عمران خان پر حملہ: تفتیش مکمل ہوئی نہ کرائم سین سے کنٹینر ہٹا

پی ٹی آئی چیئرمین پر حملے کی تحقیقات پنجاب حکومت اعلیٰ سطح پر کر رہی ہے لیکن 20 سے زائد دن گزر جانے کے باوجود اس سے جڑے کئی اہم سوالات اب بھی جواب طلب ہیں۔

(انڈی گرافکس)

پاکستان تحریک انصاف کے ’حقیقی آزادی لانگ مارچ‘ کے دوران تین نومبر 2022 کو صوبہ پنجاب کے جی ٹی روڈ پر واقع مرکزی شہر وزیر آباد میں عمران خان کے کنٹینر کو قریب سے نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کی تحقیقات پنجاب حکومت اعلیٰ سطح پر کر رہی ہے لیکن 20 سے زائد دن گزر جانے کے باوجود اس واقعے سے جڑے کئی اہم سوالات اب بھی جواب طلب ہیں۔

اب جبکہ متعدد وقفوں کے بعد عمران خان کے کارکن بالآخر 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچ رہے ہیں، جہاں پی ٹی آئی چیئرمین جلسہ کریں گے، انڈپینڈنٹ اردو نے اس سے قبل وزیرآباد میں اس مقام کا دورہ کیا ہے، جہاں عمران خان پر حملہ کیا گیا تھا۔ 

ان سطور میں جائے وقوعہ کی موجودہ صورت حال، کیس میں اب تک کی پیش رفت اور عمران خان کی صحت سے متعلق تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔

یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں:

جائے وقوعہ کی صورت حال

جائے وقوع پر صرف متاثرہ کنٹینر کو بیچ سڑک پر قناتوں میں لپیٹ دیا گیا ہے۔ اس کنٹینر کو یہاں سے تقریباً ایک ماہ گزرنے کے باوجود نہ ہٹائے جانے سے اردگرد کے تاجر سخت نالاں ہیں کیونکہ ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ چونکہ ماضی میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر حملے کے بعد راولپنڈی کے لیاقت باغ کی فوراً صفائی پر شدید تنقید کی گئی تھی اور یہ فیصلہ کرنے والے افسران کو عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، لہٰذا اس مرتبہ اسے ہٹانے کا کوئی جلد فیصلہ اسی لیے نہیں کیا جا رہا۔

عمران خان کا یہ کنٹینر جمعرات (تین نومبر) کی سہ پہر وزیر آباد کے اللہ والا چوک سے چند قدم پہلے جیسے ہی ون فائیو دفتر کے سامنے پہنچا تو اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔ پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کرنے والے حملہ آور محمد نوید کو لوگوں نے موقع سے ہی پکڑ لیا۔

مبینہ حملہ آور نے کنٹینر کو شہر میں داخل ہونے کے چند کلومیٹر بعد چند قدم کے فاصلے سے نشانہ بنایا تھا۔ حملہ آور نے بائیں جانب سے فائر کیے جہاں قریب میں ہی ایک رینٹ اے کار کمپنی کا احاطہ تھا۔ دفتر کے سیاہ رنگ کے گیٹ کے قریب سے حملہ آور پکڑا گیا اور وہیں پی ٹی آئی کارکن معظم گوندل گولی لگنے سے ہلاک ہوئے۔

فائرنگ کنٹینر کے بالکل ساتھ تقریباً دس فٹ کی دوری سے کی گئی۔ کنٹینر کی چھت پر لوہے کی دو دو فٹ اونچی دیوار لگی تھی، جن میں بھی گولیوں کے نشان موجود ہیں۔

وزیر آباد شہر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے تحصیل سے ضلع کا درجہ دے دیا ہے مگر ابھی تک ضلعی انتظامی افسران تعینات نہیں ہو سکے ہیں۔ گجرانوالہ اور گجرات کے درمیان واقع اس شہر میں جب انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم گذشتہ روز پہنچی تو کنٹینر جائے وقوعہ پر موجود تھا اور پولیس کی نفری بھی تعینات تھی۔

پولیس اہلکاروں نے کرائم سین کی کوریج کی اجازت سے بھی معذرت کر لی۔ ان کے ردعمل سے لگا جیسے انہیں سخت حفاظت کا حکم ملا ہو۔

حتیٰ کہ اسی جگہ پر موجود پولیس ہیلپ لائن سینٹر اور ریسکیو 1122 کا عملہ بھی کوئی معلومات دینے یا واقعے سے متعلق بات کرنے سے خوفزدہ دکھائی دیا۔

