ناول کو فلم میں ڈھالنے اور اس کے سواد کو اس قلب ماہیت کے دوران ضائع نہ ہونے دینے کا سوال، فلم بنانے والوں کے سامنے پچھلے 100 سال سے ہی تھا۔
کیا اچھے اچھے ناول ہیں، جن پر ایسی بےکار فلمیں بنیں کہ آج بھی حلق کڑوا ہو جاتا ہے۔
کہانی پکڑ میں آ گئی تو ماحول نہیں بنتا، ماحول بن جاتا ہے تو کاسٹنگ درست نہیں ہوتی، کاسٹنگ درست ہو جائے تو کاسٹیوم ٹھیک نہیں بنتے، یہ سب ہو جائے تو یہ کمبخت لائٹ اور بیک گراؤنڈ میوزک ہی قابو نہیں آ پاتا تھا۔
تخیل اور فلم کے درمیان ایک فاصلہ تھا جس نے قاری اور فلم بین کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹ رکھا تھا۔ وجوہات بے شمار تھیں، کم سے کم ایم فل کی سطح کا ایک ریسرچ پیپر تو لکھا ہی جا سکتا ہے۔
میرا بطور، ناول نگار، سکرین رائٹر اور شعبہ فلم کے ایک ادنیٰ طالب علم اور لیکچرار کے کچھ مشاہدہ ہے۔ میں نے کچھ ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی، جن میں ’امرتا پریتم‘ کا ناول ’پنجر‘ بھی شامل تھا (جس پر پڑوسی ملک میں ایک فلم بھی بن چکی ہے)۔
بہت محنت کے بعد بھی مجھے یوں لگا کہ بات نہیں بنی۔ فلم کا کینوس وسیع ہے مگر دورانیہ اتنا نہیں کہ ناول کی وسعت کو سمیٹ سکے۔
فلم چاہے ایوان گارد ہو لیکن کسی نہ کسی ڈھانچے پر کھڑی ہوتی ہے جبکہ ناول کے پلاٹ میں ناول نگار کہیں بھی صدیوں کی چھلانگ لگا کر واپس آ سکتا ہے اور اس سے پلاٹ کی چستی پر کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ یہ چھلانگ فلم کے دورانیے میں لگائی تو جا سکتی ہے مگر کہیں کسر رہ جاتی ہے۔
’گون ود دا ونڈ‘ کا دورانیہ دیکھ لیجیے۔ بات کہنے کے لیے دورانیہ بڑھانا پڑا۔ تکون کے زاویے قابو کر لیے جاتے تھے مگر ناول میں ایک چوتھی جہت بھی نکل آتی ہے۔ یہ چوتھی جہت فلم کے فریم سے باہر نکل جاتی تھی اور تشنگی رہ جاتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لکھے ہوئے لفظ اور سکرین پر دکھائے ہوئے مناظر کے درمیان بہت کچھ کھو جاتا ہے، اس کا تجربہ تو ہر سکرین رائٹر کو ہوتا ہے لیکن ناول کو سکرین پر لانا ایک اور ہی شے ہے۔
کچھ عرصے سے ویب سیریز کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ویب سیریز کا دورانیہ، اسے پیش کرنے کا انداز، کردار نگاری اور سب سے بڑھ کے ناظر کے ساتھ اس کا فلم بین اور کیبل کے ناظر سے ذرا مختلف کچھ کچھ ناول کے قاری جیسا رشتہ، ویب سیریز کو ایک ایسی صنف بنا گیا جو میرے خیال میں ناول کی سکرین پر پیش کش کے لیے موزوں ترین ہے۔
راقمہ ابھی اس زریں خیال کو پیٹنٹ کروانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ گیبرئیل گارسیا مارکیز کے ناول، ’تنہائی کے سو سال‘ پر بنی ویب سیریز سامنے آ گئی۔ دو روز تو ڈر کے مارے دیکھنے کی ہمت ہی نہ پڑی۔
وجہ یہ تھی کہ ان ہی دنوں ایک ڈائریکٹر کو اپنا بہت ہی سادہ سکرپٹ سمجھانے اور اس دوران جھلاہٹ کے دوروں سے گزر رہی تھی، دنیا بھر کے ڈائریکٹرز کے خلاف بغض و عناد کے خیالات نے دل و دماغ پر ڈیرہ جما رکھا تھا اور دل یہ تسلیم کرنے پر تیار ہی نہ تھا کہ کوئی ڈائریکٹر اس ناول کو ویب سیریز میں ڈھال بھی سکتا ہے۔
اس بارے میں سیریز دیکھنا شروع کی اور ایک بار دیکھنے کے بعد کل سے دوبارہ دیکھ رہی ہوں۔ کمی کیا ہے یہ تو شاید دوسری بار مکمل دیکھنے کے بعد بتا سکوں۔ فی الحال تو جادوئی حقیقت نگاری کی اسی کیفیت کا مزہ لے رہی ہوں، جو ناول پڑھتے ہوئے طاری ہوئی تھی۔
