امریکہ ایک بار پھر چاند پر قدم رکھنے کو تیار ہے۔ ناسا کے سپیس لانچ سسٹم (ایس ایل ایس) کا تیار کردہ آرٹیمس ون اب تک کا سب سے بڑا راکٹ ہے جو 2022 میں عملے کے بغیر چاند کے مدار کا بغیر کسی دشواری کامیابی سے چکر کاٹ کر زمین پر واپس آ چکا ہے۔
چاند پر اترنے کے لیے آرٹیمس ٹو کی ڈریس ریہرسل 2024 تک جاری رہے گی۔ اگلے برس کے شیڈول میں آرٹیمس تھری کا خلا بازوں کو چاند پر لے جانا طے ہے اور تب آخری انسان کے چاند پر قدم رکھنے کو 50 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو گا۔
1960 کی دہائی کے اواخر اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں اپالو پروگرام 12 لوگوں کو چاند پر لے گیا تھا جو تمام سفید فام مرد تھے۔
اس بار جب عملہ بردار آرٹیمس چاند پر پہنچے گا تو اس کی سطح پر پڑنے والا قدم ایک عورت کا ہو گا اور اس کے ساتھ کوئی ایسا شخص ہو گا جو سفید فام نہ ہو۔ ممکن ہے یہ دونوں چیزیں ایک ہی انسان میں جمع ہوں۔
پانچ اکتوبر، 2022 کو نکول اوناپو مان خلا میں پہنچے والی پہلی مقامی امریکی خاتون بن گئی تھیں جب بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) پر ان کا اپنا پانچ ماہ پر مشتمل مشن شروع ہوا۔
مان کا تعلق ویلاکی قبیلے سے ہے جنہیں آج کل شمال مغربی کیلی فورنیا کے لوگ کہا جاتا ہے۔
انہوں نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے لیے اڑان بھرنے سے پہلے کہا تھا کہ وہ بطور عورت خلاباز بننے کا سوچ بھی نہ سکتی تھیں۔
اپنی نسل اور جنس کا حوالہ دیتے ان کا کہنا تھا کہ ’میں 1977 میں پیدا ہوئی اور تب میرے ذہنی دائرے میں دور دور تک ایسا امکان نہ تھا۔‘
مان نے ایناپولس میں امریکی نیول اکیڈمی میں شرکت کے بعد امریکی میرین کور میں شمولیت اختیار کی اور عراق اور افغانستان میں جنگی طیارے اڑائے۔
2013 میں انہیں ناسا کے خلاباز تربیتی پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا۔ انہوں نے ایس ایل ایس کے علاوہ اورائن کیپسول کی ترقی کے لیے بھی کام کیا جس کے ذریعے ایس ایل ایس انسانوں کو چاند پر لے جائے گا اور بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے واپسی کے بعد وہ چاند پر اترنے کا دعویٰ کر سکے گا۔
لیکن مان کو چاند پر قدم رکھنے والی پہلی خاتون بننے کے لیے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ ناسا نے پہلے ہی آرٹیمس ٹیم کے 18 ابتدائی ارکان کا اعلان کر رکھا ہے، یہ خلابازوں کا ایسا گروہ ہے جو ناسا کی دوبارہ چاند پر واپسی کے لیے تربیت حاصل کر رہا ہے۔
ان میں خواتین کی تعداد نو ہے جن میں سے ایک مان ہیں۔ ان میں کرسٹینا کوچ بھی شامل ہیں جنہوں نے پہلی تین خواتین کی سپیس واک میں حصہ لیا تھا، تجربہ کار این میک کلین جو پہلے ہی خلا میں 204 دن مکمل کر چکی ہیں اور بین الاقوامی رگبی یونین کی سابق کھلاڑی جیسیکا واٹکنز بھی ان میں شامل ہیں جو اپریل 2022 میں آئی ایس ایس پر خدمات سر انجام دینے والی پہلی افریقی نژاد امریکی بن گئی تھیں۔
واشنگٹن ڈی سی کے ائیر اینڈ سپیس میوزیم اور میساچوسٹس میں سمتھسونین ایسٹرو فزیکل لیبارٹری دونوں کی امریکی خواتین کی تاریخ کی نگران ایملی مارگولس کہتی ہیں کہ ’ہم ابھی تک اس خاتون کا نام نہیں جانتے جو سب سے پہلے چاند پر قدم رکھے گی، لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ ناقابل یقین حد تک ہنر مند اور باصلاحیت ہو گی۔
