پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پنجاب میں 14 مئی 2023 کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا حکم دیا ہے۔
اس فیصلے کے بعد کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم ہو گا یا مزید بڑھے گا اور کیا حکومت پنجاب میں عام انتخابات عدالتی حکم کے مطابق کروائے گی؟ نیز سیاسی جماعتیں، تجزیہ کار اور وکلا اس فیصلے کو کیسے دیکھتے ہیں؟
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ ’اس فیصلے سے سیاسی اور آئینی بحران بڑھے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومتی اتحاد اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہے کیونکہ ابھی تک سپریم کورٹ اس ابہام کو ہی دور نہیں کر سکی کہ 184/3 کے حوالے سے فیصلہ تین چار کا تھا یا دو تین کا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے پر چھ رکنی بینچ بھی بنا دیا گیا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم ہے اور اس تقسیم کو چیف جسٹس آف پاکستان نے ہی ختم کرنا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سینیئر ججز کو تمام معاملات سے دور رکھا جا رہا ہے اور جو چھ رکنی بینچ بنایا ہے اس پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ آئین پاکستان، عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی جیت ہے۔ آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدالتی نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کی انتخابات کے لیے تیاریاں مکمل ہیں اور الیکشن کمیشن کو 14 مئی کو انتخابات کروانا پڑیں گے ورنہ بہت سے حکومتی اراکین توہین عدالت کے نتیجے میں گھر جائیں گے۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے سینیئر وکیل سیف الملوک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ فیصلہ آئین کے مطابق ہے اور اس کے نتیجے میں انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا چاہیے۔ اگر انتخابات نہیں کروائے جاتے تو ملک میں ایک روایت قائم ہو جائے گی کہ جس کے پاس طاقت ہوگی وہ اس جمہوری عمل کو ہمیشہ روکنے کی کوشش کرے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس فیصلے کی تشریح کے لیے آئینی ماہر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک عام آدمی کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ اگرپنجاب اسمبلی ٹوٹ گئی ہے تو انتخابات 90 دن میں ہونے چاہئیں کیونکہ نگران حکومت کو 90 دن سے زیادہ معاملات چلانے کا اختیار نہیں اور نہ ہی اس کی مدت میں توسیع کا کوئی قانون ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار مبشر بخاری نے اس صورت حال کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس فیصلے سے سیاسی اور آئینی بحران بڑھے گا۔ اگر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اس فیصلے کو نہیں مانتی اور اپنے اعلانات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، اعجازالااحسن اور منیب اختر کے خلاف ریفرنسز لاتی ہے توسیاسی و آئینی بحران مزید بڑھے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’جس بات کواس وقت نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ بنانے کے اختیار کے حوالے سے قانون سازی کی ہے اور بل صدر مملکت عارف علوی کے پاس دستخط کے لیے موجود ہے۔ صدر نے اس بل پر اب تک دستخط نہیں کیے اور شاید وہ کریں بھی نہ، لیکن 25 دن کے بعد یعنی کہ 20 اپریل کے لگ بھگ وہ قانون کے طور پر لاگو ہو جائے گا۔‘
مبشر بخاری کے مطابق ’اگر حکومت اس فیصلے کے خلاف کچھ کرنا چاہے تو 20 اپریل کے بعد نیا قانون نافذ العمل ہو جائے گا اور اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکے گی جس کے لیے بینچ بنانا صرف چیف جسٹس کی صوابدید نہیں ہو گا بلکہ دو سینیئر ترین ججز یعنی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کی مشاورت لازمی ہوگی۔‘
’ایسی صورت میں اگر دو اراکین اپیل کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ کا فیصلہ کرتے ہیں تو انتخابات کے حوالے سے مزید تاخیر ہو سکتی ہے کیونکہ ایسی صورت میں اس پر حکم امتناع آ جائے گا۔ لیکن اس میں سپریم کورٹ ، جو اب بھی تقسیم کا شکار ہے مزید تقسیم نظر آئے گی، اور اس کا اثر عوام پر بھی پڑے گا۔ نتیجتاً سیاسی عدم استحکام کو مزید تقویت ملے گی۔‘