اس مقام پر جی ٹی روڈ بھی 30 سے 40 فٹ چوڑا اور ون وے ہے۔ حملے کے روز گجرات کی طرف جانے والی سمت پر کنٹینر کارکنوں کے ہجوم میں گھرا ہوا تھا اور اسی طرف سے حملہ آور نے اسے نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ جلوس آہستہ آہستہ پارٹی ترانوں کے شور میں آگے بڑھ رہا تھا اور کارکن عمران خان کا خطاب سننے کے منتظر تھے۔

وفاقی حکومت کے موقف کے مطابق گولی صرف اس ایک حملہ آور نے چلائی لیکن تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کنٹینر کے سامنے سے دوسرا فائر بھی ہوا جو ان کے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے بقول عمارتوں کےاوپر سے کوئی مشکوک نقل و حرکت نہیں دیکھی گئی۔

بعض لوگ جان سے جانے والے کارکن کی ہلاکت کی وجہ پستول نہیں بلکہ کلاشنکوف کی گولی بتاتے ہیں۔ اگر یہ موقف درست ہے تو گولی پھر تین جانب سے چلائی گئی، لیکن اس کی ابھی تک سرکاری سطح پر پنجاب حکومت نے کوئی تصدیق نہیں کی ہے۔

جس جگہ واقعہ پیش آیا وہ لاہور سے کم و بیش 160 کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے اور یہاں سے گجرات شہر 35 کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ یہ قافلہ آغاز سے گجرانوالہ سے 50 کلومیٹر کے قریب فاصلہ طے کر چکا تھا۔

گرفتار ہونے والے مبینہ حملہ آور محمد نوید کا مکان بھی اس جگہ سے نو کلومیٹر دور سیالکوٹ روڈ پر واقع ایک گاؤں سوہدرہ کی تنگ اور پسماندہ محلہ کی گلی میں واقع ہے۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم موٹر سائیکل پر جائے وقوعہ پر پہنچا تھا۔

ملزم کے رشتہ دار بھی گرفتار

ملزم نوید ایک غریب اور غیر معروف گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ البتہ ان کی گلی میں لوگ ان کے گھر کی نشاندہی کے لیے اشارہ کرتے ہوئے بھی گھبرا رہے تھے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو چھت سے پہلے ایک خاتون نے جھانک کر دیکھا اور پوچھا: ’آپ کون ہیں؟‘

اس کے بعد وہ آئیں دروازہ کھولا اور اپنی مشکلات کا اظہار شروع کر دیا۔ یہ عمر رسیدہ خاتون سیما بی بی تھیں، جوملزم نوید کی والدہ ہیں اور واقعے کے فوری بعد دیگر خواتین کے ساتھ انہیں بھی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔

سیما بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے محمد نوید حملے والے دن گھر سے خاموشی سے نکل گئے۔ ’ہمیں جب اطلاع ملی تو یقین نہیں آیا، پھر پولیس نے چھاپے مارے۔ ہم سب کو پکڑ کر لے گئے۔ ابھی بھی نوید کا بھائی، بہنوئی اور بھانجا پولیس کی حراست میں ہیں۔ نہ ملاقات ہو رہی ہے اور نہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ کہاں ہیں۔‘

سیما بی بی کے بقول نوید نے جو کچھ کیا وہ افسوسناک ہے لیکن اس کے ساتھ دیگر گرفتار کیے گئے بچوں کا جرم میں کوئی حصہ نہیں، اس لیے انہیں رہا کیا جائے۔ ’میرا بیٹا غلطی کر بیٹھا ہے کیونکہ وہ ڈاکٹر اسرار احمد کے خطاب کی ریکارڈنگ موبائل فون پر سنتا تھا اور اکثر کہتا تھا کہ عمران خان کا موقف مذہبی اقدار کے لحاظ سے توہین آمیز ہے۔ مجھے غصہ آتا ہے کہ نماز کے وقت میوزک چلتا ہے۔‘

سیما بی بی کے بقول وہ نمازی تو نہیں تھا لیکن مذہبی سوچ ضرور رکھتا تھا۔ ’میں منع کرتی تھی کہ ہر وقت کیا سنتا رہتا ہے اس طرح کی سوچ نہیں پالتے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے گھر کے ’کمانے والے بند ہیں، روزی روٹی بھی مشکل سے مانگ تانگ کر چل رہی ہے۔ معلوم نہیں کیا ہو گا؟‘

