بنگلہ دیش کے قیام سے صرف پاکستان ہی دو حصوں میں نہیں ٹوٹا، اس بہت سے دلوں کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ پشاور کے گل اکبر کاکا کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اس دن اپنے بچوں اور جوان بیوی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر پاکستان آنا پڑا۔
آج ہی تاریخ یعنی 16 دسمبر 1971 کی بات ہے جب سب کچھ تقسیم ہو گیا۔ وہ بات جس کا چند ماہ قبل سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا، وہ اچانک ہو گئی۔ اس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، لیکن ہم آپ کو خاص طور پر ایک سپاہی کی کہانی سناتے ہیں۔
’آپ کہیں پر کچھ وقت کے لیے بھی بسیرا کریں، تو اسے چھوڑنے پر کتنی تکلیف ہوتی ہے، لیکن جب برسوں گزارنے کے بعد اپنے گھر بار کے ساتھ اپنے جگر گوشوں کو بھی چھوڑنا پڑے تو وہ درد کرب کوئی بھی محسوس نہیں کر سکتا، سوائے اس کے جس پر بیت جائے۔‘
ہم یہ بات پشاور کے علاقے طور بابا میں رہنے والے گل اکبر کی زبان سے اکثر سنتے تھے جو 1971 سے پہلے اس وقت کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں رہتے تھے۔ وہ فوج میں ملازم تھے اور وہیں ان کی پوسٹنگ تھی۔
مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ بنگلہ دیش کے کس شہر میں رہتے تھے لیکن چند دن پہلے سنا کہ گل اکبر کاکا کا انتقال ہو گیا ہے تو افسوس کے ساتھ ان کی کہی ہوئی بات یاد آئی۔ دل میں خیال آیا کہ گل اکبر کاکا پر وہ کچھ لکھوں جو اکثر ان کو تکلیف دیتی تھی۔
جب بھی وہ بات کرتے اور اپنی بیوی بچوں کو یاد کرتے تو الفاظ سے ان کے درد کا احساس ہوتا جو میں آج محسوس کرتی ہوں حالانکہ اس زمانے میں کہانی لگتی تھی۔
گل اکبر کا تعلق پاکستان کے شہر پشاور سے تھا اور وہ پاکستانی فوج میں بطور سپاہی ملازم تھے۔ ملازمت کے شروع سے ہی ان کی پوسٹنگ مشرقی پاکستان میں تھی۔ یہیں ان کی ملاقات ایک بنگالی لڑکی سے ہوئی۔ ایک ملاقات متعدد ملاقاتوں میں ڈھلتی گئی۔ وہ ملاقات طویل ہو کر محبت میں بدل گئی۔ کچھ ہی عرصہ بعد دونوں نے شادی کر لی۔
گل اکبر دو تین دفعہ اپنی دلہن کو پشاور بھی لے کر آئے اور اپنی فیملی سے بھی ملوایا۔ ان کی شادی پر خاندان والوں کو کوئی اعتراض بھی نہیں تھا، اس لیے وہ اکثر خود کو شادی کے معاملے میں خوش نصیب ہی سمجھتے تھے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
شادی کے تین سال کیسے گزرے، پتہ بھی نہیں چلا اور ان تین سالوں میں اللہ نے ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا، لیکن خوشی بس ان چند سال کی مہمان تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنہ 71 میں جنگ چھڑ گئی اور بالآخر مشرقی پاکستان موجودہ پاکستان سے ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہو گیا۔ پاکستان کی اس تقسیم نے تقسیم ہند کی طرح ایک مرتبہ پر خونی رشتوں کو بھی بےدردی سے تقسیم کر دیا۔ گل اکبر نہ چاہتے ہوئے بھی مجبور تھے کہ حتمی فیصلہ کریں۔
گل اکبر بتایا کرتے تھے کہ وہ رات وہ کبھی نہیں بھول سکتے جب وہ لرزتے ہونٹوں اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے وہ کرنے جا رہے تھے کہ اس کے بارے میں سوچ کر بھی کسی محبت کرنے والے کی روح کانپتی ہو۔
انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ’بیوی نے تو کافی سمجھایا تھا کہ میں ایسا نہ کروں لیکن میں اس کو عمر بھر کے لیے قیدی نہیں بنانا چاہتا تھا، کیونکہ اس کو اپنا ملک عزیز تھا اور پاکستان نہیں آنا چاہتی تھی، میں ادھر نہیں رہ سکتا تھا۔ مغربی پاکستان میں موجود اپنے بوڑھے والدین کی آنکھیں بےچینی سے میری منتظر تھیں۔ دوسری جانب میں فوج میں ملازم تھا، میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ میں نوکری چھوڑ کر بنگلہ دیش میں بس جاؤں اور فوج کا بھگوڑا کہلاؤں۔ مجھےلازمی پاکستان ہی آنا تھا۔‘
گل اکبر نے بنگلہ دیش میں اپنی آخری قیام کی رات کو اپنی محبت کو تین مرتبہ طلاق کہہ کر ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا اور اپنے سوئے ہوئے بچوں کو آخری مرتبہ سر پر بوسہ دے کر ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ دیا تھا۔
کچھ عرصہ تک خطوط کے ذریعے حال احوال معلوم ہوتا لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی معدوم پڑتا گیا اور بالآخر رابطے ہی ٹوٹ گئے۔
میری جب بھی گل اکبر کاکا سے تقسیم کی بات ہوتی تو وہ افسردہ ہو جاتے اور کہتے کہ مجھے تقسیم کے لفظ سے بھی نفرت ہے، جس نے میری بسی بسائی دنیا اجاڑ دی تھی۔
گل اکبر نے بھی سنہ 71 میں ملک کی محبت پر اپنی محبت قربان کی اور اپنے ملک اور شہر آ کر پشاور میں دوسری شادی کی اور اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کی۔
اب گل اکبر کاکا بھی اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں اور وہ محبت جو برسوں سے بسی رہی، ان کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئی ہے۔