’آرٹیمس ٹیم کی تمام خواتین سٹیم فیلڈز (سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئیرنگ اور ریاضی) میں اعلیٰ درجے کی ڈگریاں رکھتی ہیں اور ان میں شٹل خلاباز، تجارتی عملے کے کمانڈر اور ملٹری پائلٹ شامل ہیں۔‘
یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خلا میں اپنی کامیابیوں کے باوجود وہاں خواتین کو بھیجنے کے لیے ناسا نے اور بڑی سطح پر امریکہ نے قابل ذکر محنت کی ہے۔
مارگولس کہتی ہیں: ’یقیناً ایسا کچھ نہیں تھا کہ خلا میں پرواز کے معاملے میں خواتین کی دلچسپی یا صلاحیت کسی سے کم ہو۔ بالآخر ناسا نے ایجنسی کی تخلیق کے 20 سال بعد 1978 میں اولین خواتین کو خلاباز کور میں قبول کیا۔
’اگرچہ ناسا نے اس سے پہلے خواتین کو خلابازی کی امیدوار بننے کے لیے درخواست دینے سے واضح طور پر منع نہیں کیا تھا لیکن درکار شرائط سے خواتین خود ہی صاف طور پر باہر ہو گئی تھیں۔
’اس وقت محض فوج سے تعلق رکھنے والے تربیت یافتہ پائلٹ اہل تھے، جبکہ خواتین کے لیے فوج نے بطور کیریئر یہ راستہ بند کر رکھا تھا۔
’لیکن وقت کے ساتھ ساتھ خلاباز کی اہلیت کے تقاضے تبدیل ہو گئے بالکل اسی طرح جیسے خواتین کے کیریئر کے حوالے سے معاشرے کے خیالات تبدیل ہوئے۔
’جب ناسا نے شٹل خلابازوں کے لیے اپنی ابتدائی درخواستیں طلب کیں تب خلائی ایجنسی نے پہلی بار خواتین کو بھرتی کیا۔‘ یہ 1978 کی بات ہے۔‘
کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ ناسا خواتین خلابازوں کو خلا میں بھیجنے سے ہچکچا رہا تھا کیونکہ اگر کوئی تباہ کن حادثہ پیش آ جائے اور اس میں کوئی خاتون شامل ہو تو ردعمل کہیں زیادہ سخت ہو سکتا تھا۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسی صورت حال 1986 میں پیش آئی۔ خلائی مشن پر اڑان بھرنے والے دو اراکین پارلیمان کے علاوہ اولین امریکی شہری اور سکول ٹیچر کرسٹا میک اولف بھی چیلنجر خلائی شٹل کی تباہی کے دوران ہلاک ہو گئی تھیں۔
یہ شٹل اس وقت پھٹ گئی تھی جب اس کا ایک بیرونی ٹھوس راکٹ بوسٹر پرواز کے 73 سیکنڈ بعد ناکارہ ہو گیا۔
شاید اپنے تمام فوجی پیشہ ور ساتھی خلابازوں سے زیادہ میک اولف کی موت نے امریکی عوام پر گہرا اثر ڈالا۔
لیکن مارگولس کا کہنا ہے کہ اس میں میک اولف کی جنس سے زیادہ ان کے استاد اور ایک عام شہری ہونے کی حقیقت کا زیادہ کردار تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک پیشہ ور خلاباز جوڈی ریسنک بھی اس حادثے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
’کرسٹا کی موت کا اتنا اثر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ خلا میں جانے والی امریکہ کی پہلی ٹیچر بننے والی تھیں۔
’ان کے سفر سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں۔ بہت سے اساتذہ اور طالب علموں نے اس پرواز کو براہ راست ٹیلی ویژن پر دیکھا کیونکہ یہ سکول کے اوقات میں گرا تھا۔ یہ صدمہ انگیز تھا۔‘
میک اولف کی موت کے نتیجے میں ناسا کے عام شہریوں سے متعلق امریکی خلائی پروگرام کو منسوخ کر دیا گیا۔
