وزیر آباد میں حملے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے نیا سکیورٹی پلان مرتب کیا گیا ہے، جس کے تحت سابق وزیر اعظم اب عوام کا براہ راست سامنا نہیں کریں گے۔
پی ٹی آئی کی رہنما اور پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا: ’ہم عمران خان کی سکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اب سے وہ لانگ مارچ میں عوام کا براہ راست سامنا نہیں کریں گے۔‘
عرب نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پارٹی (پاکستان تحریک انصاف) نے ایک نیا بلٹ پروف کنٹینر حاصل کیا ہے، جس کے اوپر بلٹ پروف شیشے کا پوڈیم موجود ہے، تاکہ اسلام آباد جاتے ہوئے حامیوں سے خطاب کیا جا سکے۔
مسرت چیمہ نے مزید کہا: ’ہم کثیرالجہتی اور فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنا رہے ہیں جو نہ صرف ہمارے رہنماؤں بلکہ مارچ کے شرکا کو بھی کسی بھی ناخوشگوار واقعے بچانے میں مدد گار ہو گا۔‘
سابق وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ مہینے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا تھا، جس کا مقصد مخلوط حکومت کو قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
تاہم لاہور سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر وزیر آباد میں عمران خان کے قافلے پر حملے کے بعد لانگ مارچ ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
اس حملے میں ایک شخص ہلاک اور عمران خان سمیت دس افراد زخمی ہوئے تھے۔
عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے جمعرات کو نئے حفاظتی اقدامات کے ساتھ مارچ کا دوبارہ آغاز کیا۔
پارٹی کے مطابق عمران خان اس ماہ رواں کے آخر تک لانگ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے تک اپنی رہائش گاہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکا سے خطاب کریں گے۔
مسرت چیمہ نے کہا کہ سابق وزیراعظم ایک بلٹ پروف گاڑی میں راولپنڈی سے اسلام آباد تک مارچ کی قیادت کریں گے، تاہم وہ عوامی طور پر نظر نہیں آئیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم عمران خان کی جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔‘
مسرت چیمہ نے کہا کہ کنٹینر ٹرک، جس کی قیادت اس وقت شاہ محمود قریشی اور دیگر کر رہے ہیں، اب پنجاب پولیس کے حفاظتی حصار کے اندر اسلام آباد کی جانب سفر کرے گا۔
انہوں نے کہا: ’یہاں تک کہ پارٹی کے اعلی رہنماؤں کو بھی پیشگی اجازت کے بغیر کنٹینر ٹرک پر سوار ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہم وزیر آباد جیسے واقعے کو دوبارہ ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارچ کے لیے تعینات پنجاب پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال پر مسرت چیمہ نے کہا کہ وہ ’سکیورٹی وجوہات‘ کی وجہ سے تفصیلات بتانے سے قاصر ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے جمعرات کو عمران خان کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے ہونے والے اخراجات کی سمری جاری کی جس کے مطابق پی ٹی آئی کے سربراہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ماہانہ دو کروڑ 19 لاکھ اور سالانہ 26 کروڑ 30 لاکھ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
جمعے کو پنجاب کی صوبائی حکومت نے تین نومبر کے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی۔
محکمہ داخلہ کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق لاہور پولیس کے سربراہ طارق رستم چوہان اس ٹیم کے کنوینر ہیں جس میں فوج کی زیر قیادت انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور وفاقی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ایجنسیوں کا کوئی اہلکار شامل نہیں ہے۔
پنجاب پولیس نے کافی تاخیر کے بعد سپریم کورٹ کی ہدایت پر سات نومبر کو واقعے کی ایف آئی آر درج کی تھی۔
مسرت چیمہ نے کہا کہ بدقسمتی سے ایف آئی آر کے اندراج میں غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے واقعے کی تحقیقات تاخیر کا شکار ہوئیں لیکن اب اس میں تیزی لائی جائے گی اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