میں مصروف دیکھتے ہیں۔
ہر چند روز بعد فون کالز کی ریکارڈنگ یا کمروں میں لگے وائس ریکارڈر کی ریکارڈنگ لیک ہوجانا بھی معمول بن گیا ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ کیسے کہانیاں گھڑی جاتی ہیں اور کیسے صفائی پھیری جاتی ہے۔
ایسے ہی اب پبلک ڈومین کی ویڈیوز بھی جاری ہونے لگی ہیں جیسے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگز ہمیں دکھاتی ہے کہ ڈاکو کہاں سے آئے، کیسے لوٹا، فائر کیا اور کتنی سرعت سے بھاگ نکلے۔
جب تواتر سے کوئی کام ہو تو وہ خود بخود ہمارے مشاہدے سے باہر نکل جاتا ہے جیسے کہ پاکستانیوں کے گھروں میں چائے بننا۔ نہ چائے بنانے والے کو کوئی حیرت سے دیکھتا ہے، نہ یہ غیر ضروری معلومات یاد رکھی جاتی ہیں کہ گذشتہ ہفتے شام چار سے چھ کے درمیان چائے کتنی بار بنی، کس نے بنائی، کس کے لیے بنائی اور اس میں کتنی چینی پتی دودھ استعمال ہوئے۔
بالکل ایسے ہی ہماری آنکھیں اور کان عادی ہوچکے ہیں اپنے ارد گرد کی برائی، بدمعاشی اور بے ایمانی کو قبول کرنے کے لیے۔
سچ بتائیں یہ ویڈیو یا آڈیو لیکس کیا اپنی حیثیت کھو نہیں چکیں؟
جب ان لیکس میں سرعام اپنی اصل کے ساتھ ظاہر ہو جانے والےافراد ہمیں پبلک کا بھرپور اعتماد جیتتے نظر آتے ہیں، جب خفیہ آڈیوز میں بری طرح ایکسپوز ہونے والے ہمیں وطن سے وفا کا بھاشن دیتے ہیں اور پبلک خوشی خوشی زندہ باد، زندہ باد کے نعرے لگاتی ہے۔
ہر لیک کے بعد دو طرح کا ردعمل آتا ہے۔ ایک ردعمل جھینپنے والی پارٹی دیتی ہے جن کا بندہ ویڈیو یا آڈیو میں چاند چڑھا رہا ہوتا ہے۔ فریق دوم وہ پارٹی جو خفیہ لیک سے سیاسی پوائنٹ سکور کرتی ہے۔
فریق اول یعنی جھینپنے والی پارٹی کے پاس بغلیں جھانکنے کے علاوہ دفاع کے لیے یہ بیان کامیاب حربہ ہوتا ہے کہ لیک آڈیو کا فرانزک ہونا چاہیے، یہ ٹوٹے جوڑ کر کلپ بنایا گیا ہے، اگر ویڈیو لیک ہو تو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا کاندھا ہی کافی ہوتا ہے۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے حوالے سے پہلی بار عوام کو آگہی اداکارہ وینا ملک نے دی تھی جب انہوں نے بھارتی میگزین پر الزام لگایا تھا کہ ان کی تصاویر نازیبا انداز میں ایڈٹ کی گئی ہیں۔
زیادہ مشکل میں فریق دوم سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں جو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ خفیہ ریکارڈنگ والے ہم ہیں، یہ اقرار بھی مشکل کہ خفیہ ویڈیو خفیہ والوں نے بنائی، یہ کہہ دیں کہ دشمن ملک کا کام ہے اس سے بھی کام نہیں چلتا۔
ویڈیو لیکس پر اگر وہ ڈھول تاشے بجائیں تو انہیں یہ بھی علم ہے کہ میموری کلاؤڈز ہماری ویڈیوز سے بھی لبالب بھرے ہیں اور اظہار افسوس کریں تو یہ ڈر کہ کہیں ہماری لیک نہ ہوجائے۔
قسط وار آڈیو ویڈیو لیکس کا وہی حشر ہو رہا ہے جو پانامہ لیکس کا ہوا یعنی سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔ جیسے سیاست میں لیک ویڈیوز اور آڈیوز کی سٹار کاسٹ اب انجام سے بے پروا نظر آتی ہے ایسے ہی کراچی کی گلیوں، گھروں اور دکانوں میں بے جگری سے لوٹ مار کرنے والے ڈاکو بھی سی سی ٹی وی کیمروں سے نڈر ہوگئے ہیں۔
وہ دن دور نہیں جب یہ کیمرا دیکھ کر ہاتھ ہلا دیا کریں گے اور جو ذرا کری ایٹو ڈاکو ہوئے تو بعید نہیں کیمرے کے پاس آکر پولیس سے فیڈ بیک کے لیے پوچھ لیں: ’کیسا؟‘
ہر لیک ویڈیو اور آڈیو کا فرانزک ناممکن ہے اور لیک کی بنیاد پہ قوم کے مجرموں کو پکڑ لیا گیا ہو، ایسی کوئی نظیر بھی نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اچھائی اور برائی کی ریس میں یہ ضروری نہیں کہ قانون ہر برائی کو روکے، قانون نافذ کرنے والوں کے لیے ممکن نہیں کہ ہر کرمنل کو پکڑیں اور بالفرض اگر پکڑ بھی لیا تو قانون کا شکنجہ اتنا سخت نہیں کہ پکڑا ہوا کبھی رہا نہ ہو سکے۔
معاشرے کی آدھی سے زیادہ برائیوں کو پنپنے سے ہمیں خود روکنا ہوتا ہے۔ دو نمبر لوگوں کا راستہ ہمیں خود کاٹنا پڑتا ہے۔ ہر رانگ نمبر کا فطری فلٹر معاشرہ خود ہوتا ہے جو غلط کاروں کو اپنی صفوں سے آؤٹ کرسکتا ہے۔
یہ معاشرہ ہی ہے جو شٹ اپ کہہ سکتا ہے ورنہ انصاف کی دیوی کا کیا ہے، وہ تو اک شانِ بے نیازی سے قانونی موشگافیوں میں آپ الجھی ہے، ہمیں بھی الجھا رکھا ہے۔
لیک پروڈیوسر کو سمجھنا ہو گا کہ جس آڈینس کو آپ سیاسی مولا جٹ پچھلے کئی برسوں سے دکھا رہے تھے، اس آڈینس کا اب ایک ٹیسٹ ڈویلپ ہوگیا ہے، وہی ایکشن دیکھنے کو ملے گا تو بات بنے گی اور سیٹی بجے گی۔
حالیہ ضمنی الیکشن سے یہ ریٹنگ تو مل گئی کہ نِمی نِمی مرچ کے ساتھ جاری قسط وار ویڈیوز نے کوئی خاص رش نہیں لیا۔
اگر کانٹینٹ میں جان ہو اور معاشرے کا اجتماعی شعور زندہ ہو تو آڈیوز اور ویڈیوز کی پوری البم قسط وار ریلیز کرنے کی نوبت نہیں آتی، عوامی احتساب اور عوامی فیصلہ سنانے کے لیے ایک ہی ویڈیو کافی ہوتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