حملے کا مقام کافی گنجان آباد علاقہ ہے لیکن پولیس کے مطابق مارچ کے پہنچنے سے ایک روز قبل ہی دکانیں بند کروا دی گئی تھیں۔ انڈپینڈنٹ اردو کے جائے وقوعہ کے دورے کے دوران یہ معلوم ہوا کہ اس مقام سے دو تین چھوٹی گلیاں جڑی ہوئی ہیں اور ملزم کا منصوبہ تھا کہ فائرنگ کر کے وہ ان میں سے کسی ایک کے ذریعے فرار ہو جائے گا۔

تاہم ان گلیوں کے آغاز پر پولیس اہلکار موجود تھے جن کی وجہ سے اس کے لیے شاید فرار ہونا مشکل ہوتا۔

کنٹینر عام شہریوں کے لیے مسئلہ

حملے کو 20 سے زائد دن گزر جانے، ابتدائی ایف آئی آر کے درج ہونے اور ملزم کے گرفتار ہونے کے باوجود ’کرائم سین‘ کو کئی میٹر طویل قناتیں لگا کر بند کیا گیا ہے۔

معاملے کی چھان بین تین رکنی جوائنٹ تحقیقاتی (جے آئی ٹی) کے سپرد کر دی گئی ہے جس نے ملزم نوید کا جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر رکھا ہے۔

متاثرہ تاجروں کے مطابق جے آئی ٹی اب تک دو بار کرائم سین کا جائزہ لے چکی ہے۔ اس بارے میں مقامی تاجروں نے انتظامیہ کے اعلیٰ حکام سےملاقاتیں بھی کیں اور انہیں بتایا کہ ان کی دکانیں بند ہونے سے ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہو رہا ہے، لہٰذا اس کنٹینر کو جلد از جلد یہاں سے ہٹایا جائے اور پولیس کو دکانیں اور جی ٹی روڈ کھولنے کی ہدایت دی جائے۔

تاجروں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب تک چند دکانوں کے علاوہ سب بند پڑی ہیں اور علاقہ مکین بھی راستہ بند ہونے پر پریشان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس سارے معاملے میں ہمارا کیا قصور ہے؟ پولیس سے بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ ہائی پروفائل معاملہ ہے، سابق وزیراعظم پر فائرنگ ہوئی ہے۔‘

عام شہری بھی سڑک بند ہونے سے پریشان ہیں۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ گھر سے گاڑی نہیں نکال سکتے کیوں کہ راستہ بند ہے۔

متعلقہ ایس ایچ او تھانہ سٹی وزیر آباد عامر شہزاد سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب تک جے آئی ٹی اجازت نہیں دے گی روڈ نہیں کھول سکتے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ’دو بار تو ٹیم دورہ کر چکی ہے اور اس نے اور کیا تلاش کرنا ہے؟‘ تو جواب ملا کہ ’چاہے دس دفعہ دورہ کریں، ہم مجبور ہیں۔ اس بارے میں زیادہ بات نہیں کر سکتے۔‘ انہوں نے کیمرے پر موقف دینے سے بھی معذرت کر لی۔

ملزم نوید حملے کے فوراً بعد پولیس کی حراست میں جاری ویڈیو بیان میں تسلیم کر چکا ہے کہ فائرنگ اس نے ہوش و حواس میں کی ہے اور جذبات مجروح ہونے پر یہ قدم اٹھایا ہے۔

عمران خان نے بعد میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور ایک فوجی افسر پر ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا اور ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرانے کی درخواست دی لیکن چار دن تک ایف آئی آر درج نہ ہوئی۔ پھر پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر سات نومبر کو ایس ایچ او تھانہ سٹی وزیر آباد کی مدعیت میں درج کی، لیکن تحریک انصاف کے نامزد تین ناموں میں سے کوئی شامل نہیں تھا۔

اس کے بعد ملزم نوید کو انسداد دہشت گردی کی عدالت، گجرانوالہ میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ لیا گیا تھا۔ تحقیقات ابھی جاری ہیں اور نہیں معلوم کہ اس کی رپورٹ کب عوام کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔ فی الحال حکومت پنجاب اور پولیس نے اس معاملے پر میڈیا کو کچھ نہ بتانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

عدالت نے ملزم کو دوبارہ 29 نومبر کوعدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دے رکھا ہے۔

واقعے کی تفتیش کہاں تک پہنچی؟

پنجاب حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں صوبائی مشیر داخلہ عمر سرفراز چیمہ شامل ہیں جبکہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر جے آئی ٹی کے کنوینئر مقرر کیے گئے ہیں۔ دیگر اراکین میں سید خرم علی آر پی او ڈی جی خان، احسان اللہ چوہان اے آئی جی مانیٹرنگ، انویسٹی گیشن برانچ کے ملک طارق محبوب، ایس پی پوٹھو ہار اور نصیب اللہ خان ایس پی سی ٹی ڈی شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان پر حملے کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے ملزم نوید سے تفتیش شروع کر دی ہے جبکہ حملے کے محرکات سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے دعوے اور ملزم کے بیان میں تضاد پایا جاتا ہے۔