مارگولس کا کہنا ہے کہ ’ناسا کو عام شہریوں کی ہلاکت کا خطرہ اتنا بھاری محسوس ہوا کہ ان کے لیے اسے جاری رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔
’عملے کی موت نے ایک ایسی قوم کو صدمے سے دوچار کیا جس نے ہمیشہ اپنے خلابازوں کو زمین پر بحفاظت پلٹتے دیکھا تھا۔ عام عوام کی نظروں میں خلائی شٹل ایک محفوظ اور آرام دہ سواری سمجھی جاتی تھی۔ لیکن چیلنجر ممکنہ خطرات کی ایک المناک یاددہانی تھی۔‘
سائنسی رسالے ’نیو سائنٹسٹ‘ نے لکھا کہ ’میک اولف کی موت خاص طور پر تکلیف دہ ہے۔ خلائی مسافر وہ اہداف ہیں جن پر بہت سے عام لوگ اپنے خیالات کو نقش کرتے ہیں، کہ وہ مسکراتے ہوئے ہوں گے، نیو ہیمپشائر کی ایک سکول ٹیچر کا مطلب ہے کہ ناسا پر ان لوگوں کی حفاظت کا بہت زیادہ دباؤ ہو گا جنہیں وہ خلا میں بھیجنے کے لیے منتخب کرتے ہیں۔
شاید وہ دوبارہ کبھی کسی سویلین کو بھیجنے کا انتخاب نہ کرے۔‘ ناسا نے اس کے برعکس کیا لیکن اس کا انتخاب انتہائی گہری سوچ پر مبنی تھا۔
خلا میں جانے والی پہلی امریکی خاتون سیلی رائیڈ تھیں ستم ظریفی یہ ہے کہ انہوں نے 18 جون، 1983 کو اسی خلائی شٹل چیلنجر پر مدار میں اڑان بھری جو تین سال بعد تباہی سے دوچار ہوا تھا۔
رائیڈ نے ایک اخباری اشتہار دیکھ کر درخواست دی تھی جس میں لکھا تھا کہ ناسا کو کچھ خواتین خلا بازوں کی ضرورت ہے۔
ان کی کامیاب واپسی بعد اس سے پہلے اٹھائے جانے والے سوالات خود ہی دم توڑ گئے جن میں براہ راست یہ سوال بھی شامل تھا کہ ’کیا پرواز آپ کے تولیدی اعضا کو متاثر کرے گی؟‘
خلا میں جانے والے پہلے امریکی مرد ایلن شیپرڈ سے تقریباً کبھی ایسے یا اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز سوالات نہیں پوچھے گئے تھے کہ ’جب کام کاج کے دوران کچھ غلط ہو جائے تو آپ روتے ہیں؟‘
رائیڈ نے میک اپ بیگ لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ایک مثبت چیز یہ ہوئی کہ ان کی پرواز نے حقوق نسواں کے نعرے ’رائیڈ سیلی رائیڈ‘ کا روپ دھار لیا جو پورے امریکہ اور اس سے باہر بھی ٹی شرٹس پر لکھا ہوا تھا۔
اگرچہ سیلی رائیڈ خلا میں اڑان بھرنے والی پہلی امریکی خاتون تھیں لیکن بحیثیت مجموعی وہ تیسری عورت تھیں۔
فلوریڈا کے کینیڈی سپیس سینٹر سے اس پرواز کے آغاز سے دو دہائیاں قبل سوویت فضائیہ میں لیفٹیننٹ ویلنتینا تیریشکووا کو ووسٹوک 6 کے ذریعے مدار میں پہنچایا گیا اور یوں وہ خلا میں اڑان بھرنے والی پہلی خاتون بن ہیں۔
انہوں نے پہلے مرد خلا باز یوری گیگارین کے محض دو سال بعد 16 جون، 1963 کو خلا کا سفر کیا تھا۔
اگرچہ اس وقت تیریشکووا کو حقوق نسواں کی بڑی شخصیت کے طور پر سراہا گیا تھا اور آج تک ایسا ہے لیکن ان کی پرواز خواتین کے خلائی سفر سے وابستہ سوالات کی گرد نہ جھاڑ سکی جیسا کہ بہت سوں کو توقع تھی اور شاید یہ اس میں حیرت کی بات بھی نہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ وہ واحد خاتون ہیں جنہوں نے خلائی جہاز تن تنہا اڑایا اور اب بھی خلا میں پرواز کرنے والی سب سے کم عمر خاتون ہیں۔
یہ واقعی ایک مختلف دور تھا۔ خبر رساں ایجنسی یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل نے سرخی جمائی کہ ’کمیونسٹ خواتین کی طرف سے خلا میں پہلی خاتون کا پرجوش خیر مقدم۔‘ اس کے نیچے لکھا تھا کہ ’خواتین نے چار روزہ اجلاس میں انہیں سراہتے ہوئے اپنے مقاصد خواتین کے حقوق، امن اور تخفیف اسلحہ کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا۔‘
اس نے مزید لکھا کہ ’سوویت پروپیگنڈہ میڈیا مس تیریشکووا کو مغرب کے مقابلے کمیونسٹ نظام میں خواتین کے لیے بہتر مواقع کے ثبوت کے طور پر استعمال کر رہا ہے جہاں سوویت حکام کے مطابق لاکھوں خواتین پسماندہ ہیں۔‘
یہ رپورٹ ہر لحاظ سے تعصب اور شکوک و شبہات پر مبنی ہے۔ شکوک و شبہات کچھ زیادہ غلط بھی نہ تھے۔ یہ کہا گیا کہ سوویت وزیر اعظم نکیتا خروشیف نے ’مس تیریشکووا کا بوسہ لینے کے لیے فاتحانہ تقریر میں خلل ڈالا۔‘
تیریشکووا کے اڑان بھرنے کے 19 سال بعد ایک اور خاتون خلا میں پہنچی، رائیڈ سے ایک برس پہلے 1982 میں سوویت خلاباز سویتلانا ساویتسکایا۔ سوویت یونین کی صنفی برابری کی بات جو تیریشکووا کے شاندار آغاز کے ذریعے کی گئی تھی وہ ہمیشہ ایک ڈھکوسلہ تھا۔
ایک بار جب خروشیف نے شہ سرخی میں یہ برابری کی بات دیکھ لی، اور بوسہ بھی لے لیا، تو پدر سری نظام واپس اپنی ڈگر پر آ گیا۔
حقیقت میں سوویت یونین کا عورت کو خلا میں بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن جب 1961 میں کاسموناٹ ٹریننگ کے ڈائریکٹر نکولائی کمانین نے سنا کہ امریکہ اس پر غور کر رہا ہے تو انہوں نے سوچا کہ یہ ’سوویت خواتین کے جذبہ حب الوطنی کی توہین‘ ہو گی۔
کمانین کی معلومات غلط تھیں۔ امریکہ کا کسی خاتون کو خلا میں بھیجنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔
تاہم ناسا سے بالکل الگ فزیشن ولیم رینڈالف لولیس نجی طور پر چلائے جانے والے ’ویمن اِن سپیس‘ پروگرام کے ایک حصے کے طور پر 13 امریکی خواتین کی خلائی پرواز کے لیے نفسیاتی جانچ کر رہے تھے۔ شاید یہیں سے کمانین کو غلط خفیہ معلومات ملیں۔
وجہ کچھ بھی ہو انہوں نے کام کیا۔ جنوری 1962 تک 400 امیدواروں کا انتخاب کیا جا چکا تھا، یہ تمام پیراشوٹسٹ تھے۔
ایک ماہ بعد ان کی تعداد کم کر کے پانچ کر دی گئی۔ تب تک ان سب کو معلوم تھا کہ ان میں سے صرف ایک ہی خلا میں پرواز کرے گا باقی سب ریٹائر ہو جائیں گے۔ بعد میں واضح ہوا کہ وہ محض ایک پروپیگنڈا سٹنٹ کا حصہ تھے۔
پرواز کے لیے تیریشکووا کی قریب ترین حریف ویلنتینا پونوماریووا کو بالآخر مسترد کر دیا گیا جب انٹرویوز میں یہ واضح ہو گیا کہ وہ حقوق نسواں کے گہرے خیالات رکھتی ہیں بجائے یہ کہ سوویت دور کے سیاسی پراپگنڈے پر انحصار کریں جن کی ان سے توقع کی جاتی تھی۔ سوویت خلائی پروگرام کی مساوات پرستی کا دعوی ہمیشہ سے ہی غیر حقیقی تھا۔
خلا میں پہنچنے والی پہلی برطانوی شخصیت ہیلن شرمین نے 1991 میں سوویت یونین کے میر خلائی سٹیشن سے اڑان بھری تھی، وہ کہتی ہیں کہ ’یہ سب کچھ امریکہ کے مقابلے میں اولیت حاصل کرنے کی دوڑ تھی، زمین کے گرد چکر لگانے والا پہلا خلائی جہاز، خلا میں پہنچنے والا پہلا شخص جو تب ہمیشہ مرد ہی ہوتا تھا، خلا میں پہنچنے والی پہلی عورت، پہلی سپیس واکر وغیرہ۔
’اگرچہ سوویت یونین میں خواتین معمول کے مطابق انجینیئر، ڈاکٹر اور کسان تھیں لیکن اس کے باوجود یہ ایک پدرسری معاشرہ تھا۔ روایتی اقدار جن میں خواتین کا بنیادی اور اولین فریضہ ماں بننا اور گھر سنبھالنا تھا۔‘
کمانین نے خاتون خلابازوں کو کم تر سمجھتے ہوئے انہیں ’سکرٹس میں گیگارین‘ کہا تھا۔ ان کے نزدیک عورت کو خلا میں بھیجنا ایک بڑے مقصد کے لیے ایک معمولی ذریعہ تھا۔
شاید کمانین ان افواہوں کا بھی ذریعہ رہے ہوں کہ تیریشکووا پرواز کے دوران اتنی بیمار ہو گئیں کہ اپنا کوئی کام خود سرانجام نہ دے سکتی تھیں اور بعد میں یہ چیز خواتین خلابازوں کو خلا میں نہ بھیجنے کے بہانے کے طور پر استعمال کی گئی۔ تیریشکووا نے ہمیشہ اس کی تردید کی اور مورخین اب قبول کرتے ہیں کہ یہ دعویٰ غلط تھا۔
لیکن اپنی پرواز کو درپیش مایوس کن اندرونی رکاوٹوں کے باوجود تیریشکووا کا کارنامہ قابل ذکر تھا۔
بھلے پس پردہ مختلف سیاسی چال بازیاں کام کرتی رہی ہوں لیکن کامیابی ان سب کا اثر زائل کرنے کو کافی تھی۔
وہ سوویت بیوروکریسی کی اَن جانے میں کٹھ پتلی ہو سکتی تھیں لیکن انہیں ہر مرد خلاباز کی طرح مطالعہ، تربیت اور اڑان بھرنا پڑی، جن میں سے اکثر گریڈ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے، اور ایسے وقت میں جب حفاظتی بندوبست کی طرف نہ زیادہ توجہ تھی نہ کوئی گارنٹی حاصل تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں تک کہ ایک داستان کے مطابق اگر وہ باریک بین اور اس خلائی جہاز کی ماہر واقف کار نہ ہوتیں جس میں انہیں لے جایا جا رہا تھا تو شاید وہ خلا میں مرنے والی پہلی خاتون ہوتیں۔
پرواز کے فوراً بعد انہیں احساس ہوا کہ کیپسول کا ری انٹری سسٹم زمینی انجینئرز نے غلط طریقے سے ترتیب دیا ہے۔
انہوں نے مشن کنٹرول کے ساتھ اس وقت تک بحث کی جب تک انہیں احساس نہ ہو گیا کہ وہ درست ہیں اور انہوں نے اپنے مشن میں توسیع کے ساتھ اپنی نئی ترتیبات بھیج دیں۔
انہوں نے ان سے یہ بات صیغہ راز میں رکھنے کی کی قسم بھی لی تھی۔ تیریشکووا کو ہمیشہ گمان رہا ہے کہ زمین پر موجود مرد عملے میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ یہ بات سامنے آئے کہ کسی عورت نے ان کی غلطی پکڑی ہے۔
انہیں لینن انعام سے نوازا گیا اور وہ سوویت یونین کی ہیرو بن گئیں۔ وہ 1991 میں سوویت یونین تحلیل ہونے تک اس کی کمیونسٹ پارٹی کی پرعزم رکن رہیں اور آخری سوویت وزیر اعظم میخائل گورباچوف کی اصلاحات کی سخت مخالف تھیں جس کی وجہ سے وہ قوم بکھر گئی جس نے انہیں خلا تک پہنچایا تھا۔
آج انٹرویو لینے جب گورباچوف کے متعلق ان کی رائے مانگتے ہیں تو وہ اکثر کہتی ہیں ’میں ان کا نام بھی نہیں سننا چاہتی۔ سوویت یونین نے غلطیاں کیں لیکن اس کی کامیابیوں کو نظر انداز کرنا غلط ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک عظیم قوم تھی۔‘
سوویت حب الوطنی جو اب بھی ان کے اندر باقی ہے اس نے ان کے مستقبل کی سیاسی سمت متعین کی۔ حالیہ برسوں میں انہوں نے کم از کم اہل مغرب کی نظروں میں اپنی ساکھ کو کسی حد تک داغدار کیا کیونکہ وہ روس کے آمر رہنما ولادیمیر پوتن کی حامی ہونے کی وجہ سے یونائیٹڈ رشیا پارٹی کے امیدوار کے طور پر انتخابی میدان میں اتریں اور ڈوما میں ایک نشست جیت لی۔
85 سال کی عمر میں وہ اب بھی ایک سادہ شخصیت ہیں جو اکثر چہرے پر سنجیدگی لیے بظاہر اس دن کی طرح پرعزم دکھائی دیتی ہیں جب انہوں نے چھ دہائیاں قبل ووسٹوک 6 میں قدم رکھا تھا۔
شرمین کہتی ہیں ’جب میں نے ماسکو کے شمال میں واقع سٹار سٹی میں تربیت حاصل کی تو اس دوران میں ہمیشہ سینیئر خلابازوں خاص طور پر ویلینتینا سے خوف زدہ رہتی تھی۔
’لیکن مجھے ان سے تعارف کا موقع ملا اور قازقستان میں پرواز کے لیے روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے میرے اور میرے عملے کے اعزاز میں دیے گئے ناشتے میں شرکت کو یقینی بنایا۔
’وہ ہمیشہ خواتین خلائی جہازوں کے لیے تعاون کو تیار رہتی تھیں۔ ہمارا اب بھی دنیا بھر میں مختلف تقریبات میں ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوتا رہتا ہے، کرونا اور یوکرائن کی جنگ کے حالیہ عرصے کو چھوڑ کر، ویلنتینا ہمیشہ اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ تمام خواتین خلابازوں کو ایک تصویر میں اکٹھا کیا جائے۔‘
اب امریکہ کے پاس تیریشکووا کی جدید دور کی جانشین پیدا کرنے کا موقع ہے۔ چاند پر قدم رکھنے والی پہلی خاتون کو خلا میں اڑان بھرنے والی پہلی خاتون کی طرح سراہا جائے گا بالکل اسی طرح جیسے چاند پر چلنے والا پہلا آدمی نیل آرمسٹرانگ اور گیگارین کی آج تک ستائش کی جاتی ہے۔
مارگولس بتاتی ہیں کہ منتخب کرنے کے لیے پورا طریقہ کار اپنایا جائے گا لیکن ’یہ خلا سے متعلق ناسا کے دفتر کا دائرہ کار ہے۔ ناسا عام طور پر اس عمل پر تبصرہ نہیں کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں صرف انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا کہ کون سامنے آتا ہے۔‘
شرمین اس دن اور پھر اس وقت کا انتظار کر رہی ہے جب ایک عورت چاند پر قدم رکھے گی لیکن انہیں خیال آتا ہے کہ تیریشکووا کے درجے کی کامیابی اپنی اہمیت کے باوجود بعض اوقات خلائی سفر کرنے والی قوموں کے درمیان لڑی جانے والی پروپیگنڈہ جنگ میں کھو جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ناسا کی پریس اور پی آر مشین اس بات کو یقینی بنانے میں خوب چلتی ہے کہ مثال کے طور پر ہم سیلی رائیڈ کو نہ بھولیں اور یہ کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہو کہ جب دو امریکی خواتین نے ایک ساتھ خلا میں چہل قدمی کی، لیکن کیونکہ برطانوی سیاست روس سے زیادہ امریکہ کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے اس لیے نصاب اور ثقافت کے ذریعے روس کے مقابلے میں امریکی کامیابیوں کو کہیں زیادہ سراہا جانا ہے۔‘
وہ محسوس کرتی ہیں کہ تیریشکووا کے کارنامے کا ذکر آج کل ذرا کم کم ہوتا ہے۔
لیکن تاریخ کا رخ موڑتے ہوئے اور خواتین 60 سال بعد بھی جس آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی اسے حاصل کرتے ہوئے تیریشکووا نے، انہیں خلا میں بھیجنے کے پیچھے جو بھی مقاصد تھے ان سے قطع نظر، اگر ثبوت کی ضرورت تھی تو ثابت کر دکھایا کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔
ووسٹوک 6 میں ان کی پرواز اتنی ہی کامیاب اور مکمل تھی جتنی ان کے مرد ہم وطنوں کی تھی۔ انہوں نے ایک نئی بنیاد رکھی، آج تک 75 خواتین خلا میں اڑ چکی ہیں، اور وہ فیمنسٹ رول ماڈل بن چکی ہیں۔
بہت جلد ایک عورت چاند پر قدم رکھے گی۔ اور وہ شہرت جو کبھی تیریشکووا کو ملی تھی اب ان کے کندھوں پر منتقل ہو جائے گی۔ یہ ایک غیر معمولی کامیابی ہو گی۔
© The Independent