ماہرین آثار قدیمہ نے کویت میں سات ہزار سال سے زیادہ پرانے عجیب الخلقت مجسمے دریافت کیے ہیں جن کے سر لمبے ہیں۔ اس دریافت جزیرہ نما عرب میں قدیم ترین بستیوں کی ابتدا اور ارتقا کے بارے میں مزید معلومات ملتی ہے۔
بحرہ ون کا مقام، جہاں یہ مجسمے دریافت ہوئے، 2009 سے عرب میں قدیم پتھر کے زمانے کی تہذیبوں پر تحقیق کا مرکز رہا ہے۔
اس مقام پر کھدائی کے دوران ماہرین کو عبید تہذیب کے بارے میں اہم معلومات ملی ہیں، جو اپنے عروج کے دور میں میسوپوٹامیا سے اناطولیہ اور جزیرہ نما عرب تک پھیلی ہوئی تھی۔
حال ہی میں ہونے والی کھدائی میں کئی چھوٹے لیکن خوبصورتی سے تیار کیے گئے مٹی کے مجسمے برآمد ہوئے ہیں۔
یہ مورتیاں جدید دور میں خلائی مخلوق (ایلیئن) کی تصاویر سے مشابہت رکھتی ہیں، جن کی لمبی کھوپڑی، ترچھی آنکھیں اور چپٹی ناک دکھائی جاتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ خصوصیات عبید تہذیب کی مورتیوں کا خاصہ ہیں۔
وارسا یونیورسٹی کے ماہرین آثار قدیمہ نے، جو اس کھدائی میں شامل تھے، اپنے بیان میں کہا کہ اگرچہ ایسے مٹی کے بنے سر پہلے بھی میسوپوٹامیا میں دریافت ہو چکے ہیں، بحرہ ون میں ہونے والی یہ دریافت خلیج کے علاقے میں اپنی نوعیت کی پہلی ہے۔
ماہر آثار قدیمہ پیوتر بیلنسکی کا کہنا ہے، ’ان مجسموں کی موجودگی ان کے مقصد اور اس قدیم معاشرے کے لوگوں کے لیے ان کی علامتی یا مذہبی حیثیت کے بارے میں دلچسپ سوال اٹھاتی ہے۔‘
یہ دریافت اس علاقے میں تیار کیے جانے والے مٹی کے برتنوں کی اقسام اور ان کی وسعت کے بارے میں بھی مزید معلومات فراہم کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عرب کے بڑے علاقے میں مٹی کے برتنوں کی دو اقسام زیر استعمال تھیں۔ ایک میسوپوٹامیا سے درآمد شدہ ’عبید‘ نامی مٹی کے برتن تھے اور دوسری مقامی مٹی کی برتنوں کی قسم تھی جسے کورس ریڈ ویئر کہا جاتا تھا۔
اگرچہ یہ بعد والی قسم گلف کے علاقے میں مقامی طور پر تیار کی جانے والی تھی، اس کے اصل کے مقامات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے۔
ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ، حالیہ کھدائی نے ثابت کر دیا ہے کہ بحرہ ون خلیج کے علاقے میں مٹی کے برتنوں کی سب سے قدیم پیداوار کی جگہ ہے۔
مٹی کے بعض برتنوں کی تیاری کے دوران شامل کیے گئے پودوں کے ٹکڑوں کا تجزیہ جزیرہ نما عرب کی ماحولیاتی تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتا ہے۔
ایسی نامیاتی باقیات مٹی کے برتنوں میں جڑی ہوئی پائی گئی ہیں، جن میں عبید ویئر اور کورس ریڈ ویئر دونوں شامل ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ یہ فوسل پودوں کی باقیات مقامی نباتات کی شناخت میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں جو چھ ہزار قبل مسیح کے وسط میں موجود تھیں۔
آرکیالوجسٹ رومن ہوسپان نے کہا، ’ابتدائی تجزیوں سے پتا چلا ہے کہ مقامی طور پر تیار کردہ مٹی کے برتنوں میں جنگلی پودوں کے آثار موجود ہیں، خاص طور پر گھاس کا تنا، جبکہ درآمد شدہ عبید مٹی کے برتنوں میں اگائے گئے پودوں کے نشانات، جن میں جو اور گندم جیسے اناج شامل ہیں، پائے گئے ہیں۔
© The Independent