تفتیشی ٹیم کے ایک رکن نے ابھی تک کی پیش رفت کے بارے میں ابتدائی معلومات دیتے ہوئے کہا کہ ملزم نوید نے جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ اس نے اکیلے ہی اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ’کنٹینر کے سامنے پولیس نہ ہونے کی وجہ سے وہاں سے فائرنگ کی۔ اس کے بعد دائیں گلی میں فرار ہونا چاہتا تھا لیکن پکڑا گیا۔‘

جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو ملزم نے بتایا کہ اس کا کسی بھی سیاسی یا دینی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی نے حملہ کرنے کو کہا تھا۔ ملزم کے مطابق وہ دو گھنٹے تک حملے کے لیے جائے وقوعہ پر کھڑا انتظار کرتا رہا اور کنٹینر رینج میں آتے ہی فائر کر دیا۔

گرفتاری کے بعد ملزم کی نشاندہی پر نہ کہیں چھاپے کی اطلاع ملی اور نہ ہی کسی اور کے ملوث ہونے کا دعویٰ سامنے آیا ہے۔

اسلحہ کون سا استعمال ہوا اور کتنی گولیاں چلیں؟

پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق فائرنگ کے لیے محمد نوید نے جو اسلحہ استعمال کیا وہ 9MM ولایتی ہے جس کی مالیت اڑھائی سے تین لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔

پولیس نے جو ابتدائی رپورٹ بنائی تھی اس کے مطابق جائے وقوعہ سے حملے کے دوران چلنے والی گولیوں کے کل 13 خول ملے جن میں نو پستول جبکہ تین رائفل کے تھے۔ شبہ ظاہر کیا گیا کہ پستول کے فائر نیچے سے جبکہ رائفل کے فائر کنٹینر کے اوپر سے کیے گئے تھے۔

اس بارے میں بھی مکمل تحقیقاتی رپورٹ جے آئی ٹی تیار کر رہی ہے۔

جے آئی ٹی پر اعتراضات

جیسے ہی پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی تشکیل دی وفاقی وزارت داخلہ رانا ثنا اللہ نے محکمہ داخلہ پنجاب کو ایک مراسلہ ارسال کیا، جس میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم پر وفاقی حکومت کے اعتراضات شامل تھے۔

وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم میں تمام ارکان کا تعلق پنجاب حکومت اور پولیس سے ہے، جےآئی ٹی میں کسی اور ایجنسی اور خفیہ ادارے کا نمائندہ شامل نہیں۔

وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندے شامل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ یہ اچھا ہو گا کہ پنجاب حکومت اس جے آئی ٹی میں ان ایجنسیوں کے نمائندوں کو بھی شامل کرے۔

پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی کا سربراہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو بنایا لیکن ان کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن معطل کر چکا ہے۔ ’عارضی طور پر فیڈرل سروس ٹربیونل سے انہیں ریلیف ملا ہوا ہے لہٰذا ایسے آفیسر کو سربراہ مقرر کرنے سے شفافیت ممکن نہیں۔‘

حکومت پنجاب نے وفاق کا اعتراض مسترد کر دیا ہے۔ مشیر داخلہ عمر سرفراز چیمہ نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل پنجاب حکومت نے آئین قانون کے مطابق کی ہے اور اس میں وفاق کی کسی ایجنسی کا نمائندہ شامل کرنا لازم نہیں۔

عمران خان کی طبی رپورٹ

حملے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کو زخمی حالت میں فوری طور پر شوکت خانم ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کے علاج پر مامور چار رکنی میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر فیصل سلطان نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سیدھی ٹانگ پر بلٹ کے ٹکڑے لگے تھے، جس سے ان کی ٹانگ کی ہڈی متاثر ہوئی۔

شوکت خانم ہسپتال نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ عمران خان کی صرف دائیں ٹانگ میں گولی کے چار ٹکڑے ملے ہیں جبکہ عمران خان خود بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں چار گولیاں لگی ہیں۔

24 نومبر کو لاہور کے علاقے زمان پارک میں واقع عمران خان کی رہائش گاہ پر معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ اب سفر کر سکتے ہیں۔ ان کا پلستر اتار دیا گیا ہے اور ان کے زخم اب ٹھیک ہیں، جس کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین راولپنڈی میں جلسے کی قیادت کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان