بنگلہ دیش نے 1975 کی بغاوت میں ملوث فوج کے سابق کپتان عبد الماجد کو تقریباً ساڑھے چار دہائیوں بعد اتوار کو پھانسی دی جن پر ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کو قتل کرنے کا الزام بھی تھا۔
عبد الماجد کو سات اپریل کو بنگلہ دیش کے شہر میرپور میں گرفتار کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش کے استغاثہ کے مطابق عبد الماجد 15 یا 16 مارچ کو بھارتی شہر کولکتہ سے خفیہ طور پر بنگلہ دیش واپس لوٹے تھے جہاں وہ گذشتہ 23 سالوں سے اپنی شناخت چھپا کر قیام پذیر تھے۔
یہ پھانسی ایک ایسے وقت دی گئی ہے جب بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کی پیدائش کا صد سالہ جشن منایا جا رہا تھا۔ شیخ مجیب بنگلہ دیش کے بانی اور موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد تھے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے چار سال بعد 1975 میں شیخ مجیب کو ان کے خاندان کے چند ارکان کے ساتھ فوجی بغاوت کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔
شیخ مجیب کے قاتل عبدالماجد کون تھے؟
بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسدوزمان خان کے مطابق عبدالماجد بنگلہ دیشی فوج میں کیپٹن تھے جنہوں نے فوجی بغاوت کے دوران 15 اگست 1975 کو ڈھاکہ میں شیخ مجیب کی رہائش گاہ پر ملک کے پہلے صدر کو ان کی اہلیہ اور تین بیٹوں سمیت قتل کر دیا تھا۔
شیخ مجیب کی دو بیٹیاں، موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ اس وقت بیرون ملک ہونے کے سبب زندہ بچ گئی تھیں۔
عبدالماجد پر جیل کے اندر ملک کے چار اعلیٰ رہنماؤں کے قتل میں ملوث ہونے کا بھی الزام تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالماجد بنگلہ دیش کی فوج میں کیپٹن تھے۔ اس قتل کے بعد انہیں فوجی حکومت نے سینیگال میں بنگلہ دیشی سفارت خانے میں تعینات کر دیا تھا۔ وہ 1980 میں بنگلہ دیش کی فوج سے سبکدوش ہوئے اور ڈپٹی سکریٹری کی حیثیت سے سول انتظامیہ میں خدمات انجام دیتے رہے۔
وہ بنگلہ دیش انلینڈ واٹر ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں بھی تعینات رہے۔ بعد میں سکریٹری کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ انہوں نے نوجوانوں کی ترقی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے وزارت یوتھ اینڈ سپورٹس میں شمولیت اختیار کی۔ انہیں نیشنل سیونگ ڈائریکٹوریٹ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ وہ 1997 میں شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی شیخ حسینہ کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ملک سے فرار ہوگئے تھے۔
ڈھاکہ میں سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار 'ڈیلی سٹار' کی ایک رپورٹ کے مطابق شیخ مجیب کے قتل میں عبدالماجد براہ راست ملوث تھے تاہم وہ ان الزامات سے انکار کرتے رہے۔
وزیر داخلہ خان کے مطابق فوجی حکمران صدر ضیا الرحمٰن نے شیخ مجیب کے قاتلوں کو متعدد طریقوں سے نوازا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ صدر ضیا الرحمٰن نے عبدالماجد کو قتل میں ملوث دیگر افراد کے ساتھ بینکاک کے راستے لیبیا بھیجوا دیا تھا۔
1996 میں ملک میں عوامی لیگ اقتدار میں آئی اور اسی سال شیخ مجیب کے قاتلوں کو سزا دلانے کے لیے مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا۔ عبدالماجد بعد میں روپوش ہو گئے۔ اب یہ انکشاف ہوا کہ وہ اتنا عرصہ بھارت میں مقیم رہے۔
ٹرائل کورٹ نے 1998 میں عبدالماجد کو سزائے موت سنائی تھی۔
2001 میں ملک کی ہائی کورٹ نے عبدالماجد سمیت شیخ مجیب کے 12 قاتلوں کے لیے سزائے موت کی توثیق کی۔ بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ نے بھی 2009 میں فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
2010 میں شیخ مجیب کے قتل میں ملوث پانچ دیگر مجرموں کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
'ڈیلی سٹار' کی رپورٹ کے مطابق مزید مفرور مجرموں میں سے ایک کینیڈا میں روپوش ہے جب کہ دوسرا امریکہ میں مقیم ہے۔