پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لانگ مارچ کے دوران جمعرات کو ضلع گجرانوالہ کے شہر وزیر آباد میں پارٹی چیئرمین عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کے واقعے کے بعد کئی سوالات تاحال حل طلب ہیں۔
ایک جانب واقعے کا مقدمہ درج نہیں کیا جاسکا اور دوسری جانب گرفتار ملزم محمد نوید کے ویڈیو بیانات میڈیا پر جاری کیے جانے سے متلعق قیاس آرائیوں جنم لے رہی ہیں۔
پولیس نے ملزم سے ابتدائی تفتیش کے بعد ان کا ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھا، جس پر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ تھانے کو معطل کرکے تفتیش کا حکم دیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم کو محکمہ انسداد دہشت گردی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
تاہم جمعے کو ملزم کا ایک اور بیان میڈیا کو جاری کیا گیا۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو میں ملزم کی ویڈیوز لیک ہونے کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد کی ہے۔
اس کے علاوہ یہ سوال تاحال حل طلب ہیں کہ فائرنگ کس طرف سے ہوئی؟ اس میں کتنے ملزمان شامل تھے؟ اور فائرنگ کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں؟
پولیس تفتیش میں کیا معلوم ہوا؟
گجرات کے ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملزم محمد نوید کو موقعے پر پکڑ لیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ملزم موٹر سائیکل مکینک ہے اور مذہبی خیالات رکھتا ہے۔
’ملزم سے جو پستول برآمد ہوئی وہ نائن ایم ایم ولایتی پستول ہے جس کی قیمت اڑھائی سے تین لاکھ روپے ہے۔
’ملزم کے پاس اس کا لائسنس نہیں، البتہ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 20 ہزار روپے میں یہ پستول خریدی تھی جس میں اس وقت نو سے 10 گولیاں تھیں۔‘
پولیس افسر کے مطابق: ’اب تک کی معلومات کے مطابق ملزم کا ایک اور بھی مسلح ساتھی تھا جو فائرنگ کے بعد فرار ہو گیا۔ ملزم نے دو، چار فائر کنٹینر پر کیے باقی پکڑ دھکڑ میں نیچے کی جانب ہوئے جس سے معظم نامی شخص مارا گیا۔‘
انہوں نے کہا ’کنٹینر سے بھی فائرنگ ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں کہ فائرنگ ہوائی تھی یا نیچے کی جانب کی گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملزم کا ویڈیو بیان جاری ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ملزم کا ویڈیو بیان میڈیا تک کیسے پہنچا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس طرح رش اور افرا تفری میں ایسی چیزیں چیک کرنا مشکل ہوتا ہے مگر ویڈیو بیان پولیس کی مرضی کے بغیر میڈیا تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور وہ بھی تب جب ملزم پولیس کی حراست میں ہو۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ گرفتاری اور ویڈیو بیان میں ملزم کے کپڑے مختلف کیوں دکھائی دے رہے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ ’کپڑے وہی ہیں البتہ فائرنگ کے وقت کھینچا تانی میں ان کا کوٹ اتر گیا جس وجہ سے کپڑے تبدیل دکھائی دے رہے ہیں۔‘
دوسری جانب محکمہ انسداد دہشت گردی نے گرفتار ملزم کے اہل خانہ کو بھی حراست میں لے کر ان کے مکان کو تالا لگا دیا ہے۔
مقدمہ درج کیوں نہ ہوا اور دوسرا بیان کیسے باہر آیا؟
آئی جی پنجاب آفس کے ایک ذمہ دار افسر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ تاحال اس واقعے کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا جبکہ سی ٹی ڈی مزید تفتیش کر رہی ہے۔
’مقدمہ درج کرنے کے لیے معلومات جمع کی جا رہی ہیں تاہم تاحال کوئی درخواست پولیس کو موصول نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے روکے جانے کے باوجود ملزم کا دوسرا بیان میڈیا کو کس نے اور کیسے جاری کیا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ایک افسر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملزم نوید کو سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیا گیا ہے اور معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔
’سب سے پہلے ملزم کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا؟ منصوبہ بندی کیا تھی؟ کیا کسی سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اس نے ایسا کیا؟ یا واقعی اپنے مذہبی جذبات مجروح ہونے پر یہ قدم اٹھایا؟ ان سب پہلوؤں کو دیکھا جا رہا ہے۔‘
واضح رہے کہ سی ٹی ڈی کے زیر حراست ملزم محمد نوید کے دوسرے ویڈیو بیان میں ڈی ایس پی سی ٹی ڈی عمران عباس پیچھے بیٹھے دیکھائی دیتے ہیں جس سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ دوسرا ویڈیو بیان سی ٹی ڈی کی حراست میں ریکارڈ ہوا اور میڈیا تک پہنچا۔
پولیس افسر کے مطابق واقعے میں زخمیوں کی میڈیکل رپورٹ میں تاخیر بھی مقدمہ درج نہ ہونے کی ایک وجہ ہے۔