ناول اور فلم کے درمیان یہ چیز ہی کھو جایا کرتی تھی۔ ناول پڑھ کے جو احساس ہوتا ہے وہ اسی ناول پر مبنی فلم دیکھ کر نہیں ہوتا۔ یہاں معاملہ مختلف ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
فلم کی لائٹ کو ایک کردار کی طرح برتا گیا ہے۔ ہر سین میں روشنی اور سایوں کا تناسب، مکاندو کی گلیوں میں دھوپ کے رخ کا تعین اور پوری فلم کے دوران روشنی کے استعمال سے وقت کا تاثر اسی طرح دیا گیا ہے، جیسا ناول میں محسوس ہوتا ہے۔
کاسٹنگ بھی خاصی معقول ہے۔ صوتی تاثرات میں پرندوں کی چہکار مکاندو میں ایک کردار کی طرح موجود تھی اور فلم میں بھی یہ اسی طرح رکھی گئی ہے۔ کلر پیلیٹ وہی تاثر ابھارتی ہے جو ناول کی قرات سے ابھرتا ہے۔
فلم میں جو پودے، درخت وغیرہ دکھائے گئے وہ بھی ماحول سے قریب ترین ہے۔ کہانی ہر جگہ مکالمے ہی سے نہیں چلائی گئی، پس پردہ آواز ناول نگار اور قاری کا تعلق جگہ جگہ جوڑتی چلی جاتی ہے۔
یہ وہ تکنیک ہے جو ڈیڑھ ہوشیار ڈائریکٹرز کے ہاتھ نہیں آتی۔ ناول سے ویب سیریز، ڈراما یا فلم نکالتے ہوئے جہاں تک اصل مکالمہ مل سکے وہی لیجیے، جہاں نہ ملے وہاں وائس اوور سے ناول ہی کا بیانیہ استعمال کیجیے اور جہاں اشد ضرورت ہو، وہاں ڈکشن تبدیل کیے بغیر مکالمہ ری کنسٹرکٹ کر لیجیے۔ یہاں یہی تکنیک نظر آتی ہے۔
ٹائم لیپس کو قابو کرنا فلم بنانے والوں کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہاں اس مقصد کے لیے مکاندو کے چار مختلف سیٹ دکھائے گئے ہیں۔ کرداروں کی عمر دکھانے کے لیے جوانی اور بڑھاپے کے لیے الگ اداکار لیے ہیں اور ادھیڑ عمر پلار کو بوڑھا دکھانے کے لیے کمال میک اپ کیا گیا ہے۔ اس باریکی کو صرف سمجھا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی بڑے باہمت پروڈیوسرز موجود ہیں۔ جن میں سے دو کے نام بھی لینا چاہوں گی، سیما طاہر خان اور مومنہ درید۔ ان دونوں نے اردو کے کلاسک ناولز کی ڈرامائی تشکیل کروائی اور اپنے چینلز پر چلایا۔
یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔ ناول کے چاہنے والے اپنے پسندیدہ ناول کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔
آج ہم بھی یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں تجربہ تو ہوا، کام کیا گیا اور کام کیا جانا چاہیے۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی بقا کے لیے کلاسک مواد بہت ضروری ہیں۔ کلاسک پر کام کیے بغیر کمرشل کام بھی لچر پنے تک محدود ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس کی تفصیل پھر کبھی۔
فی الحال تو یہ ہے کہ کڑاکے کی ٹھنڈ پڑ رہی ہے، دیسی روئی کی رضائی نکلوائیں، کشمیری چائے کا مگ بھروائیں، خلیفہ کی نان ختائی کی پلیٹ قریب کر لیں، زیادہ عیاشی کا موڈ ہو تو نرگس کے پھولوں کا گلدستہ بھی تپائی پر رکھ لیں اور One Hundred Years of Solitude پر بنی ویب سیریز کو دیکھیے۔
ویک اینڈ گزارنے کا ایسا نسخہ بتا رہی ہوں کہ دعائیں دیں گے۔ سردیوں کی خاص سوغات ہے۔ چھٹیاں طویل ہوں تو اس کے بعد، Love in the Times of Cholera بھی دیکھ لیجیے گا۔
سردیاں کسی نہ کسی صورت تو کاٹنی ہی ہیں۔ یوں کاٹیں گے تو ممکن ہے آپ کی نیک نیتی دیکھتے ہوئے خدا ہمیں بھی توفیق دے اور ہم بھی اپنے کلاسک پر اچھا کام کر پائیں۔
صاحبو! یہ منڈی ہے، طلب ہو گی تو رسد آئے گی۔ ذوق اعلیٰ ہو گا تو اچھے مال کی کھپت ہو گی، ورنہ دیکھتے رہیے شام پانچ سے نو کا کیبل ٹی وی اور سال میں بننے والی تین فلاپ فلمیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